• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں جب بھی انگلینڈگیا وہاں رواں دواں زندگی اور لوگوں کے ہجوم کے باوجود بکنگھم پیلس کے درودیوار اداس نظر آئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ نہ صرف بکنگھم پیلس کے درودیوار بلکہ اردگرد کا سارا ماحول ہی اداس نظر آیا۔ لگتا ہے یہاں کسی چیز کی کمی ہے یہ سارا ماحول کسی کو مس کررہا ہے گوکہ 1997ء میں میری عمر بہت کم تھی لیکن مجھے یاد ہے جب لیڈی ڈیانا ایک حادثاتی موت کا شکار ہوگئی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور پھر جب میں تعلیم کے سلسلے میں انگلینڈ گیا تو میرے اندر یہ احساس بڑھنے لگا کہ لیڈی ڈیانا نہ صرف ایک پرکشش شخصیت کی مالک تھی بلکہ وہ انسانیت کے حوالے سے بڑا نرم دل رکھتی تھی اپنی موت سے پہلے ایک سال قبل وہ پاکستان کا دورہ بھی کرچکی تھی اسے ویلز کی شہزادی کا خطاب بھی مل چکا تھا وہ شاہی خاندان کے ساتھ شاہی محل میں بھی رہی لیکن اس کی روح اور دل وہاں خوشی کی بجائے قیدی بن کر رہا، وہ تتلیوں کی طرح آزاد فضائوں میں اڑنا چاہتی تھی وہ خود بھی خوبصورت تھی اور اپنے رنگوں سے اداس دنیااور محروم لوگوں کی زندگیوں میں رنگ بھرنا چاہتی تھی ، لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے پر کتنے کمزورہیں اس کے رنگ کتنے شوخ ہونے کے باوجود کتنے کچے ہیں،جو ظلم کی ایک چٹکی میں مسل دیئے جاسکتے ہیں اور پھر اس کی آزادی ، اس کے رنگ اور اس کی اڑان کو ختم کردیا گیا، پوری دنیا میں اداسی تھی لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ دنیا آج تک لیڈی ڈیانا پرنسس آپ ویلز کی موت کو نہیں بھلاسکی اور اس کی اداس یادیں آج تک ماحول سے لپٹی ہوئی ہیں، لیڈی ڈیانا کی یاد اور اداسیوں کی طرح میں جب راولپنڈی کے مری روڈ سے محلقہ لیاقت باغ کے پاس سے گزرتا ہوں تو بھی میرے احساسات بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں جو بکنگھم پیلس کے پاس سے گزرتے ہوئے ہوتے، میں اس کے درو دیوار کو اداس دیکھتا ہوں اسی طرح میں لیاقت باغ کے درو دیوار کو بھی اداس دیکھتا ہوں ۔ہوا کے تھپیڑوں سے درختوں کے پتے بھی مجھے نوحہ کرتے نظر آتے ہیں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لیاقت باغ کے بڑے بڑے درخت سرجھکائے کھڑے آنسو بہا رہے ہیں کیونکہ ان درختوں نے، ان درختوں کی شاخوں اور پتوں نے لیاقت باغ کے درودیوار نے اسی ملک کی ایک بہادر خاتون کا خون ہوتے دیکھا ہے اس کے سر پر اوڑھا ہوا آنچھل بلٹ کی تڑتڑاہٹ سے کسی فاختہ کے خوبصورت پر کی طرح ہوا میں بکھرتا دیکھا ہے ابھی اس کی دلیرانہ تقریر کی گونج اور باز گشت بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ بم دھماکے اور گولی کی تڑتڑاہٹ نے بہا در خا تو ن کی تقر یر کی گونج اور باز گشت کو ختم کرکے ماحول میں ادا سی اور حبس بپا کردیا تھا، اس کی جوشیلی تقریر کی خوشبو کی جگہ اب بارود کی بو نے لے لی تھی، لیکن میں سمجھتا ہوں بے نظیر بھٹو کی خوشبو جو انسانوں کے ذہنوں اور دلوں میں رچی بسی ہے وہ کبھی ختم نہ ہوگی ، نہ جانے مجھے یہ کیوں لگتا ہے کہ وہ اس بار اقتدار اپنے لئے یا اپنی پارٹی کے لئے نہیں حاصل کرنا چاہتی تھی وہ ووٹ اپنی پارٹی کو اقتدار میں لانے کیلئے نہیں مانگ رہی تھی بلکہ وہ یہ سب کچھ پاکستان اور اس کے عوام کیلئے کررہی تھی اس کی ولولہ انگیزی اس کی بہادری اس کی ضد اور اس کی جدوجہد سب پاکستان کیلئے تھی ، وہ اپنے پہلے دور اقتدار کی غلطیوں کا کفارہ بھی ادا کرنا چاہتی تھی اور یہ کفارہ وہ ملک اور عوام کی صحیح معنوں میں خدمت کرکے ادا کرنا چاہتی تھی اور شاید اس نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اس مقصد کیلئے اپنی کمزوریوں کو بھی خود سے دور رکھے گی وہ کسی رشتے یا مجبوری کو آڑے نہیں آنے دے گی بلکہ اسے کسی رشتے کی قربانی دینا پڑ ی تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کرے گی۔
مجھے نہ جانے لیڈی ڈیانا اور بے نظیر بھٹو دونوں میں ایک ہی طرح کی مظلومیت کیوں نظر آتی ہے مجھے یہ دونوں خواتین ایک ہی طرح کے ظلم کا شکار کیوں نظر آتی ہیں ، نہ جانے مجھے دونوں کا دکھ ایک طرح کا کیوں نظر آتا ہے ، شاید بے نظیر بھٹو کی ولادت کی تاریخ 21جون اور لیڈی ڈیانا کی یکم جولائی ہونے کی وجہ سے ایک ہی اسٹار ہونا ان کے دکھ کو بھی ایک جیسا کردیتا ہے، جو کچھ بھی ہے میں ان دونوں خواتین کے لئے آج بھی ماحول کو سوگوار دیکھتا ہوں۔

تازہ ترین