• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Todays Print

کراچی(جنگ نیوز)پاناماکیس کاتاریخی فیصلہ آج ہونے جارہا ہے ۔اس بارے میں لارجربنچ تشکیل دیا گیا ہےجس کے بارے میں قانونی ماہرین نے مختلف رائے دی ہے۔اس ضمن میں ماہرقانون شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پانچ میں سے دو جج اپنا مائنڈ پہلے ہی بنا چکے جبکہ ماہرقانون ناصراسلم نے کہا ہے کہ فیصلہ پانچ ججز کا ہی ہوگا ضروری نہیں سب متفق ہوں۔

سابق چیف جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ موجودہ بنچ  سابقہ کا حصہ نہیں، بیر سٹرفروغ نسیم نے کہا کہ فیصلہ گزشتہ سے ملا کر پڑھا جائیگا  جبکہ ماہرقانون عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ جوڈیشل ہسٹری میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔تفصیلات کے مطابق ملک کے  مستند ماہرین قوانین کا کہنا یہ ہے کہ یہ پانچ رکنی بنچ ہی فیصلہ کرے گی۔

سابق جج شائق عثمانی نے کہا کہ  ایک بنچ جو ہے چیف جسٹس بناتا ہے اور چیف جسٹس نے وہ بنچ بنا دی پانچ ججز کی اُن پانچ ججز نے فیصلہ کرنا ہے بدقسمتی سے اُن پانچ ججز میں سے دو ججز نے اپنا مائنڈ پہلے بنا دیااور کہہ دیا کہ وہ نتیجہ پر پہنچ گئے اور اُن کی طرف سے پٹیشن انہوں نے ڈسپوز آف کر دی لیکن باقی تین ججز نے اپنا فیصلہ نہیں دیا وہ کرسکتے تھے وہ چاہتے تو اپنے فیصلہ کو ڈس مس کرسکتے تھے اور پھر وہ ڈس مس ہوگئی ہوتی پٹیشن لیکن انہوں نے نہیں کی انہوں نے کہا نہیں ہمیں کچھ اور انفارمیشن چاہیے اب وہ انفارمیشن ان کے پاس آگئی اب وہ اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ وزیراعظم کو نااہل کرنا ہے کہ نہیں کرنا اب ان تینوں میں سے ایک جج بھی سمجھتا ہے کہ ان کو نااہل ہونا ہے تو اس کا مطلب پانچ ججزجو چیف جسٹس صاحب نے اپائونٹ کئے تھے اس میں سے تین جج سمجھتے ہیں ان کو نااہل ہونا تو وہ ان  پانچ ججز کی بنچ کا اکثریتی فیصلہ ہوگا۔

سابق جج ناصر اسلم کا کہنا ہے کہ  اگر ایک بنچ ہوتی ہے اورچیف جسٹس صاحب پانچ ججز بناتے ہیں پانچ ججز میں سے دو ججز جو ہیں وہ کوئی انکوائری کر رہے ہیں تو فیصلہ تو پانچ ججز کا ہی ہوگا جو بھی  constitute کی گئی ہے جو بھی فیصلہ چیف جسٹس صاحب نے کیا ہے کہ یہ پانچ جج اس کیس کو سنیں گے تو وہ پھر پانچ ججز کا ہی فیصلہ ہوگا اور ضروری نہیں ہے کہ پانچ ججز متفق ہوں،منقسم فیصلہ بھی آتا ہے اور جب فیصلہ منقسم  ہوتا ہے تو اکثریتی فیصلہ پر یہ ڈپنڈ کرتا ہے کہ بنچ جو تھی وہ پانچ ججز کی بنچ چیف جسٹس صاحب constitute  کی اُن کو یہ کیس دیا گیا تھا اگر اُن کو کیس دیا گیا تھا تو فائنل فیصلہ وہ پانچ جج ہی کریں گے۔

سابق جج وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ  یہ جو موجودہ بنچ ہے یہ اُس بنچ کا حصہ نہیں ہے جو پانچ رکنی بنچ تھی اور جس نے منقسم  فیصلہ دیا تھا اس recommendation کی بنیاد پر چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ انٹی  مین ٹیشن بنچ بنائی ہے چیف جسٹس کو رپورٹ کریں گے ہمارا کام ہوگیا ہے اور اس کے بعد پھر چیف جسٹس کو بنچ بنانی ہے جو اس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے اس بنچ میں ان تین جج صاحبان کو ہونا ہی ہونا ہے دوسرے دو جج صاحبان ہیں ان کا بھی یہ پارٹ ایٹ کیس ہے لہٰذا اُن کا بھی ہونا ضروری ہے۔بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ  پانچ رکنی بنچ نے جس نے یہ کیس سنا اس پانچ رکنی بنچ کے جو ججز تھے پانچ جو تھے ان میں سے دو نے ایک فائنل فیصلہ دے دیا اور اپنے طور پر کیس ان دو ججز نے نمٹا دیا  دیا اپنے دو رائے پر تین ججز نے ایک جے آئی ٹی بنائی اپنی معاونت کے لئے اور وہ کیا آرڈر تھا وہ ایک درحقیقت انٹیرم آرڈر تھا اس کے اندر آخر میں اگر آپ دیکھیں گے تو میرا نہیں خیال کہ کوئی حتمی طور پر فیصلہ آیا اُن کا بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ جے آئی ٹی اس طرح کام کرے گی اور اپنی معاونت کے لئے اس کو جے آئی ٹی بنا رہے ہیں جب یہ تین یعنی ججز فیصلہ اپنا اپنا دیں گے فائنل تو وہ جو پرانے والے دو نئے ججز جو فیصلہ مکمل دے چکے ہیں تو یہ فیصلہ اُس کے ساتھ مل کے پڑھا جائے گا، مل کے پڑھا جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان تین والے ججز میں سے اگر ایک بھی جج نے ان دو والے ججز سے جو فیصلہ دے چکے ہیں اتفاق  کرلیا تو یہ تین ججز پھر ایک طرف ہوگئے۔

تازہ ترین