• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست مہاراشٹرا میں تلوار بردار افراد کے ہاتھوں ایک نوجوان کے قتل کی ویڈیو ان دِنوں بڑے پیمانے پر دیکھی جارہی ہے۔ ’’دھونے‘‘ نامی مقام پر پیش آنے والے اس واقعہ کی ابتدائی خبر تھی کہ مقتول نوید پٹھان کو مسلمان ہونے کے سبب نشانہ بنایا گیا۔ پھر کہا گیا کہ مقتول کا نام رفیق الدین ہے، اِس کا قتل گینگ وار کا نتیجہ ہے اور یہ کہ مقتول کئی مقدمات میں مطلوب تھا۔ ویڈیو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قتل ایک منظم کارروائی کا نتیجہ ہے۔ یہ بحث البتہ ابھی جاری ہے کہ آیا مقتول مسلمان ہونے کی وجہ سے مارا گیا ہے یا یہ واقعہ کسی گینگ وار کا تسلسل ہے!
تاریخ کے ہر دور اور دنیا کے ہر خطے میں مشتعل ہجوم یا جتھے کے ہاتھوں قتل یا تشدد کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ گزشتہ دو صدیاں امریکہ اور برطانیہ میں نسلی بنیادوں پر کئے جانے والے ایسے حملوں سے بھری پڑ ی ہیں؛ صرف 90برس پہلے تک امریکہ کے جنوبی علاقوں میں سفید فام افراد پر مشتمل جتھوں کا سیاہ فام شہریوں پر حملہ حیرانی کی بات نہیں تھی۔ شاید اِسی لئے ایسے واقعات کے لئے لنچنگ (Lyncing) کی اصطلاح بھی سب سے پہلے امریکہ ہی میں استعمال کی گئی۔
اِن دِنوں ہندوستان میں ایسے واقعات معمول بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اِبتدائی واقعات میں ’’گائو رکھشا‘‘ کے نام پر مسلم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا؛ لیکن اب نئی دہلی اور دیگر شہروں میں اِن ناراض جتھوں کا ہدف بننے کے لئے صرف مسلمان ہونا ضروری نہیں! یہ واقعات اگرچہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہیں لیکن یہ سب کچھ ناگزیر طور پر پاکستان کے لئے باعثِ تشویش ہے۔ اِن حالات کے اسباب اور اِن پر قابو پانے کے امکانات پر ہندوستان کے مختلف فعال حلقے مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔
مہاراشٹرا کے واقعہ کی ویڈیو دیکھنے کے بعد میں نے انڈین ایکسپریس میں اِسٹرٹیجک افیئرز کے ایڈیٹر پراکاش سوامی سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ خاص واقعہ گینگ وار کا ہی نتیجہ لگتا ہے لیکن ایسے جھگڑوں کی آڑ میں بھی خاص طور پر کسی مسلمان کو نشانہ بنانا بعید از قیاس نہیں! ایسی کارروائیاں عموماً انتہاپسند حلقوں میں نچلے درجے کے رہنمائوں کے ایما پر کی جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اِن چھوٹے نیتائوں کو گمان ہے کہ یہ کارروائیاں اِنہیں بڑا بنا سکتی ہیں۔‘‘ صورتحال کے بنیادی اسباب سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یوپی میں انتخابات جیتنے کی دیوانگی میں مودی حکومت نے مسلمان دُشمن عناصر کو کھلا چھوڑ رکھا تھا اس لئے حالات مسلسل قابو سے باہر ہوتے رہے۔
پراکاش سوامی کہتے ہیں کہ مسلم نوجوانوں سے بات چیت سے انہیں اندازہ ہوا کہ وہ سماجی اور معاشی سطحوں پر بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔ مسلم والدین اب زیادہ تر سرمایہ بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں ؛ اِس کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے نوجوان اپنا مستقبل ہندوستان سے ہی جوڑے رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اِنہیں خدشہ لاحق رہتا ہے کہ عملی دنیا میں شاید ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکے گا!
جب میں نے پراکاش سوامی کے یہ بے باک خیالات جوں کے توں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان سدیش ورما کے سامنے رکھے تو انہوں نے فوری رد عمل دیتے ہوئے کہا ، ’’یہ غلط تاثر ہے۔‘‘ سدیش ورما کہتے ہیں کہ ہندوستان کی سیکولر پارٹیاں بی جے پی پر مذہبی منافرت پھیلانے کے الزامات لگاتی رہی ہیں لہٰذا یہ ساری باتیں سیاسی پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔ البتہ انہوں نے مانا کہ ان کے دور میں مسلمانوں کے خلاف ’’گائو رکھشا‘‘ کے نام پر حملے ہوئے؛ لیکن ان کایہ دعویٰ بھی ہے کہ حملوں میں ملوث زیادہ تر افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔
فون پر کی گئی اِس طویل گفتگو کے دوران سدیش ورما اگرچہ تحمل سے بات کرتے رہے لیکن وہ یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ ہندوستان میں مسلمان امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر یہ سچ ہوتا تو دَس فیصد مسلم آبادی والی مودی جی کی اپنی ریاست گجرات میں سرکاری نوکریوں میں مسلمان ملازمین کی شرح بارہ فیصد تک کیسے پہنچ گئی؟ ترجمان نے کہا، ’’بی جے پی کے خلاف سازشوں میں کانگریس آگے آگے ہے۔‘‘ ورما جی نے یاد دلایا سونیا گاندھی ایک بار مودی جی کو ’’موت کا سوداگر‘‘ کہہ چکی ہیں ۔ اِن سے پوچھئے کہ پھر ہندوستانیوں نے اُنہیں پردھان منتری کیسے چن لیا!‘‘
’’ہندوستان میں اِس وقت وہ طاقتیں سرگرم ہیں جو ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہیں،‘‘ یہ خیالات ہیں دلّی میں مقیم میم افضل صاحب کے، جو اِس وقت انڈین نیشنل کانگریس کے قومی ترجمان ہیں اور پارلیمنٹ میںبھی پارٹی کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ اِن سے میرا ہندوستانی نیوز ٹی وی چینلز پر مباحثوں میں بارہاسامنا ہوتارہاہے۔ انہوں نے بتایا کہ کمیونسٹ پارٹی کے دو بڑے دھڑوں، آل انڈیا فارورڈ بلاک، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دَل، جنتا دَل یونائٹڈ سمیت زیادہ تر پارٹیاں، جتھوں کے ہاتھوں قتل (Lynching) اور اِس سے جڑے دیگر واقعات کے خلاف کانگریس کی پالیسی کی حمایت کرتی ہیں۔ میم افضل کا دعویٰ ہے کہ کانگرس آج بھی مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے؛ ایک دَلیل یہ ہے کہ، ’’اس وقت بھی راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد ہیں۔‘‘
میم افضل سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کا مستقبل ایک سیکولر ہندوستان سے جڑا ہوا ہے۔ اِن کا دعویٰ ہے کہ ہندوستانیوں کی اکثریت آج بھی سیکولر سوچ رکھتی ہے؛ کہتے ہیں، ’’یہ غلط ہے کہ پورے ہندوستان میں ماحول مسلمانوں کے خلاف چل رہا ہے؛ یہ بھی صحیح نہیں کہ سب کچھ اچھا ہے۔ کہنے والی بات یہ ہے کہ اگر یہ ملک مذہب کی بنیادپر بٹ گیا تو اس میں مسلمانوں کا نقصان زیادہ ہے؟‘‘
مجھے یاد آیا کہ پراکاش سوامی گفتگو کے دوران کہہ رہے تھے، ’’اِن دنوں دلّی میں کوئی مالک مکان کسی مسلم نوجوان کو گھر کرائے پر نہیں دیتا۔‘‘ اِن کا کہنا تھا کہ اب نہ صرف مودی سرکار کو رویہ بدلنا ہوگا بلکہ دیگر جماعتوں میں موجود مسلم رہ نمائوں کو بھی آگے آنا ہوگا۔ ’’اب سماجی معاملات میں بھی سنجیدگی ضروری ہے اور مسلم نوجوانوں میں احساسِ عدم تحفظ ختم کرنا سب سے اَم بات ہے.....‘‘
پاکستان میں بھی حالات کسی طور اطمینان بخش قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ گزشتہ چند مہینوں میں ملتے جلتے واقعات رونماہوچکے ہیں ۔ مردان میں طلبہ کے ایک بڑے ہجوم کے ہاتھوں مشال خان کی موت نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ اس پر پاکستانی میڈیا بار بار تشویش کا اظہار کرتا رہا کہ ملک میں ایسی کارروائیوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا فوری سدِباب کیا جانا چاہئے۔ اگرچہ میڈیا کا یہ ردِعمل غلط نہیں تھا لیکن سچ یہ ہے کہ ایسے واقعات کی تعداد اور شدّت سرحد کے اُس پار کہیں زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ اقوام ایک طرف ہندوستان کے اقتصادی اورسیاسی مستقبل پر نظر جمائے بیٹھی ہیں اور دوسری طرف اِس ملک کے اندر تلوار اٹھا کر دندناتے پھرنے والے چھوٹے بڑے ہجوم اپنے ملک کے مستقبل کے سب سے بڑے دُشمن ثابت ہورہے ہیں۔ میری بجا اور جائز تشویش صرف یہ ہے کہ پڑوس میں لگی اِس بڑی آگ کی کوئی چنگاری کہیں سرحد کے اِس پار نہ آن گرے۔

تازہ ترین