• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کویت، پاکستان ، مصر اورامریکہ کے بعد اب ترکی، قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان تنازع کو حل کرنے کی کوششوں کا آغاز کرچکا ہے۔ ترکی میں کابینہ میں ہونے والی تبدیلی کے بعد صدر ایردوان نے پہلی فرصت میں خطے کے ممالک کا دورہ شروع کیا ۔ دو روزہ سعودی عرب، کویت اور قطر کے دورے کے پہلے مرحلے پر جدہ روانگی سے قبل استنبول کے اتاترک ہوائی اڈے پر بیان دیتے ہوئے صدر ایردوان نے اسرائیل کی جانب سے مسجدِ اقصیٰ میں عبادت پر پابندی لگانے سے متعلق شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ صدر ایردوان نے کہا ہے کہ القدس میں حرم الشریف تمام عالمِ اسلام کے وقار، عزت و ناموس اور مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ القدس میں جاری کشیدگی کو فوری طور پر ختم کروانے کیلئے ترکی اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ انہوں نے اسرائیل سے بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئےکہا کہ اس بحران کو طول دینے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے قطر بحران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی ممالک کے علاوہ دیگر اہم ممالک اس مسئلے کو حل کرنے میں کردار ادا کریں۔
صدر ایردوان جب جدہ شاہ عبدالعزیز انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچے تو شاہی ٹرمینل پر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خود استقبال کیا ۔ صدر ایردوان کے ہمراہ ان کی اہلیہ امینے ایردوان، وزیر خارجہ مولود چاوش اولو، وزیر اقتصادیات نہایت زیبکچی، وزیر توانائی اور قدرتی وسائل بیرات البائراک، وزیر قومی دفاع نوروالدین جانیکلی، مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی آقار اور خفیہ سروس کے سربراہ حقان فدان بھی تھے۔ دونوں ممالک کے وفود کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان ون ٹو ون ملاقات ہوئی اور علاقائی صورتِ حال پر تفصیلی بات چیت کرنے کے علاوہ قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان بحران کو دور کرنے کے مختلف پہلوئوں پر غور کیا گیا۔ صدر ایردوان نے سعودی عرب کے نئے ولی عہد پرنس محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی۔ اس کے بعد ترک وفد کویت روانہ ہوگیا ۔ کویت پہنچنے پر کویت کے امیر شیخ صباح ال احمد ال جابر الصباح نے صدر ایردوان اور ان کے ہمراہی وفد کا استقبال کیا۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان اختلافات دور کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعاون کرتے ہو ئے اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
کویت کا دورہ مکمل کرنے کے بعد صدر ایردوان قطر روانہ ہوگئے جہاں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے حماد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر استقبال کیا۔ بعد میں دونوں رہنماؤں نے ون ٹو ون طویل ملاقات کی اور پھر دونوں ممالک کے وفود کے درمیان مذاکرات منعقد ہوئے۔ مذکرات میں علاقے کی تازہ ترین صورتِ حال پر غور کرنے کے علاوہ اس بحران پر قابو پانے کے لئے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ صدر ایردوان کو قطر میں جب سے قطر بحران پیدا ہوا ہے بڑی مقبولیت حاصل ہوگئی ہے، قطر کے میڈیا نے صدر ایردوان کے ثالثی کے کردار کو سراہا اور صدر ایردوان کی دل کھول کر تعریف کی ہے، قطر کے تمام ہی اخبارات نے صدر ایردوان کے بارے میں خصوصی مضامین شائع کئے۔
صدر ایردوان قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان تنازع ختم کروانے کے لئے شروع دن ہی سے اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھےہوئے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر زور دیا ہے کہ وہ ایک ایسا موقف اختیار کریں جو امن اور مشترکہ مفادات پر مبنی ہو، ورنہ تنازعات سے تنازعات ہی پیدا ہوتے ہیں، جن کے نتائج کسی کو معلوم نہیں ہوتے۔
ترکی کے قطر کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات قائم چلے آرہے ہیں بلکہ قطر کو ترکی کے ایک حلیف ملک کی حیثیت بھی حاصل ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ایردوان اپنے اس دورے کے دوران اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ ترکی پہلے ہی قطر کی زمینی ناکہ بندی کو انٹرنیشنل قوانین کی خلاف ورزی قرار دے چکا ہے۔ قطر اور ترکی کئی برسوں سے مضبوط اقتصادی روابط رکھتے ہیں۔ تنازع کا ایک نکتہ قطر میں ترک فوجیوں کی موجودگی اور اُس کے فوجی اڈے کو ختم کرنا ہے تاہم ترکی خلیجی ممالک کو اپنے اس مطالبے سے باز رکھنے میں کامیاب ہوچکا ہے اور خلیجی ممالک نے اپنے اس مطالبے سے دستبرداری کا بھی اعلان کردیا ہے۔ قطر میں ترکی کا فوجی اڈہ قطر اور خطے میں سیکورٹی کا ضامن ہے۔ ترکی نے اپنے مزید فوجی قطر روانہ کئے ہیں اور قطر میں ترک فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے تاہم انقرہ کے مطابق یہ ترک فوجی قطر کے ہمسایہ ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ دنوں میں ترکی اور قطر کے فوجی مشترکہ مشقیں بھی کریں گے، جن میں ممکنہ طور پر امریکی دستے بھی شریک ہوں گے۔
قبل ازیں کویت کے امیر، متحدہ عرب امارات، امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے اعلیٰ سفارت کار بھی اس بحران کے خاتمے کی کوششیں کر چکے ہیں تاہم انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔
پانچ جون کو سعودی عرب سمیت چھ عرب ممالک نے جن میں مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا اور یمن شامل تھے،قطرپر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ عرب فوجی اتحاد سے بھی خارج کردیا تھا۔ ان ملکوں نے قطر کے ساتھ ہر قسم کے زمینی، فضائی اور سمندری رابطے بھی معطل کردیئے اور سعودی عرب نے فوری طور پر قطر کو تیرہ مطالبات پیش کئے جن میں ہرجانہ ادا کرنے، مطلوبہ افراد کو حوالے کرنے، شدت پسند تنظیموں کی مالی مدد بند کرنے، حزبِ اختلاف کی ان شخصیات کے متعلق بھی مکمل معلومات فراہم کرنے جن کی ماضی میں قطری حکومت مدد کرتی رہی ہے۔ علاوہ ازیں اپنے عربی ٹی وی چینل ’’الجزیرہ‘‘ اور اس کے تمام ذیلی اداروں اور شاخوں اور دیگر نشریاتی اداروں کو بند کرنے، ایران میں اپنی تمام سفارتی تنصیبات بند کرنے اور صرف امریکہ کی طرح محدود پیمانے پر تجارتی تعلقات قائم رکھنے کا کہا گیا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قطر کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کرنے کےفوراً بعد قطری حکومت نے الزام عائد کیا کہ یہ ممالک قطر کو اپنا ’’باج گزار‘‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو دوحہ حکومت کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔ یاد رہے کہ 6ممالک کی جانب سے پابندیوں کے نفاذ کے بعد ترکی قطر کو فضا کے راستے خوراک اور دیگر سامان فراہم کرتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی نے قطر کو مال بردار بحری جہاز بھی روانہ کئے تاکہ قطر ناکہ بندی کو ختم کیا جاسکے۔ صدر رجب طیب ایردوان نےبارہا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ’’قطر کے معاملے میں ایک نہایت بھیانک غلطی کی گئی ہے۔ ایک قوم کو ہر طرح سے تنہا کرنے کے اقدامات غیرانسانی اور اسلامی اقدار کے منافی ہیں۔ یہ تو یوں ہے کہ قطر کے لئے سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ’’قطر نے ترکی کے ساتھ مل کر دولتِ اسلامیہ (داعش) جیسی شدت پسند تنظیم کے خلاف انتہائی ٹھوس موقف اپنا رکھا ہے۔ قطر کو نشانہ بنانے کی کوشش کسی کے مفاد میں نہیں۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی ان خلیجی ممالک کو یکجا کرنے میں کس حد تک کامیاب رہتا ہے۔

تازہ ترین