• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1995 کا موسم سرما تھا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت ڈانواں ڈول تھی۔ اخبارات میں کرپشن کی کہانیاں چھپ رہی تھیں۔ شاہد حامد اور بیگم عابدہ حسین کے لب و لہجے کے ہر زیر و بم پر سیاسی منڈی میں بھاؤ چڑھتے اور گرتے تھے۔ 1993ء میں نااہل قرار پانے والے میاں نواز شریف دیانت دار اور شفاف ہو چکے تھے۔ 58 ٹو-بی کی مدد سے بے نظیر حکومت گرانے اور مسلم لیگ نواز کے اقتدار میں آنے کی خبریں بسنت کی پتنگوں کی طرح ہوا میں اڑ رہی تھیں۔ کراچی میں فوجی آپریشن ہو رہا تھا، جنرل نصیر اللہ بابر کراچی کی سڑکوں پر ڈنڈا گھماتے ہوئے سب کچھ ٹھیک کرنے کا اعلان کر رہے تھے لیکن سب کو معلوم تھا کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ اگرچہ مرتضی بھٹو کا قتل ابھی کئی مہینے دور تھا اور میاں نواز شریف کی ہیوی مینڈیٹ حکومت تشکیل پانے میں ایک سال باقی تھا۔ ہماری نسل تب نسبتاً جوان تھی اور زنبیل میں ایک آدھ خواب بھی باقی تھا۔ تنویر جہاں نے تجویز دی کہ ایک تھیٹر گروپ بناتے ہیں۔ نام رکھا تھیٹر 21۔ خیال یہ تھا کہ بیسویں صدی ختم ہو رہی ہے۔ اکیسویں صدی کی تمثیل مختلف ہو گی۔ ہم میں سے کسی کو تھیٹر کی الف ب معلوم نہیں تھی۔ ڈاکٹر انور سجاد، شاہد محمود ندیم اور منو بھائی ہمارے صلاح کار ٹھہرے۔ بہت محبت سے سب سمجھاتے تھے۔ ڈاکٹر مبارک علی گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے بہت شفقت سے پورے انسٹیٹیوٹ میں دھماچوکڑی کی اجازت دے دی۔ باہم مشورہ کر کے فیصلہ ہوا کہ وجے ٹنڈولکر کا ڈرامہ "شانتی! عدالت چالو آہے" تیار کیا جائے۔ مراٹھی تو ہم نہیں جانتے تھے۔ انگریزی ترجمہ دریافت کیا گیا۔ بھائی انتظار حسین سے درخواست کی کہ ہمیں اردو میں ترجمہ کر دیجیے۔ انہوں نے کمال التفات کیا۔ چند ہفتوں میں اسکرپٹ ہمارے ہاتھ میں تھا اور ہم ڈرامے کی ریہرسل کر رہے تھے۔ یہ ڈرامہ ہم نے تین روز تک کھیلا مگر ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ کام ہمارے بس کا نہیں۔ بھائی انتظار حسین کے ہاتھ کا لکھا اردو مسودہ پرانے کاغذوں میں شاید کہیں رکھا ہو۔
اس کھیل کی کہانی بہت دلچسپ تھی۔ا سکول، یونیورسٹی کے اساتذہ کی ایک ٹولی ڈرامہ گروپ تشکیل دیتی ہے۔ ریہرسل شروع ہوتی ہے۔ عدالت کا کوئی منظر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک شام معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر دملے ریہرسل کے لئے نہیں آسکیں گے۔ اداکاروں نے یونہی اکھاڑا جمائے رکھنے کو تماش بینوں کے ہجوم سے ایک لڑکے کو اسٹیج پر بلا لیا۔ پروفیسر دملے کی غیر حاضری میں اصل ریہرسل تو نہیں ہو سکی، عدالت کی میز کرسی رکھی ہے، باقی اداکار کاسٹیوم پہنے حاضر ہیں۔ جھوٹ موٹ کا ایک ناٹک شروع کیا جاتا ہے جس میں ناگہانی طور پر شامل ہونے والا اداکار پیش پیش ہے۔ یونہی بات سے بات نکلتی ہے اور ایک نامعلوم بچے کے قتل کا الزام مکالموں میں چلا آتا ہے۔ اچانک اسٹیج پر ماحول تبدیل ہو جاتا ہے۔ اوٹ پٹانگ مکالموں کے درمیان انکشاف ہوتا ہے کہ ٹیم کی ایک رکن مس بینرجی ناجائز بچے کی ماں بننے والی ہے اور پروفیسر دملے اس بچے کا باپ ہے۔ بنارسی پر ناجائز بچے کو قتل کرنے کا الزام حقیقت میں بدل جاتا ہے۔ اردو روایت میں اس کھیل کا مرکزی خیال ڈھونڈنا ہو تو انجم رومانی کا شعر پڑھئے۔
اول اول چلے من جملۂ آداب جو بات
آخر آخر وہی تعزیر بنی ہوتی ہے
خبر آئی ہے کہ عدالت عظمی نے فیصلہ دے دیا ہے، نواز شریف وزیر اعظم کے منصب کے لئے تاحیات نااہل قرار پائے ہیں۔ سامنے کی بات ہے کہ اس مقدمے میں دو فریق تھے۔ ایک فریق کا موقف تسلیم کر لیا گیا۔ ایک فریق عدالت سے ناکام لوٹا۔ سچ پوچھیے تو اس فیصلے میں کچھ نیا معلوم نہیں ہوتا۔ خفی خط میں بین السطور لکھا ہے کہ عدالت عظمی میں انصاف کے لئے ایک اور اپیل خارج کر دی گئی۔ یہ مقدمہ بہت پرانا ہے۔ نومبر 1954 میں مولوی تمیز الدین چھپتے چھپاتے سندھ ہائی کورٹ میں انصاف مانگنے گئے تھے۔ فیصلہ ان کے حق میں آیا لیکن چیف کورٹ نے تکنیکی بنیاد پر انصاف کی اپیل خارج کر دی۔ اسی مقدمے میں ایک اپیل ڈوسو کیس میں دائر کی گئی۔ نظریہ ضرورت کے تحت اپیل خارج کر دی گئی۔ دسمبر 1971میں ملک غلام جیلانی کی نظربندی اس مقدمے کا اگلا مرحلہ تھا۔ اٹھارہ سالہ عاصمہ جیلانی یہ درخواست لے کر عدالت کی دہلیز پر پہنچیں۔ انہیں بعد از میعاد اور جزوی انصاف دیا گیا۔ فریق مخالف کا حوصلہ ختم نہیں ہوا۔ بہت اتھل پتھل کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے اس مقدمے کی مزید پیروی کا پرچم اٹھایا۔ بیگم نصرت بھٹو کی اپیل خارج کر دی گئی۔
گیارہ سال اس حالت میں گزرے کہ یہ لاوارث کنبہ لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں برگد کے ایک پیڑ تلے ہر روز آن بیٹھتا تھا۔ یہ ان دیکھا اور خاموش دھرنا تب ختم ہوا جب اگست 1988 میں معلوم ہوا کہ عدالت میں انصاف کے لئے ایک اور درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ یہ درخواست چھ اگست 1990 کو مسترد کر دی گئی۔ انصاف مانگنے والے نڈھال ہو کر بیٹھ گئے۔ حیران کن طور پر مخالف فریق سے ایک شخص انصاف مانگنے والوں کے ساتھ 13 اپریل 1993 کو آن ملا۔ ابتدائی طور پر اس کی درخواست منظور کی گئی لیکن حتمی فیصلے میں خارج کر دی گئی۔ اس مقدمے میں اگلا دعوی بے نظیر بھٹو نے دائر کیا۔ 6 ستمبر 1996 کو انصاف کی یہ اپیل بھی مسترد کر دی گئی۔
بارانی زمینوں کا جھگڑا ایسے تو ختم نہیں ہوتا۔ یہ نسل در نسل چلتا ہے۔ دیکھیے بیوپاری اپنا کاروبار بدل سکتا ہے، کسان کے لئے بہت مشکل ہوتی ہے۔ زمین کو سر پہ اٹھا کے کہیں اور نہیں لے جا سکتا۔ اپنے کھلیان میں انصاف کی دہائی دئیے چلا جاتا ہے۔ اکتوبر 1999 میں یہ درخواست پھر سے عدالت کے سامنے پیش کی گئی۔ اپریل 2000 میں میاں نواز شریف کو عمر قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ پانچ ہفتے بعد 12 مئی 2000 کو یہ درخواست خارج کر دی گئی۔ استاذی عزیز صدیقی نے اس روز لکھا تھا، ’لاقانونیت کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا‘۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل آٹھ برس تک دادرسی کا راستہ دیکھتی رہی۔ وکیل بدلتے رہے، مدعی اور مدعا علیہان کے نام بدلتے رہے۔ اس دوران کسان گھرانے کے دو دھڑوں میں 14 مئی 2006ء کو ایک سمجھوتہ طے پایا جسے میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا۔
جولائی 2009 میں عدالت عظمی نے فیصلہ دیا کہ نظریہ ضرورت کا وہ قانون ہی ختم کر دیا جائے جس کے تحت 1958 میں فیصلہ سنایا گیا تھا۔ 2010 میں کسان گھرانے نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے میثاق جمہوریت کی توثیق کر دی۔ فریقین کے وکیل سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ نظریہ ضرورت تو ختم ہو گیا لیکن ضرورت تو سانس کے ساتھ بندھی ہے۔ ضرورت کیسے پوری کی جائے؟ اس پر غور و فکر کے بعد ایک مقدمہ داغ دیا گیا۔ 28 جولائی 2017ء کو عدالت نے میاں نواز شریف کو عمر بھر کے لئے نااہل قرار دے دیا۔ انہیں اٹھارہ برس پہلے عمر قید کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ یہ تاریخی مقدمہ بیک وقت دو عدالتوں میں چل رہا ہے۔ ایک عدالت شاہراہ دستور پر بیٹھتی ہے۔ دوسری عدالت وہ ہے جس نے بھٹو صاحب کو کبھی قاتل مان کے نہیں دیا اور بے نظیر بھٹو کو ہمیشہ بے قصور قرار دیا۔ یہ عدالت مستقل نوعیت کی ہے اور اس کا بنچ کبھی تعطیل پہ نہیں جاتا۔ اس کی سماعت کبھی ملتوی نہیں ہوتی۔ اس عدالت کا فیصلہ کبھی بے یقینی کا شکار نہیں ہوتا۔ خاموش! عدالت میں انصاف کی اپیل زیر سماعت ہے۔

تازہ ترین