• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابل کے ارباب حل و عقد کو پاکستان کی اس مخلصانہ پیش کش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ پاکستان افغانستان کے سرحدی علاقوں سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گا ہیں ختم کرنے میں ان کی مدد کے لئے تیارہے۔ پیر 24؍جولائی 2017ء کو لاہور کے ریڈ زون میں خودکش دھماکے سے 9؍پولیس اہلکاروں سمیت 26؍افراد کی شہادت اور 58کے زخمی ہونے کے اندوہناک واقعہ کے دوسرے روز پاک آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل اسپتال کا دورہ کرکے خودکش دھماکے میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کے علاوہ کور ہیڈ کوارٹرز لاہور میں اعلٰی سطح کے سیکورٹی اجلاس کی صدارت کی جس میں انہیں لاہور دھماکے اور آپریشن ردالفساد کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف نے پیر ہی کے روز کابل میں ہونے والے خودکش کار بم دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں 36؍افراد جاں بحق ہوئے، واضح کیا کہ دہشت گرد پاکستان اور افغانستان دونوں کے دشمن ہیں، پاکستان اپنے سرحدی علاقوں سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرچکا ہے، غیر ملکی عناصر افغان سرزمین استعمال کرتے رہے تو دونوں ممالک متاثر ہوتے رہیں گے۔ اب افغانستان کو بھی اپنی سرحد پر پاکستان کی طرح کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس وقت کی صورت حال میں، جب آپریشن ضرب عضب کے تحت ہر قسم کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا شمالی علاقوں میں بڑی حد تک صفایا ہوچکا ہے اور ’’ردالفساد‘‘ کے تحت خفیہ اداروں کی اطلاعات کی بنیاد پر ٹارگیٹڈ کارروائی کرکے ملک بھر میں باقی ماندہ غیرملکی ایجنٹوں کا شکار جاری ہے، داعش کو افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل کرنے کیلئے بھارت اور اسرائیل پوری طرح سرگرم ہیں جبکہ افغانستان کی میزبانی کا لطف اٹھانے والے فضل اللہ گروپ نے پیر کے روز لاہور میں کی گئی واردات کی ذمہ داری قبول کرلی ۔ کابل کے دھماکے کے حوالے سے افغان طالبان کا نام سامنے آیا۔ حقانی گروپ، جس کی پاکستان میں موجودگی کے الزامات کابل اور امریکہ کی طرف سے لگائے جاتے ہیں، افغانستان ہی سے تعلق رکھتا اور وہیں سرگرم ہے مگر افغانستان میں اس کے خلاف کارروائی کی بجائے، اس کی سرگرمیوں کو جواز بناکر پاکستان کو الزامات کا ہدف بنایا جارہا ہے اور ایک طرف دہشت گردی کے خلاف اسلام آباد اور امریکہ مشترکہ کارروائیوں میں پاکستان کی طرف سے کئے گئے ان اخراجات کی ادائیگی سے گریز کیا جارہا ہےجو امریکہ پر واجب ہیں، دوسری جانب قلیل وسائل کے حامل اور بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے پاکستان کے لئے دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی قوم دہشت گردی کو اس کی ہر شکل اور روپ میں شکست دینے کیلئے پرعزم ہے۔ پاکستانی عوام اپنے دوستوں سے رفاقت نبھانے میں آخری حد تک جانے کے قائل ہیں مگر انہیں اتنا سادہ لوح بھی نہیں سمجھا جانا چاہئے کہ بھارتی وزیر اعظم کے حالیہ دورہ واشنگٹن و تل ابیب اور اسرائیلی فوجیوں کی برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں موجودگی کے بعداب افغانستان میں بھی موجودگی کی افواہوں، پاکستان میں دہشت گردی نیٹ ورک چلانے والے کلبھوشن یادیو جیسے حاضر سروس بھارتی بحری افسر کی گرفتاری اور پاکستان میں دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرنے والی نام نہاد تنظیموں کے بھارتی شہروں سے آپریٹ کئے جانے کی اطلاعات کے باوجود کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے قابل نہ ہوں۔ بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات کے تقاضے ان کتابی نظریات سے مختلف ہوتے ہیں جن کا وہ عموماً پرچار کرتے ہیں۔ مگر امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میںجب ایٹمی پاکستان اور وہاں محفوظ پناہ گاہوں کے معاملے میں بھارت کے تعاون پر انحصار کی بات کرچکے ہوں تو جنوبی ایشیا اور پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی پر نظرثانی کے بارے میں بہت سے سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے ارباب سیاست کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دھن میں وطن عزیز کے اردگرد کی صورتحال، خدشات و امکانات اور محتاط مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی اہم ضرورت سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔

تازہ ترین