• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کا انجام دیکھنا ہے مجھےیہ پانامے، اقامے اور کامے چیخ چیخ کر، قدم قدم پر اپنا تعارف کرا رہے ہیں تو لوگوں کو برہم نہیں بلکہ خوش ہونا چاہئے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار اس سکیل پر ان کا اصل، ان کی اصلیت بے نقاب ہو رہی ہے۔ اپنے عوام کے لئے آقا اور فرعون، گوروں اور عربوں کے یہ حقیر اقامے اور کامے جو صرف 17فیصد ووٹ چھین کر، خرید کر یا بٹور کر سرعام یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ 22کروڑ عوام کے دلوں میں بستے ہیں اور یاد رہے ان 17فیصد ووٹوں میں کم از کم چار پانچ فیصد تو بالکل ہی جعلی ہوتے ہیں۔دو تازہ ترین مثالیں یہ سمجھنے کے لئے بہت کافی ہیں کہ یہ اداروں کو کس کس طرح برباد کر کے ریاست کے ملازموں کو ذاتی زرخرید غلاموں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ پہلی مثال ’’ایس ای سی پی‘‘کے ’’قابل فخر سپوت‘‘ ظفر حجازی کی ہے جسے ریکارڈ ٹمپرنگ پر مجبور کیا گیا ورنہ ظاہر ہے اس نوسر بازی میں اس کا ذاتی مفاد کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن اسے خوف اور لالچ کے ہتھیاروں سے سدھایا گیا، سیدھا کر دیا گیا جیسے سیاہ فام سرکشوں کو جنگلوں سے جانوروں کی طرح پکڑ کر لانے کے بعد ان کے سارے کس بل نکال دیئے جاتے تھے۔ ایلکس ہیلی کا شہرئہ آفاق ناول "ROOTS" اس کے جد امجد کی سچی کہانی ہے جس کے ’’ہیرو‘‘ کنتے کانتا کو آزاد سے غلام میں تبدیل کر دیا جاتا ہےاور پھر یہ غلامی نسل در نسل چلتی ہے۔ غلاموں کی شادیاں بھی رچائی جاتی تھیں اور پھر ان کی اولاد کو بالکل ایسے ہی بیچ دیا جاتا تھا جیسے کوئی گائے، بھینس، بکری کے بچوں کو بیچ دے۔ یہاں بھی ذرا مختلف اور ملفوف انداز میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ حجازیوں کو زبردستی ’’کنتے کانتا‘‘بنا دیا جاتا ہے جس کی دوسری مثال نہال ہاشمی کیس میں اس کی ویڈیو کو ایڈٹ کر کے عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی مذموم کوشش ہے۔ ایسا جس کسی نے بھی کیا، اس میں اس کا کوئی ذاتی مفاد ممکن نہیں۔ یہ اداروں کے ساتھ کھلواڑ اور ریاست کے ملازموں کو ذاتی غلاموں میں تبدیل کرنے کے کلچر کی ایک اور معمولی سی جھلک ہے تو یہ ہیں وہ پانامے، اقامے اور غیروں کے کامے جو اپنے ہم وطنوں کو غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں اور اس بھیانک واردات کو ’’گورننس‘‘ کا عنوان دیتے ہیں۔کیسی دلخراش لیکن دلچسپ خبر ہے کہ پراپرٹی کے کاروبار میں ملوث 17سینیٹرز اور 134ارکان اسمبلی کی خفیہ انکوائری شروع ہو چکی ہے۔ لینڈ مافیا کے ان شراکت داروں میں 17سینیٹرز، 32ارکان قومی اسمبلی، 102ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ 28اعلیٰ پولیس افسر بھی شامل ہیں۔ معلوم کیا جا رہا ہے کہ پراپرٹی بزنس کے لئے کن کن جرائم پیشہ گروہوں کو استعمال کیا جا رہا ہے اور ان میں سے کتنے افراد کا تعلق کالعدم تنظیموں یا ان کو فنانس کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اہم حساس اداروں نے کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے اور دو نمبر جائیدادیں بنانے والے افراد کے خلاف یہ انکوائری آئندہ سخت احتساب کے حوالہ سے شروع کی ہے۔ 37قائدین یعنی عوامی نمائندے ایسے ہیں جو بڑے لینڈ مافیاز کو نہ صرف سپورٹ کرتے ہیں بلکہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق لینڈ مافیا کے طور پر کام کرنے والے ارکان صوبائی اسمبلی میں پنجاب کے ارکان پہلے، سندھ کے دوسرے نمبر پر ہیں۔ سندھ کے 4وزراء اور ایک سابق وزیر کے حوالے سے تو یہاں تک رپورٹ ہوا ہے کہ دبئی میں ان کی اربوں روپے کی پراپرٹی ہے جو کہ رینٹ پر دی گئی ہے اور یہ پیسہ کرپشن سے اکٹھا کر کے وہاں انویسٹ کیا گیا ہے۔ ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت اور ان کی بہن کے حوالے سے بھی کہا گیا ہے کہ دو معروف ترین ہائوسنگ پراجیکٹس میں نہ صرف ان کا حصہ ہے بلکہ اس لینڈ مافیا کو مختلف طریقوں سے بیشمار مراعات بھی دی گئی ہیں۔لینڈ مافیاز سے منسلک پنجاب کے ارکان اسمبلی میں سے 6کا تعلق لاہور، 4کا گوجرانوالہ، 5کا فیصل آباد سے ہے۔ ملتان، راولپنڈی اور سرگودھا سے تعلق رکھنے والے 16معزز ارکان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ بھی مختلف لینڈ مافیاز سے ملے ہوئے ہیں اور ان کی بے شمار جائیدادیں ان کے ملازموں اور رشتہ داروں کے نام پر ہیں۔ذرائع کے مطابق رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ن لیگ کے ایک وزیر نے مشرف دور میں ن لیگ کے اندر رہتے ہوئے لاہور میں پراپرٹی کا بے تحاشا کاروبار کیا اور اس کے اس کاروبار میں پیپلز پارٹی کے ایک سابق وزیر اعظم کا بیٹا بھی حصہ دار ہے اور اس وقت بھی اس کا شمار بڑے لینڈ مافیاز میں ہوتا ہے اور اس نے بھی فرنٹ پر کسی اور کو رکھا ہوا ہے۔پولیس سے تعلق رکھنے والے 28لوگوں کے بارے میں بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف لینڈ مافیا کو سپورٹ کرتے ہیں بلکہ نہوں نے اپنے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد حصہ دار بھی بنایا ہوا ہے۔مصدقہ ذرائع کے مطابق لینڈ مافیاز سے وابستہ لوگوں کے بارے میں یہ انکوائری رپورٹ مکمل کر کے ’’نیب‘‘ اور احتساب کرنے والے دیگر اداروں کے حوالے کر دی جائے گی۔قارئین!میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ لکھا اور کہا ہے کہ پاکستان ایک ایسے بدن کی مانند ہے جس کے ہر مسام میں نیزے گڑے ہوئے ہیں۔ میں آج اس تبصرہ میں ترمیم کرتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ پاکستان ایک ایسے زخمی جسم کی مانند ہے جس کے آدھے مساموں میں نیزے گڑے ہیں اور باقی آدھے مساموں میں ’’سٹرا‘‘ ڈال کر کچھ لوگ مسلسل اس ملک کا خون پی رہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہ سکتا ہے اور کب تک جاری رکھا جا سکتا ہے اور اگر اس کی بیخ کنی نہیں کی جاتی تو اس کا منطقی انجام کیا ہو گا۔اختتام اپنے ہی اس شعر پر
جس کا آغاز میں نے دیکھا تھا
اس کا انجام دیکھنا ہے مجھے

تازہ ترین