• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین کی اس ملک میں کوئی حیثیت نہیں۔ ویسے تو آئین کے ایک بڑے حصہ پر عملدر آمد نہیں کیا جاتا لیکن جب اس کے کسی حصہ سے کسی طاقتور کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ دستور کے اُس حصہ کو ہی ختم کرنے کے درپے ہو جاتا ہے۔ عموماً ہم ایسے رویوںکا الزام فوجی آمروں پر عائد کرتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں ہماری سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کے نام پر ہم پر حکمرانی کرنے والوں کا بھی کوئی ریکارڈ اچھا نہیں۔ ہمارے جمہوری رہنما اور سیاسی جماعتیںویسے تو آئین، آئین کی پاسداری اور آئینی نظام کی بڑی بات کرتے ہیں لیکن جب عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو سب زیرو ثابت ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی اسلامی شقوںکو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہم پر حکمرانی کرنے والے اور پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندہ دیانت دار ہوں تاکہ عوام کے پیسہ کا صحیح استعمال ہو اور کوئی اس پیسہ میں خیانت نہ ہو۔ وہ سچے ہوں اور جھوٹے نہ ہوں تاکہ اپنے وعدوں کی پاسداری کریں ۔ وہ اچھے کردا ر کا حامل ہو، اسلامی احکام سے انحراف کے وجہ سے مشہور نہ ہو، نیک پارسا ہو ، اخلاقی پستی کا شکار نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ حکمراں جماعت جو ماضی میں ان اسلامی شقوں کا دفاع کرتی رہی آج آرٹیکل 62 اور 63 کو اس لیے حدف تنقید کا نشانہ بنا رہی ہےکیوں کہ خطرہ ہے کہ کہیں سپریم کورٹ خود یا الیکشن کمیشن کے ذریعے ان آئینی شقوں کی خلاف ورزی پر وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل نہ قرار دے دے۔ پاناما کیس میں اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے جھوٹ بولا یا انہوں نے امانت میں خیانت کی تو پھر آئین کے مطابق انہیں اس عہدہ پر رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم آرٹیکل62 اور 63 پر عملدرآمدکو یقینی بنائیں تا کہ ہمارے حکمران اور ہر عوامی نمائندہ دیانت دار ہو، سچا ہو، اچھے کردار کا مالک ہو، شرابی زانی مشہور نہ ہو، اسلامی احکامات پر عمل درآمد کرتا ہو، یہاں الٹا ان شقوں کے خاتمہ کی باتیں ہونے لگتی ہیں تاکہ جھوٹ، خیانت، دھوکہ بازی وغیرہ پر کسی کو نااہل ہی نہ کیا جا سکے۔ گزشتہ ہفتہ پنجاب حکومت کے وزیر ذعیم قادری صاحب نے ایک ٹاک شو میں افسوس کا اظہار کیا کہ ن لیگ نے ماضی میں آرٹیکل 62 اور 63 کی اسلامی شقوں جن کو جنرل ضیاء مرحوم کے دور میں آئین میں شامل کیا گیا، کو ختم نہ کر کے غلطی کی۔ کچھ دوسرے ن لیگی رہنما ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں عمومی طور پر یہ تاثر بن رہا ہے کہ پی پی پی کی طرح ن لیگ اب ان شقوں کو آئین سے نکالنے کے عمل میں شریک ہو سکتی ہے۔ یعنی خود سدھرنا نہیں، نہ ہی یہ کوشش کرنی ہے کہ اسمبلیوں میں ایسے افراد کو لایا جائے اور ایوان اقتدار میں اُن کو بھٹایا جائے جو صاحب کردار ہوں، سچے ہوں، امانت دار ہوں بلکہ ایسی آئینی شرائط کو ہی ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ پی پی پی حکومت کے دوران اٹھارویں ترمیم کے موقع پر آئین میں درجنوں ترامیم کی گئیں لیکن اس بات پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق تھا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو نہ چھیڑا جائے۔ گزشتہ دو تین سال کے دوران انتخابی اصلاحات کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی میں ان اسلامی شقوں پر بات ہوئی اور پی پی پی نے ان شقوں کے خاتمہ کا مطالبہ کیا۔ ن لیگ اس کے حق میں نہ تھی جبکہ پی ٹی آئی نے ابتدا میں پی پی پی کا ساتھ دیا لیکن بعد میں عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہہ دیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کی ان شقوں کے خاتمہ کی وہ مخالفت کریں گے چاہے اس کے نتیجہ میں اُن کی اپنی ہی نااہلی کیوں نہ ہو جائے۔ عمران خان کی طرف سے جاری اس بیان نے آئین میں موجود ان اسلامی شقوں کے خاتمہ کی کوشش کرنے والوں کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن اب ایک بار پھر پاناما کے مقدمہ میں وزیر اعظم کی نااہلی کے ڈر نے ان اسلامی شقوں کو غیر محفوظ کر دیا ہے اور اس بار پی پی پی کی آواز میں ن لیگ آواز ملا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان شقوں پر انصاف کے ساتھ عملدرآمد کرنے کے لیے حکومت اور پارلیمنٹ کوئی میکنزم اور گائیڈ لائنز طے کریں جس کے ذریعے الیکشن کمیشن آئین کی روح کے مطابق بہترین کردار کے حامل افراد کو ہی پارلیمنٹ میں آنے کا موقع دے۔نواز شریف اور ن لیگ کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اسلام مخالف کسی آئینی ترمیم کا حصہ نہ بنیں۔

تازہ ترین