• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم نوازشریف کو ان کے عہدے سے برخاست کرتے ہوئے عدالت نے تاحیات نااہل قراردیاہے۔ میاں نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نااہل ہوکر اپنی ’’ہیٹرک ‘‘ بھی مکمل کرلی ۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے قراردیا ہے کہ نوازشریف اور ان کے اہل خانہ جن میں ان کے فرزندان حسن ،حسین، دختر مریم اور ان کے داماد کیپٹن صفدر شامل ہیں ان کے خلاف نیب میں مقدمہ درج کیاجائے۔عدالت کے فل بنچ نے وزیر اعظم نوازشریف کے سمدھی اور اسحاق ڈار کو بھی ان کے عہدہ وزیر خزانہ سے نااہل قراردیاہے۔ نوازشریف وہ شاہ بخت ہیں جو تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے اور انہوں نے اپنی ہیٹرک مکمل کی لیکن قابل ذکر امر ہے کہ وہ تینوں مرتبہ اپنی مدت پورے کرنے سے قبل عہدے سے ہٹا دئیے جاتے رہے ۔پہلی بار صدر اسحاق نے ان کے خلاف 58ٹوبی استعمال کرتے ہوئے گھر بھیجا ۔دوسری مرتبہ وہ دوتہائی اکثریت لے کر ناقابل تسخیر وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئے مگر جنرل مشرف نے ان کا تختہ الٹ دیا ۔نوازشریف کی دوحکومتوں کے اس طرح سے ختم کئے جانے کے بارے میں کہاگیاکہ اسحاق خان اسٹیبلشمنٹ کے بنائے صدر تھے جبکہ مشرف کا براہ راست تعلق اسی ادارے سے تھا۔ اس بارنوازشریف عدالت سے نااہل ہوئے ہیں ۔ان کے خلاف عدالت کے پانچ رکنی فل بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے انہیں وزارت عظمیٰ سے نااہل قراردیا ہے۔تاہم نون لیگ اور خصوصاََاس جماعت کے وزراء گلاپھاڑ پھاڑ کر الزام لگاتے رہے کہ اس بار بھی ان کے خلاف مقتدر قوتوں نے کھیل کھیلاہے۔
گزشتہ دنوں مجھ سے سوال کیاگیاکہ ہمارے ہاں صرف منتخب قائدین کا ہی احتساب کیاجاتاہے ۔ کیاایسا ممکن ہے کہ آئین شکن پرویز مشرف کو بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے؟میرا جواب یہ تھاکہ اس ملک میں آئین اور قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے کسی کو ووٹ کی دیوار اور وردی کے حصار کے پیچھے چھپنے کی سہولت میسر نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن یہ ایک UTOPIAN SITUATION)مثالی سیاسی صورت حال) ہے جوہمارے ہاں رائج نہیں ہے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کا احتساب نہیں ہوسکا تھا۔دوسری طرف سویلین صفوں میں دیکھاجائے تو لیاقت علی خان،حسین شہید سہر وردی ،محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری ،یوسف رضاگیلانی اور نوازشریف میں سے کچھ کا احتساب ہوا اور بعض نے زندگی کا مقدمہ ہار کر رہائی پائی ۔ قابل ذکر امر ہے کہ جمہوری اور ریاستی اداروں کے سربراہ عوام کے ٹیکسوں پر مشتمل قومی خزانے سے ہی سخاوت اور شجاعت کے کارنامے سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔لیکن ان کی تشہیر کے ذمہ دار ادارے یہ تاثر دینے میں مشغول رہتے ہیںکہ ’’باس نے ذاتی جیب ِخاص سے سخاوت کرکے حاتم طائی کی قبر پر فلائنگ کک ماری ہے‘‘۔ مشرف اکثر اوقات کہتے ہیں کہ ملک اور آئین میں سے کسی ایک کو بچانا مقصود ہوتو ظاہر ہے ہماری ترجیح ملک بچاناہوتاہے۔نجانے یہ فیصلہ کیسے کیاجاتاہے کہ اب ملک خطرے سے دوچار ہے لہذا آئین توڑ کر حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے؟؟
پانامہ کا فیصلہ آچکا ۔سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم نواز شریف کے چلے جانے سے جمہوری نظام کو نقصان ہوگا؟ اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں ون مین شو برینڈ نظام ہی نافذرہاہے۔فیلڈمارشل ایوب خان کی صنعتی ترقی پر مبنی آمریت ہویابھٹو صاحب کا ’’بناسپتی
سوشلسٹ انقلاب ‘‘دونوں ادوارمیں انہیں مرکزیت حاصل رہی۔نوازشریف اینڈ کمپنی جنرل ضیاالحق اور ان کے رفقاکاروں کی ٹیلنٹ ہنٹ اسکیم کا نتیجہ تھے۔بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی نرسریوں میں خاص لیڈر شپ مینوفیکچر کی گئی ۔اس پروجیکٹ پر عمل کرتے ہوئے چاروں صوبوں خصوصاََپنجاب سے کامیاب صنعت کاروں ، اور صاحب ثروت افرادکو اشیر باد دی گئی۔ جاگیر دار طبقہ اس سے قبل ہی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان تھا۔ نوازشریف کی طرح محمد خان جونیجوکو بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برخاست کیاگیاتھا۔جونیجوکو اس وقت وزارت عظمیٰ سے محروم کیاگیاتھا جب وہ بیرونی دورے سے وطن واپس لوٹے تھے ۔ بیان کیاجاتاہے کہ جونیجو کو ایئر پورٹ پر ہی جنرل ضیاالحق کا حکم نامہ تھما دیاگیاتھاجس پر درج تھا کہ ’’آپ کو برخاست کیاجاتاہے ‘‘۔ عجب اتفاق ہے کہ نوازشریف بھی عدالت سے برخاست کئے جانے سے صرف ایک دن قبل مالدیپ سے وطن واپس لوٹے ہیں۔ نوازشریف سے قبل کنگ پارٹی (مسلم لیگ جونیجو گروپ ) کے سربراہ جونیجو ہوا کرتے تھے۔حامدناصر چٹھہ بتاتے ہیںکہ ابھی محمد خان جونیجو کی تجہیزوتکفین بھی نہیں ہوپائی تھی کہ نوازشریف نے اس خواہش کا اظہار کیاتھا کہ اب انہیں ’’کنگ مسلم لیگ ‘‘ کا سربراہ بنایاجائے!!!
جیوکی اسپیشل ٹرانسمیشن کے سلسلے میں تجزئیے اور تبصرے جاری تھے کہ نون لیگ کے کارکن ایک نعرہ لگاتے دکھائی دئیے کہ ’’یا اللہ یارسول نوازشریف بے قصور‘‘۔حامد میر نے بیان کیاکہ 1990میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے یہ نعرہ لگایاتھاکہ ’’یا اللہ یارسول بے نظیر بے قصور‘‘۔اس کا پس منظر یہ تھاکہ صدر اسحاق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف آئین کی شق 58ٹو بی کا استعمال کرتے ہوئے بر طرف کردیا تھا۔اس کے بعد نوازشریف وزیر اعظم کے طور پر میدان میں اتارے گئے تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان اقتدار کا یہ کھیل میوزیکل چیئر کی طرح جاری رہااور پھر 12اکتوبر1999کو ایک مرتبہ پھر نواز حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا۔نون لیگ کے کارکنوں اور ترجمانی کرنے والوں نے درج بالا نعرہ لگا کر یہ تاثر دیاہے کہ نوازشریف بے قصور ہیں اور ان کے قائد کے خلاف اس بار بھی زیادتی ہوئی ہے۔یادداشت کا فیتہ ری وائنڈکروں تو میرے کانوں میں ’’باخبر افراد ‘‘ کی وہ آوازیں گونجنے لگتی ہیں جن میں وہ سرعت سے یہ کہتے سنائی دیتے تھے کہ’’ آنے والے دنوں میں وہ نوازشریف خاندان کو سیاست میں نہیں دیکھتے ‘‘۔ قابل ذکر امر ہے کہ یہ بات اس وقت کی جارہی تھی جب پانامہ کیس ابھی سامنے نہیں آیاتھا۔ یہ نعرہ سب سے زیادہ شیخ رشید اپنی کراری آواز میں لگاتے دکھائی دیتے تھے۔سوال پیدا ہوتاہے کہ ہمارے ان دوستوں کویہ کیسے پتہ تھاکہ آنے والے دنوں میں ملک کی سیاست میں شریف خاندان کا کردار محدود یا ختم کردیا جائے گا!!! اس سوال کا جواب عرض کروں تو نوازشریف کو 1985کے غیر جماعتی الیکشن میں لایاگیااور پھر تیزی سے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کرایاگیا۔اس سے قبل نوازشریف ایک صنعت کار ہوا کرتے تھے اب چونکہ ان پرسیاست میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے تو لہذا کہاجاسکتاہے کہ ’’پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیرتھا‘‘۔یہ بھی کہاجارہاہے کہ نون لیگ کی قیادت اب نوازشریف کی جگہ چوہدری نثار علی خان کریں گے۔ چوہدری نثار نے چند گھنٹے قبل کہاتھاکہ اگر فیصلہ وزیر اعظم کے خلاف آیاتو وہ چٹان کی طرح نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ چٹان کی طرح ڈٹ جاتے ہیںیاجھرنے کی طرح ڈھلوان کی جانب لڑھک جاتے ہیں۔

تازہ ترین