• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کی پرانی سبزی منڈی میں ارفع کریم ٹاور کے قریب پچھلے دنوں جو خودکش حملہ ہوا، اس میں پولیس اہلکاروں اور افسروں کے علاوہ ستائیس شہری جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے اس اندوہناک واقعہ نے اس تاثر کو کسی قدر تحلیل کردیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے، اُن کے ٹھکانے مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے ہیں اور وہ آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ جس روز لاہور میں انسانوں کے اعضا دور دور تک بکھرے ہوئے تھے، اسی روز کابل میں بھی زبردست دھماکہ ہوا جس میں درجنوں لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے۔ ان واقعات سے یہ حقیقت ایک بار پھر اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ امن کی دشمن خونخوار طاقتیں بیک وقت افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہی اور خوف وہراس پھیلانے کے لیے عام شہریوں کو ہدف بنا رہی ہیں۔ دکھ کی بات یہ کہ امریکہ نے عالمِ اسلام پر بالادستی قائم رکھنے کے لیے اسے شیعہ سنی میں تقسیم کرنے کا طویل المدت منصوبہ بنایا اور مختلف طریقوں سے فرقہ واریت کا زہر پھیلایا اور آتشِ نفرت کو بہت بھڑکایا ہے۔ اس آگ میں عراق، شام، لیبیا، سعودی عرب اور ایران اپنے تمام تر قدرتی وسائل اور تہذیبی جمال و جلال کے ساتھ خاکستر ہوتے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہی آگ پاکستان میں بھی پھیلتی جا رہی ہے اور فرقہ وارانہ تشدد ہماری سماجی زندگی میں فساد برپا کر رہا ہے۔ ہماری افواج اور ہماری خفیہ ایجنسیاں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن ردالفساد کے ذریعے جانوں کی قربانیاں دے کر اس طوفان کے آگے بند باندھے ہوئے ہیں، مگر سیلابِ بلا رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس معاملے میں گہری تشویش کا پہلو یہ ہے کہ سیاست دانوں کے مابین شدید محاذ آرائی نے معاشرے میں خانہ جنگی کی فضا پیدا کر دی ہے جس کی زد میں ادارے بھی آتے جا رہے ہیں اور سیاسی غارت گروں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔
ڈیڑھ سال سے زائد پاناما پیپرز کے مقدمے کی نذر ہو چکا ہے جس کے باعث نظمِ حکومت ہر آن دباؤ میں ہے۔ وفاق میں سیاسی حکومت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے جس میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے۔ ہر سماعت کے بعد عدالتِ عظمیٰ کے احاطے میں فریقین اپنی اپنی عدالتیں لگاتے اور ایک دوسرے کے خلاف جو گھٹیا اور اشتعال انگیز الفاظ استعمال کرتے ہیں، وہ سیاسی نظام اور امنِ عامہ کے لیے بہت بڑا خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ ایک صاحب جن کو وزیراعظم بن جانے کی خواہش نے حواس باختہ کر رکھا ہے، وہ ہر اس ادارے اور اس ضابطے کو مسمار کر دینا چاہتے ہیں جو ان کے خبط کی راہ میں حائل ہیں۔ وہ سوشل میڈیا اور اپنے جاں نثاروں کے ذریعے جس کلچر کو فروغ دے رہے ہیں، وہ آخر کار قتل و غارت پر منتج ہو گا اور ہمارا عزیز وطن ایک بدترین بحران سے دوچار ہو جائے گا۔ عدالتِ عظمیٰ پر اس وقت بڑا کڑا وقت ہے کہ وہ جو فیصلہ بھی سنائے گی، وہ عوام کے ایک حصے میں شدید ارتعاش پیدا کرے گا اور سیاسی تقسیم انتہائی خوفناک صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ایک طرف دہشت گرد ہیں جو بے گناہوں کا خون بہا رہے اور اپنے عقیدے کے مطابق ’جنت‘ کما رہے ہیں جبکہ دوسری طرف سیاسی مہم جو ہیں جو آئین اور قانون کا دامن تارتار کر دینا چاہتے ہیں۔ تیسری جانب عالمی طاقتیں ہیں جو اپنے مخصوص مفادات کے لیے پاکستان کو کٹ ٹو سائز کر دینے کے درپے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم آپس ہی میں دست و گریباں ہیں جبکہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی تثلیث وجود میں آ چکی ہے جس کے بنیادی مقاصد میں جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی کا قیام، صہیونی مفادات کا تحفظ اور پاکستان کا معاشی اور سفارتی محاصرہ شامل ہیں۔ ان اہداف کو جلد سے جلد حاصل کرنے کے لیے حیرت انگیز تیزی سے کام ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقاتیں کرنے والے امریکہ کے اعلیٰ سیاسی اور فوجی حکام محض یہ اعلان کرنے کی مشق فرماتے آئے ہیں کہ پاکستان نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عظیم قربانیاں دی ہیں اور اس کے تعاون کے بغیر امریکہ افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکتا۔ ان خوشنما بیانات کا مقصد پاکستان کو خوش فہمی میں مبتلا رکھنا اور عملی طور پر اس کے اندر عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ چین کو امریکہ، جاپان اور بھارت کی طرف سے شدید مخاصمت کا سامنا ہے جو پاکستان میں پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور چین پاک اقتصادی راہداری کی تعمیر سے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ قابلِ تحسین امر یہ ہے کہ سخت نامساعد حالات میں وزیراعظم پاکستان مالدیپی صدر کی دعوت پر مالدیپ کی آزادی کی تقریبات میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کے لیے مالے گئے، تعلیم، صحت اور سیاست میں تعاون کے معاہدے کیے ہیں اور سارک تنظیم کو فعال بنانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
گزشتہ چند مہینوں سے دہشت گرد پولیس فورس اور بڑے بڑے شہروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ آپریشن ردالفساد اور آپریشن خیبر فور کا ردِعمل بھی ہو سکتا ہے، مگر ہمیں قومی سطح پر اس اہم ترین سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دس بارہ برسوں سے جاری ہے جس میں فوج کے علاوہ پولیس کے ہزاروں نوجوان اور ایڈیشنل آئی جی تک کے اعلیٰ افسر جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں، لیکن دہشت گردی کا سرطان ختم نہیں ہوا اَور دینی مدرسوں اور کالجوں کے نوجوان دہشت گردوں کے بیانیے سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ فوج کی جرأت وشجاعت اور جذبۂ شہادت نے دہشت گردی پر کاری ضرب لگائی ہے، مگر وہ ذہن تبدیل کرنے کا بنیادی کام سرانجام نہیں دے سکتی ہے۔ ہمارے منصوبہ سازوں اور دانشوروں کو ان فکری، سماجی، سیاسی اور نظریاتی اسباب کا سراغ لگانا ہو گا جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں۔ ہم غالباً اب تک شجرِ خبیث کی شاخیں کاٹ رہے ہیں جبکہ اسے جڑ سے اکھاڑ دینا ضروری ہے۔ اگر تعلیمی اداروں میں اسلام کی آفاقی تعلیمات کو فروغ اور اخلاقی اور ذہنی تربیت دینے کا باوقار بندوبست کیا جائے، تو مذہبی تنگ نظری اور فرقہ وارانہ ذہنیت ختم ہو سکتی ہے۔ اسی طرح میڈیا کے ذریعے اسلام کا روشن چہرہ پوری دنیا کو دکھایا جا سکتا ہے۔ ذہن کی تبدیلی اور سیرت سازی کے لیے حکومتوں کو بڑی دانشمندی سے وافر وسائل کے ساتھ منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ اس پر عمل درآمد کا خاص اہتمام کرنا ہو گا۔
ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خاتمے اور عوام کے ساتھ رشتے استوار کرنے میں پولیس کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، مگر یہی محکمہ حددرجہ بے اعتنائی کا شکار ہے۔ 2002ء میں پولیس اصلاحات نافذ کی گئی تھیں جن میں پولیس کو آزادی سے اپنے فرائض بجا لانے کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس میں پبلک سیفٹی کمیشن اور شکایات سننے والی اتھارٹی کا قیام ضروری قرار دیا گیا تھا، مگر ان پر عمل نہیں ہوا۔ خیبر پختونخوا میں ایک نئے قانون کے ذریعے پولیس کی خودمختاری کا اہتمام کیا گیا ہے۔ آئی جی پولیس جس کے عہدے کی میعاد تین سال ہے، اسے اس عرصے میں ہٹایا نہیں جا سکتا۔ اس کے علاوہ سیاست دان اور سیاسی حکام پولیس پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ اس نظام سے خیبر پختونخوا میں حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ وہ نظام تمام صوبوں میں رائج کیا جائے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ اسی طرح انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین کوآرڈی نیشن پیدا کرنے کے لیے نیکٹا کا ادارہ قائم کیا گیا جسے قانون کے مطابق وزیراعظم کے تحت کام کرنا تھا، مگر اس کا دفتر وزارتِ داخلہ میں ہے جس پر ایک سیکشن افسر حکم چلاتا ہے۔ اسے فنڈز بھی حسبِ ضرورت فراہم نہیں کیے گئے اور اس ادارے کی دو تہائی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ہماری فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم بار بار دہرا رہے ہیں جس سے قوم کے حوصلے یقیناً بلند ہوتے ہیں، لیکن اب ہماری سیاسی قیادت اور سول اداروں کو اپنے فرائض نہایت مستقل مزاجی سے ادا کرنا ہوں گے تاکہ ایک جامع حکمتِ عملی بروئے کار آتی نظر آئے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مربوط اور دانش مندانہ اجتماعی کوششوں سے دہشت گردی کا عفریت نیست و نابود ہو جائے گا۔ ہمارے عہد کے وسیع النظر شاعر فیض احمد فیض نے کہا تھا؎
دل نااُمید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

تازہ ترین