• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آس پاس کیا ہو رہا ہے، اور اس کے اس ملک پر کیا اثرات پڑ رہے ہیں یا پڑ سکتے ہیں، کسی کو فکر ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی فکر ہے تو صرف پانامہ کی جے آئی ٹی کی۔ اور اس پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار۔ قیامت کا سا ہنگامہ لوگوں نے اٹھایا ہوا ہے اور اس دھول میں بہت کچھ نظروں سے اوجھل ہو گیا اور اُس طرف توجہ ہی نہیں جا رہی۔ ذرائع ابلاغ ہیں تو یہی ایک معاملہ ان کے لئے اہمیت رکھتا ہے، اور سیاستدان، وہ یا تو اپنی جان بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں یا دوسروں پر کیچڑ اچھالنے میں۔ اِدھر اُدھر جو ہو رہا ہے اس کی انہیں بھی فکر نہیں جن کی بنیادی ذمہ داری اس ملک کے عظیم تر مفادات کا تحفظ ہے۔
کتنی بات امریکہ کے اس فیصلہ پر ہوئی کہ اُس نے پاکستان کی ساڑھے تین ہزار کروڑ روپے (35 کروڑ ڈالر) سے زائد کی فوجی امداد روک لی ہے ا ور کہا ہے کہ پاکستان دہشت گرد گروپوں کے خلاف امریکہ کی توقع کے مطابق کارروائی نہیں کررہا۔ اس فوجی امداد میں سے تین ہزار کروڑ روپے (30کروڑ ڈالر) کی امداد تو پہلے ہی امریکی کانگریس روک چکی تھی، مگر اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا مگر اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے پہلی بار اس ہفتے اس کا با قاعدہ اعلا ن پینٹاگون کے ایک ترجمان نے کیا ہے اور بتایا کہ وزیرِ خارجہ نے باقی پانچ سو کروڑ روپے کی فائنل امداد بھی روک لی ہے۔ یہ امداد دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کی وجہ سے دی جاتی ہے، اور اب اُن کے وزیر دفاع نے یہ تصدیق کرنے سے انکار کردیا ہے کہ پاکستان نے حقّانی گروپ کے خلاف مناسب کارروائی کی ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت ہوا ہے جب امریکہ اس علاقہ میں نئی حکمت عملی تیار کررہا ہے کہ افغانستان میں مزید امریکی فوجی بھیجے جائیں یا نہیں۔ اس ساری صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ایک افسر نے اسے امریکی ’’کوتاہ نظری‘‘ قرار دیا اور کہا کہ امریکہ کو پتہ ہونا چاہئے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان مستحکم نہیں ہو سکتا۔
بس اتنی ہی بات اس موضوع پر ہوئی۔ کیا اس پر بس اتنی ہی گفتگو ہونی چاہئے تھی؟ کیا یہ اتنی ہی معمولی بات ہے کہ وزارت خارجہ کا ایک افسر ایک بیرونی اخبار کو بس اتنا سا بیان دیدے اور کسی اور سطح پر اس پر غور ہی نہیں کیا جائے؟ وزیرِ خارجہ تو بدقسمتی سے اس ملک میں کوئی ہے ہی نہیں، اور جو کوئی اس وزارت کا ذمہ دار ہے اسے پانامہ سے اپنی جان چھڑانے سے ہی فرصت نہیں ہے۔یہی حال وزیرِ دفاع کا ہے، وہ بے چارے اپنی وزارت کے سوا دنیا کے ہر موضوع پر بات کرتے پائے جاتے ہیں۔ کیا ان سب لوگوں کو اندازہ ہے کہ امریکی امداد بند ہونا، صرف امداد کا معاملہ نہیں ہے، اس کے دور رس اثرات پاکستان کے مستقبل پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ یوں بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات، اور کشیدگی کیا ان کے دائرہ کار میں نہیں آتی؟ انہیں اس پر توجہ دینی چاہئے۔ ہم کس طرح افغانستان سے تعلقات ٹھیک رکھ سکتے ہیں؟ اس پر کیا غور نہیں ہونا چاہئے؟ افغانستان کے معاملے میں پاکستان بہت عرصے سے الجھا ہوا ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین پر عرصئہ دراز سے پا کستان کے وسائل خرچ کئے جارہے ہیں، مگر افغان حکام کو کبھی بھی خوش نہیں رکھا جا سکا۔ اور جب بھی افغانستان جانا ہوا یا وہاں آنے جانے والے کسی معتبر صحافی سے بات ہوئی تو ہمیشہ پتہ چلا کہ پاکستانیوں سے وہاں شدید نفرت کی جاتی ہے۔ جلال آباد امریکیوں کے ہاتھ لگنے کے دوسرے دن ہم وہاں تھے۔ بی بی سی کی ایک پوری ٹیم ساتھ تھی، یہ لوگ ایک آدھ دن بعد کابل جارہے تھے۔ ٹیم کے سربراہ پال ڈیناہار کی شدید خواہش تھی کہ بی بی سی کی اردو اور دوسری زبانوں کی سروس کا کوئی نمائندہ کابل جا سکے، مگر وہاں سے جو اطلاعات مل رہی تھیں، اس کے بعد انہوں نے مجھے کابل لے جانے سے انکار کردیا کیونکہ وہاں پاکستانیوں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی تھی۔ پال کا کہنا تھا کہ ممکن ہے تم کمرے سے باہر ہی نہیں نکل سکو، اور بے یقینی تو ان دنوں بہت تھی۔ آخر وقت تک کوشش ہوتی رہی، اور خواہش تو بہت شدید تھی ہی۔ مگر پال انتہائی ذمہ دار صحافی ہیں، وہ کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ ان پر بھی غور ہونا چاہیے۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو کئی معاملات میں ایک ناقابل رشک اولیت حاصل ہے۔ وہاں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی مدد کرنے والا یہ پہلا ملک تھا۔ بعد میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والا پوری دنیا میں یہ پہلا ملک تھا، اور یہ ’’اعزاز‘‘ بھی اسے حاصل ہے کہ اس نے اپنی سرزمین سے ایک غیر ملکی سفیر کو پکڑ کے امریکہ کے حوالے کردیا۔ گوانتا نامو بے سے واپسی کے بعد افغانستان کے اس سفیر، ملا ضعیف، کی روداد پڑھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے، اور افسوس ہوتا ہے ان لوگوں پر جن کے ہاتھوں میں اُس وقت اس ملک کی باگ ڈور تھی۔ اور یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے بارے میں مخاصمانہ رائے کیوں پائی جاتی ہے۔ آپ اپنی خارجہ پالیسی درست سمت میں، صحیح خطوط پر رکھیں تو معاملات اس طرح خراب نہ ہوں۔ مگر اس طرف کون توجہ دے رہا ہے؟ لگتا تو ایسا ہے کہ کوئی بھی نہیں۔ امداد کی بندش کے ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ،اوباما کے مقابلے میں پاکستان کے بارے میں زیادہ سخت موقف اختیار کرے گی۔ کہاں اس طرف توجہ دی جارہی ہے؟ کہیں بھی نہیں۔
اور بھی بہت کچھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور بھارت کے تعلقات د ن بدن بہتر ہوتے جارہے ہیں، دونوں میں تعاون کے نئے نئے راستے تلاش کئے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کئی معاملات ایسے ہیں جن کا اثر براہِ راست پاکستان پر پڑنے کا اندیشہ ہے، مگر کیا ا س جانب کسی کی توجہ ہے؟ کیا اس پر کوئی پر وگرام کسی چینل پر ہوا؟ کیا ہمارے ، معاف کیجئے، نام نہاد دانشوروں کے لئے اس کی کوئی اہمیت ان کی گفتگو میںکہیں نظر آئی؟ صبح سے شام تک، بس ایک ہی موضوع ہے، اور اسی پر ساری توجہ، جیسے اگر وہ حل ہو گیا تو پاکستان کے اندرونی اور بیرونی سارے ہی مسائل حل ہو جائیں گے۔
اندرونی حالات بھی، سارے دعوئوں کے برعکس کچھ زیادہ بہتر نظر نہیں آتے۔ دہشت گردی ختم کرنے کی بات اپنی جگہ، مگر کیا واقعی ایسا ہو گیا ہے؟ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے۔ اس کا جواب ہر کچھ دن بعد کسی نہ کسی علاقہ میں ہونے والی دہشت گردی میں مل جاتا ہے۔ مگر کوئی مانے تو۔ اس دہشت گردی کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں، وزارت دفاع کو اس پر کچھ تو توجہ دینی چاہئے، اور وزارتِ داخلہ کو بھی شاید۔ مگر وزیر داخلہ ان دنوں ایک اور اہم کام میں مصروف ہیں۔ انہیں کسی مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا، سو وہ روٹھ کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ اب انہیں منانے کی کوششیں ہیں، اور حکمرانوں کا وقت ان پر لگایا جا رہا ہے۔ کیا جب لاہور میں خودکش دھماکہ ہوا تو وزیر داخلہ کو اس طرح روٹھنا چاہئے تھا؟ شاید ہی کوئی اس سے اتفاق کرے۔ مگر ہو یہی رہا ہے۔
ان سب کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔ بھارت اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آرہا۔ لائن آف کنٹرول پر اس کی گولہ باری مسلسل جاری ہے۔ افغانستان کے ذریعہ، پاکستان میں دہشت گردی کا اس کا نیٹ ورک فعال ہے، اور زیادہ فعال ہوتا جا رہا ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری سے کچھ فائدہ ممکن ہے ضرور ہوا ہو، مگر اس کی بھی دنیا بھر میں بہت زیادہ تشہیر کی ضرورت تھی، وہ نہیں کی جاسکی۔ عالمی عدالت میں جو کچھ ہوا وہ اس کا ثبوت ہے۔ ہمیں، یعنی ہمارے رہنمائوں (؟) کو ہوش کے ناخن اب لے لینے چاہئیں۔ عالمی سطح پر سفارتکاری بہت بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ متعلقہ لوگوں کو اس کا اندازہ ہو گا، نہیں ہے تو ہوجانا چاہئے۔ اصل بات وہی کہ جس طرف توجہ کی ضرورت ہے، توجہ وہاں دیں، ورنہ،۔۔۔ اب اور کیا کہا جائے۔

تازہ ترین