• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ میں سماعتوں کے دوران یہ تاثر گہرا ہوتا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت غیر مستحکم ہے۔ پہلے جے آئی ٹی اور پھر سپریم کورٹ کی کارروائی کے دوران جب موجودہ حکومت مصائب میں گھری نظر آئی تو اسٹاک مارکیٹ میں چند دن مندی کا رجحان رہا۔ اب جبکہ ملک میں جمہوری حکومت کا مستقبل ہر طرف سے مخدوش نظر آرہا ہے تو اسٹاک مارکیٹ مستحکم ہو گئی ہے۔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت بھی انتشار کا شکار ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہے۔ اگر اسٹاک مارکیٹ کے معروف نظریوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان غیر یقینی سیاسی حالات میں اسٹاک مارکیٹ کو بھی شدید بحران کا شکار ہونا چاہئے۔ لیکن ایسا نہیں ہے اور امریکہ کی اسٹاک مارکیٹ نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ مندرجہ بالا مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ معمول کے سیاسی اتار چڑھائو سے اس وقت تک بے نیاز رہتی ہے جب تک معاشی اشاریے مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہوں۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کے لئے سیاسی غیر یقینی حالات زہر قاتل ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کار سیاسی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں سیاسی تبدیلی سے معیشت کے متاثر ہونے کے امکانات ہوتے ہیں اور ملک میں کمپنیوں کے منافع کی شرح پر بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن اگر سیاسی ہلچل میں بھی اسٹاک مارکیٹ بلندیوں کی طرف جائے یا مستحکم رہے تو اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ سرمایہ کار طبقے کی نظر میں بظاہردکھائی دینے والی سیاسی بحرانی کیفیت ملک کی معیشت کو متاثر نہیں کر سکتی تو وہ سیاسی عوامل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً امریکہ میں بیروزگاری نچلی ترین سطح پر ہے اور کارپوریشنوں کا منافع بلند ترین، اور اس رجحان میں تبدیلی نظر نہیں آرہی تو سرمایہ کار طبقہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ صدر ٹرمپ کی غیر یقینی صورت حال کا مارکیٹ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
امریکہ کی اسٹاک مارکیٹ 2007سے اوپر جارہی ہے۔ اس سے پہلے صدر بش کے دور میں بینکاری کا نظام شدید بحران کا شکار ہو گیا تھا ، ملک میں بیروزگاری بڑھ رہی تھی اور کاروباری تنظیمیں منافع میں نہیں چل رہی تھیں۔ صدر باراک اوباما نے اس نوع کی معاشی اصلاحات کیں کہ مالی بحران ٹل گیا، بیروزگاری گھٹنے لگی اور کاروباروں کا منافع بڑھنے لگا۔ چنانچہ امریکہ کی اسٹاک مارکیٹ 2007 سے اوپر جانا شروع ہو گئی۔ جب صدر اوباما کا دور ختم ہوا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد کا آغاز ہوا مارکیٹ کا مثبت رجحان جاری رہا۔ یہ اس لئے ہوا کہ صدر اوباما کے زمانے سے شروع ہونے والی معاشی بحالی کا عمل جاری رہا۔ گویا کہ 2007 کے بعد معرض وجود میں آنے والی معاشی ہم آہنگی دیر پا ثابت ہوئی۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اکثر سروے ڈیموکریٹک پارٹی کی ہلیری کلنٹن کو جتوا رہے تھے اور اسٹاک مارکیٹ اوپر جا رہی تھی۔ یعنی اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی بجائے ہلیری کلنٹن جیت جاتیں تو مارکیٹ کے رجحان میں کوئی تبدیلی متوقع نہیں تھی۔
پاکستان کی سیاسی معیشت کا جائزہ لیں تو حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اسی کی دہائی کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ تقریباً ہر حکمران اسٹاک مارکیٹ میں اضافے کو اپنی کامیاب معاشی پالیسیوں کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ پاکستان کی پچھلی چالیس سال کی تاریخ سیاسی بحرانوں کا شکار رہی ہے۔ ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ، افغان جہاد، نوے کی دہائی کی غیر مستحکم جمہوری حکومتیں، ہر طرف پھیلتی ہوئی فرقہ پرستی اور دہشت گردی، جنرل پرویز مشرف کا مارشل لاء، پیپلز پارٹی کی بری گورننس اور بد عنوانی۔ غرضیکہ اگر پاکستان کا سیاسی بیانیہ دیکھیں تو وہ کلیتاً منفی نظر آتا ہے۔ بظاہر پاکستان جس طرح کے سیاسی ادوار سے گزرا ہے اس میں نہ ہی معیشت ترقی کر سکتی تھی اور نہ ہی اسٹاک مارکیٹ اوپر جا سکتی تھی لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ۔پاکستان اسی کی دہائی سے لے کر اب تک مسلسل معاشی ترقی کرتارہا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کبھی سست تو کبھی تیز رہی لیکن معاشی طور پر آگے بڑھنے کا عمل جاری رہا۔ بلکہ یہ کہنا چاہئےکہ ان چالیس سالوں میں خاموش معاشی انقلاب برپا ہو گیا ہے جس سے روایتی سماج کلیتاً تبدیل ہو گیا ہے۔
پاکستان میں حالیہ معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ پاکستانی فوج کے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کا مرہون منت ہے۔ اگرچہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے زمانے میں بھی معاشی اشاریے مثبت رہے اور بڑے بڑے کاروبار منافع بخش رہے۔ پاکستان میں امیروں کی تعداد اور ان کی دولت میں دہشت گردی کے زمانے میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب سے فوج نے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے منفی رجحانات پر قابو پایا ہے تو معاشی ترقی کی رفتار اور اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آئی ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت دہشت گردی کے خاتمے کا سہرا اپنے سر پر باندھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر نواز حکومت بر طرف ہوجائے تو کیا فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں بند کردے گی، کیا کراچی آپریشن ختم ہو جائے گا؟ ظاہر بات ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اس لئے اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو حکومتی تبدیلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اگرچہ پاکستان میں پچھلے چالیس سالوں میں سیاسی بحران اور معاشی ترقی ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں لیکن پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میں سیاسی استحکام اور امن و امان ہوتا تو پھر پاکستان کس جگہ کھڑا ہوتا۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر پاکستان میں سیاسی استحکام ہوتا تو پاکستان میں چین اور ہندوستان کی طرح ترقی کی رفتار دس فیصد سالانہ کے قریب ہوتی۔ پاکستان اب تک جنوبی کوریا جیسے ملکوں کی صف میں ہوتا۔ غرض کہ اگرچہ حکومتی تبدیلی سے اسٹاک مارکیٹ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا لیکن اگر ملک میں سیاسی استحکام آجائے تو ملک میں تیز تر ترقی ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین