• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بارہا سوچتا ہوں کہ جب خطے کی بربادیوں کے فیصلے لکھے جا رہے تھے تو قوم کے اجتماعی شعور کی نمائندگی کرنے والوں کی عقل کیا گھاس چرنے چلی گئی تھی انہوں نے ایسے جبری فیصلے لکھوانے والی پسِ پردہ قوتوں کے مکروہ چہرے کیوں بروقت عوام پر بے نقاب نہ کئے؟ پارٹیشن کی ہولناکیوں سے لے کر منافرتوں کی بنیاد تک، غلام محمد کی کارستانیوں سے جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت تک 55ء، 58ء، 68ء، 71ء،77 ء، 79ء،85ء، 90ء، 93ء، 97ء، 99ء، سے ہوتے ہوئے ایک مقدس ہستی کے رنگے ہاتھوں فرار کروائے جانے تک کس کس المیے کا رونا رویا جائے کہ مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں .....آج تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے حسب ِ روایت آج پھر یہاں کرپشن کے نام پر ٹسوے بہانے والوں کی بلاشبہ کمی نہیں ہے نعرے باز بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں کہ انہوں نے بیرونِ دیہہ دور کھیتوں میں دانہ چگنے والے کبوتر کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر لیا ہے مگر اندرونِ دیہہ موجود بڑے بڑے مقدس مگرمچھوں کی بات کرنے کا یارا نعرے بازوں میں ہے نہ قلمکاروں میں۔ مہربانوں کے ہاتھو ں میں بظاہر قلم کی طاقت ہے لیکن اصل میں لٹھ کی دھونس ہے۔ ایسے میں کیا مشکل ہے کہ کبوتر کے پرکس سے کٹوائے جائیں، اونچی اُڑان اُڑنے کے لئے یہ بہت پھڑپھڑاتا تھا حالانکہ کچھ کھمب ہم نے پہلے ہی نوچ لئے تھے مگر آزاد روی کی چھلانگوں سے باز ہی نہیں آرہا تھا۔ اب ذرا یہ اُچھل کر دکھائے تو.....
آج کل ہمارے منتخب وزیراعظم کئی نسلوں کا حساب کتاب دے رہے ہیں۔ انہیں یہ شکایت ہے کہ ان کی وہ بات پکڑی گئی ہے کرپشن کے سارے فسانے میں جس کا ذکر تک نہ تھا خود عدالتِ عظمیٰ یہ تسلیم فرما رہی ہے کہ بحیثیت وزیراعظم اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں ان کی کارکردگی شفاف ہے۔ باہر سے پیسے آئے تو ضرور ہیں مگر رقم کے باہر جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ یوں تمام الزامات مشکوک ہوجاتے ہیں اور شک کا فائدہ قانون کی نظر میں ملزم کا حق ہے لیکن وطنِ عزیز میں انصاف کا معاملہ کچھ ٹیڑھا رہا ہے۔ پنجابی کہاوت ہے کہ تگڑے کا سو تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ سات مرتبہ بیس وصول نہ کر لے لہٰذا اسی سوچ کے زیراثر یہاں شک کا فائدہ ملزم کو نہیں بلکہ JIT کو دیا جا سکتا ہے لیکن ہمیں کیا، ہم کیوں سمندر میں رہتے ہوئے مگرمچھ کے خلاف سوچنے کی جرات بھی کریں، ہم تو صاف کہیں گے کہ سو مکمل ہوتا ہی تب ہے جب سات مرتبہ بیس وصول کئے جائیں ۔
آج اگر منتخب عوامی نمائندہ یہ دہائی دے رہا ہے کہ میرا تو کسی پاناما نامی رپورٹ میں نام تک نہیں ہے یہ تو دادا اور پوتا کا برسوں پرانا قصہ ہے۔ یہ مردہ گڑھے انہی تک محدود رکھئے اور وہیں کھولئے، تو صاحب ہمیں اس دہائی سے کیا، مرحوم دادا نے اگر قطری شہزادے کے باپ سے مل کر کاروبار کیا تھا تو اس قطری شہزادے کو غیرملکی معزز مہمان کا احترام ملنا چاہئے۔ ہماری ٹیم کو تگ و دو کر کے بھی ان کے پاس جانا اور معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہئے تھا کم از کم ویڈیو لنکس کی جدید سہولت سے ہی فائدہ اٹھا لیا جاتا۔ یہ سب کچھ نہیں ہو سکا تو ارسلان افتخار کے مقدمے میں جاری کئے گئے اپنے ہی اعلیٰ عدالتی فیصلے کو بطور نظیر اپنایا جا سکتا تھا یا پھر کہہ دیا جاتا کہ اس مقدمے کی حیثیت بھی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے جیسی ہے۔
صدرمسلم لیگ ن کے لئے البتہ قابلِ اطمینان بات یہ ہے کہ اپنی پارٹی کی ایکتا قائم رکھتے ہوئے دل شکستہ اور پریشان نہ ہوں اس لئے کہ تمام تر سختیوں اور تلخیوں کے باوجود وہ پارلیمنٹ کہیں نہیں جا رہی جس میں آپ لوگوں کی بھاری اکثریت ہے لہٰذا آپ لوگ پارٹی کی مشاورت سے اپنا پارلیمانی لیڈر منتخب کریں جس کیلئے موجودہ بحرانی دور میں بہترین چوائس پارلیمنٹ کا زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے ہے۔ محض خانہ پری کی بجائے اچھی عوامی ساکھ والے شخص کو سامنے لاتے ہوئے مارچ تک شاندار جمہوری مارچ کا مظاہرہ کیجئے۔ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرتے ہوئے اپریل مئی میں عوامی عدالت کے سامنے پیش ہو جایئے۔ وزیراعظم نواز شریف کیلئے اس سے خوشگوار خبر کیا ہو سکتی ہے کہ ان کی پارٹی متحد ہے، تمام الزامات، منفی پروپیگنڈوں اور حربوں کے باوجود اُن کی عوامی مقبولیت میں رتی بھر کمی واقع نہیں ہوئی ہے، الٹے وقت کے ساتھ وہ عوامی ہمدردی کی نئی لہر سے مستفید بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ آج عوامی شعور کم از کم اتنا بلند ہو چکا ہے کہ وہ انگلیوں کے اشاروں پر ناچنے والوں کو پہچاننے لگا ہے۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ نے ملکی و قومی ترقی کے ان گنت ٹھوس منصوبے شروع کر رکھے ہیں جو زیر تکمیل ہیں۔ آپ نے خطے میں امن و سلامتی کے لئے شدید ترین دبائو میں اپنی بساط سے بڑھ کر اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان اقدامات کے مخالفین نے اگر آپ کے ایک ساتھی کو استعمال کرتے ہوئے آج آپ سے الگ کر بھی دیا ہے آپ پھر بھی اُسے توڑنے کی بجائے جوڑنے کی کاوش کریں۔ مہربان تو اس سے بڑھ کر آپ کو آپ کے عرب دوستوں تک سے توڑ کر خود وہاں براجمان ہو چکے ہیں مگر اس میں خطا آپ کی اپنی بھی ہے وہ پارلیمنٹ جس میں آپ کی ٹھوس اکثریت ہے جب ’’غیر جانبداری‘‘ کی قرارداد پاس کر رہی تھی اُس وقت آپ کہاں تھے؟ یاد کیجئے ایسی کاوش صدام کے کویت پر قبضے کے وقت بھی ہوئی تھی جسے آپ نے حکمت کے ساتھ ناکام بنا دیا تھا کچھ ایسا ہی رویہ اب بھی اپنایا جانا چاہئے تھا۔ اندورنی یا بیرونی دوستوں کو کھو دینا کوئی خوبی نہیں ہوتی اب آپ کے لئے بقا کی ایک ہی صورت ہے عوام کے ساتھ جڑے رہیے، عوام میں آپ کو ہنوز جو اعتماد حاصل ہے اُسے کسی قیمت پر ٹوٹنے مت دیجئے یہی واحد کلید ہے جو آپ کو موجودہ جیل یا عقوبت خانوں سے نکال کر ازسرِ نو شاہراہ کامیابی پر لا سکتی ہے۔

تازہ ترین