• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترین نااہلی کیس، پراپرٹی ایک ، ادائیگیاں تین کی گئیں، سپریم کورٹ، 10 روز میں جواب طلب

Todays Print

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کی عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جہانگیر ترین سے 10روز کے اندر اپنے بچوں کے ٹیکس ریٹرن جمع کروانے اور انکی آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جائیداد ایک اورادائیگیاں تین تین کی گئیں ،درخواست گزار نے مسول علیہ کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا ،اگر اسکے پاس معقول مواد نہیں تو یہ مقدمہ کو کس طرح آگے بڑھا رہا ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے کہا دستاویزات نہیں تو کیسے مان لیں، آف شور کمپنی جہانگیر ترین نے بنائی، عمران خان تو بڑے واضح جواب دیتے تھے۔

تحقیقات کروانا پڑیں گی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار کی جانب سے عاضد نفیس ایڈووکیٹ جبکہ جہانگیر ترین کی جانب سے سکندرمیمن ایڈووکیٹ پیش ہوئے، عاضد نفیس ایڈووکیٹ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کل (بروز بدھ) میں نے دو نکات پر اپنے دلائل مکمل کرلئے تھے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آف شور کمپنی سے متعلق جہانگیر ترین کے کیس کا فیصلہ آچکا ہے، آپ کن دستاویزات پر انحصار کررہے ہیں، جس پرفاضل وکیل نے کہا کہ میرے پاس آف شور کمپنی سے متعلق دستاویزات نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کے پاس دستاویزات نہیں تو کیسے مان لیں کہ آف شور کمپنی جہانگیر ترین نے ہی بنائی ہے،آپ ہمیں کو وارنٹو کا سکوپ بتادیں، مسول علیہ کا پاکستان سے غیر قانونی طور پر رقم لے جا کر آف شور کمپنی بنانے کا آپ کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت اخباری تراشوں کی بنیاد پر کی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاناما کیس میں تقاریر، ٹی وی انٹرویوز اور دیگر مواد پر کارروائی شروع کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کومسول علیہ کی آف شور کمپنی کا نام تک معلوم نہیں،جس پرفاضل وکیل نے کہا کہ مسول علیہ نے 2013 کے انتخابات سے قبل کاغذات نامزدگی میں زرعی زمین چھپائی ہے ، اسلئے وہ الیکشن کمیشن کے سامنے مس ڈیکلیریشن کے مرتکب ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین نے تین سال میں86 لاکھ 54ہزار 929 روپے کا ٹیکس ادا کیا ہے، آپ کا کیس یہ ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں ،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ انہوںنے زرعی زمین کا انکم ٹیکس کم ا داکیا ہے توفاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اگر زرعی زمین کا انکم ٹیکس کم دیا گیا تو پھر جہانگیر ترین جانیں اور محکمہ انکم ٹیکس والے جانیں۔ فاضل وکیل نے کہا کہ مسول علیہ نے ا یف بی آر کو اپنی زرعی آمدن 540ملین روپے ظاہر کی ہے جبکہ الیکشن کمیشن میں 120ملین روپےظاہر کی ہے،اس میں 420ملین کا فرق آیا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا زرعی زمین کی آمدن سے متعلق جہانگیر ترین کے خلاف کیس کسی اور عدالت میں زیر سماعت ہے؟ تو فاضل وکیل نے کہا کہ زرعی زمین کی آمدن کم ظاہر کرنے کا کیس کہیں اور زیر سماعت نہیں ،جس پرجسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ٹیکس قانون میں سقم ہے کہ ٹھیکے پر اراضی لینے والے پر ٹیکس عائد نہیں ہوتا ، صرف ٹھیکے پر دینے والا ہی ٹیکس ادا کرتا ہے۔

فاضل وکیل نے استدعا کی کہ عدالت جائزہ لے کہ جہانگیر ترین نے زرعی آمدن پر ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کی ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کے مطابق آمدن سے متعلق اثاثوں کی غلط بیانی کی گئی ہے،درخواست گزار کا کہنا ہے کہ غلط بیانی کے اثرات ہونگے۔ انہوں نے جہانگیر ترین کے وکیل سکندرمیمن کو اس معاملہ پر دلائل دینے کی ہدایت کی چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ تضاد کی بنیاد پر آپ کے موکل پر آئین کے آرٹیکل 62 کا اطلاق ہوتا ہے، جس پر انہوں نے موقف اختیار کیا کہ میں بعد میں اپنے موکل کی آمدن سے متعلق عدالت کو تفصیلی دلائل پیش کروں گا ۔

جس پر درخواست گزار کے وکیل فاعاضد نفیس نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جہانگیر ترین نے ٹیکس چوری کی ہے اور غلط آمدن بتائی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ جہانگیر ترین اور ٹیکس اتھارٹی کے درمیان کا معاملہ ہے،اگر کم ٹیکس ادا کیا گیا تو یہ معاملہ محکمہ انکم ٹیکس سے متعلق ہے،آپ ہی بتائیں کہ الیکشن کمیشن کو کم ٹیکس بتا کر انہیں کیا فائدہ ہوا ہوگا ؟جہاںٹیکس ادا کرنا تھا وہاں سارا صیحح بتایا ہے۔

تازہ ترین