• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کا بھارت کے لئے بلاتاخیر دوکھلم سے نکل جانے کا انتباہ خطّے کی صورت حال میں نئی ہوائوں کی موجودگی کی نشاندہی کررہا ہے۔ چین وہ ملک ہے جو سنگین صورتحال میں بھی اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے نرم لب و لہجے کو ترجیح دیتا ہے۔ تصادم سے گریز کرتے ہوئے اپنے معاشی حالات بہتر بنانے کی پالیسی کے تحت اس نے ہانگ کانگ کے مسئلے پر صبر سے کام لیا اور تجارتی آزادی کے حق کے نام پر فوج کشی کے ذریعے جس علاقے پر برطانیہ قابض ہوگیا تھا وہاں سے اس کا پرامن انخلا ممکن بنایا۔ کشمیر کے مسئلے پر بیجنگ اگرچہ بار بار واضح کرتا رہا ہے کہ یہ ایک متنازع مسئلہ ہے مگر پاکستان کو احتیاط اور صبر سے کام لینے کا مشورہ دیتا رہا۔ ایک موقع ایسا تھا جب 1962ء میں چین اور بھارت کی جنگ کے دوران پاکستان مسئلہ کشمیر کو اس کے منطقی انجام کی طرف لے جاسکتا تھا مگر مثبت اشارے کے باوجود پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خان نے امریکہ اور برطانیہ کی اس یقین دہانی پر بھروسہ کیا کہ اسلام آباد نے نئی دہلی کے لئے کوئی مسئلہ پیدا نہ کیا تو لندن اور واشنگٹن مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل کرادیں گے۔ اسی قسم کی یقین دہانی چوتھے فوجی آمر پرویز مشرف کو افغانستان میں امریکی فوجی کارروائی کے لئے نقل و حمل سمیت اہم سہولتیں فراہم کرنے کے عوض دی گئی تھی۔ مگر کام نکلتے ہی یقین دہانیاں کرانے اور ان پر بھروسہ کرنے والے دونوں ہی کے حافظے سے یہ بات نکل گئی۔ بھارت نے علاقائی سپر پاور بننے کے جنون میں اور کشمیر میں ظلم و ستم کا کھلا لائسنس لینے کے لئے چین کے گرد گھیرا ڈالنے کے امریکی پلان سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی ہے تو بیجنگ نے واضح کیا ہے کہ وہ نہ تو کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کی جانب سے اپنے مفادات کو نقصان پہنچانے والا کوئی قدم برداشت کریگا۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکھانگ نے پریس بریفنگ میں وزیر خارجہ وانگ ژی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ کا بیان مستند حیثیت کا حامل ہے اور اس کے لئے کسی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ مسئلہ دوکھلم کی جڑ بھارتی افواج کی چینی علاقے میں غیر قانونی مداخلت ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان اگرچہ لداخ سمیت کئی تنازعات ہیں اور پاکستان کا تو وجود ہی بھارتی حکمرانوں کیلئے قابل برداشت نہیں مگر علاقائی بالادستی کا شوق نئی دہلی کو تمام ہی پڑوسی ملکوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، الزام تراشی اور مہم جوئی میں مبتلا کرتا رہا ہے۔ بھارتی توسیع پسندی نے پہلے پرامن ہمالیائی ریاست سکم کی آزادی غصب کی پھر نیپال سمیت دوسری ریاستوں میں انتشار و افراتفری کی صورت پیدا کی۔ سری لنکا کو بھی ہڑپ کرنے کی تیاریاں تھیں جو دوستوں کے تعاون سے ناکام بنا دی گئیں،مشرقی پاکستان کو فوج کشی کے ذریعے بنگلہ دیش بنانے کے بعد اس کے ساتھ بھی مسائل کھڑے کئے جاتے رہے تاآنکہ حسینہ واجد شیخ کی حکومت کے ذریعے وہاں کے معاملات بھارت کی خواہش کے مطابق چلنے لگے۔ اب امریکہ چین کی بحری ناکہ بندی کرنے اور اسے گھیرنے کی کوششیں کررہا ہے تو بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجوں کا قیام جاری رکھنے اور ان میں اضافے کا فیصلہ چین اور روس پر نظر رکھنے کی ضرورت کا حصہ ہے۔ حالیہ مالا بار مشقوں اور کئی جزائر میں بڑی تعداد میں امریکی فوجیں اتارنے کے بھی یہی مقاصد ہیں۔ چین روس اور ایران سے اتحاد کی صورت میں اس کا موثر توڑ کرسکتا ہے جبکہ بعض مبصرین سی پیک کو ایک ایسی شاہراہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے اقتصادی و تجارتی ترقی کی سمت بڑھنے میں معاون ہوگی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مشرق اور مغرب کے تمام ممالک مل کر امن و استحکام کے لئے کام کریں اور خطے کو ترقی و خوشحالی کی طرف لے جانے والے نئے امکانات سے فائدہ اٹھائیں۔ چینی ترجمان نے پاکستان سے شراکت داری کو بیجنگ کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے تو اس کا یہی مفہوم ہے۔

تازہ ترین