• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کی حکومت کو تو ریاست پر کنٹرول کیلئے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے سے فرصت نہیں، وزارت خارجہ ویسے ہی عضوِ معطل ہے، دفاعی منصوبہ ساز اپنے بارے میں ہر طرح کے زعم کا شکار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ستر سالوں سے ہماری سیکورٹی پالیسی ناکامی سے دوچار ہے۔ اس صورتحال میں بین الاقوامی خطرات کے حوالے سے قومی بحث مفقود ہے۔ ترجیح تو دور کی بات، بین الاقوامی صورتحال سے ابھرنے والے خطرات کا ہماری اشرافیہ کو ادراک تک نہیں۔ ایسے حالات میں بحث کیونکر ہو اور خطرات کی پیش بندی اور ان سے نمٹنے کیلئے تیاری کا مرحلہ کیونکر آئے۔
بین الاقوامی افق پر پاکستان کیلئے کچھ نئے خطرات جنم لے رہے ہیں جن پر بحث کا آغاز کرنا نہایت ضروری ہے۔ جس طرح پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں، چین اور جاپان کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ ہمیں بھارت کی ہندوتوا کی غلامی کا ڈر ہے تو چین کے ماضی قریب میں جاپانی غلامی کے زخم ابھی تک بھرے نہیں ہیں۔ قوموں کی دشمنیاں آسانی سے جاتی نہیں، ایران اور سعودی عرب کی مثال دیکھ لیں، انکا جھگڑا قبل از اسلام کا ہے جو دونوں قوموں کے مسلمان ہونے پر بھی ختم نہیں ہوا۔ پاک بھارت دشمنی اور چین جاپان دشمنی میں جب سے چین کے سپر پاور کے طور پر ابھرنے کا راستہ روکنے کی امریکی کوششوں کا تڑکہ لگا ہے، نئے فوجی بلاکس کے خدوخال اب تقریبا واضح ہو چکے ہیں۔ ایک طرف امریکہ، جاپان اور بھارت کا فوجی اتحاد بن چکا ہے اور دوسری طرف چین اور پاکستان کا۔
ان دو واضح فوجی اتحادوں کے ساتھ ساتھ دو تھیٹر اور ہیں جہاں اس اتحاد سے منسلک ملک ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ پہلا تھیٹر افغانستان ہے جہاں امرکہ الزام عائد کرتا ہے کہ پراکسی تنظیموں کی مدد سے ہم امریکہ کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں، بدلہ چکانے کیلئے امریکہ افغانستان میں بھارت کو لے کر آیا ہے جسکی تیار کی گئی پراکسی تنظیمیں پاکستان کو ناکوں چنے چبوا رہی ہیں۔ دوسرا تھیٹر شمالی کوریا ہے جسکے ایٹمی ہتھیاروں اور امریکہ اور جاپان کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائلوں سے انکی نیندیں حرام ہو چکی ہیں جبکہ دوسری طرف چین شمالی کوریا کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔
ان دو تھیٹروں کے علاوہ ایک دوسرے سے براہ راست الجھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بحیرہ جنوبی چین میں امریکہ و جاپان اور چین کے درمیان بحری و فضائی جہازوں کی چھیڑ چھاڑ کے واقعات اب معمول بن چکے ہیں جبکہ بھارت اور چین کا بارڈر بھی گرم ہو چکا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجیں چینی سرحد کے اندر داخل ہو گئی ہیں اور وہ انہیں بار بار واپس جانے کی وارننگ دے رہا ہے. نتیجتا، چین نے بارڈر پر اپنی فوجیں بھیجنا شروع کر دی ہیں تو بھارت نے چین کے بارڈر پر انتہائی جدید اور خطرناک براہموس میزائل نصب کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ تیسری گرما گرمی کشمیر کے اندر جاری قتل وغارت کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہو چکی ہے۔ اور چوتھی گرما گرمی امریکہ کی پاکستان کے بارے میں نئی پالیسی سے ہو سکتی ہے، کچھ اطلاعات کے مطابق امریکہ پاکستان کے اندر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانے بنانے کے آپشن پربھی غور کر رہا ہے۔
سی پیک چین کی نہ صرف مجبوری تھی بلکہ اسکے لئے زندگی موت کا مسئلہ تھا۔ امریکہ اور جاپان کے ساتھ اگلی ممکنہ جنگ کے پیشِ نظر چین کو بحر ہند میں رسائی کی ضرورت تھی تاکہ ممکنہ بحری ناکہ بندی پر چین کے پاس افریقہ اور مشرقِ وسطی تک رسائی اور ترسیل کا ایک راستہ کھل سکے۔ افریقہ میں چین نے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور مشرقِ وسطی سے تیل کی ترسیل کیلئے راستے کی اہمیت چین کیلئے زندگی اور موت کے برابرتھی اور ہے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر چین نے سی پیک کا ماسٹر پلان بنایا۔ چین نے بڑی سوچ و بچار کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی کر کے سی پیک بنانے کا ارادہ کیا۔ چین بخوبی آگاہ ہے کہ سی پیک کے منصوبے سے پاکستان کیلئے تزویراتی خطرات بہت بڑھ گئے ہیں مثلا جنگ کی صورت میں جب امریکہ، جاپان اور بھارت کا اتحاد چین کا بحیرہ چین کے ذریعے راستہ بند کر دے گا تو چین کا سارا انحصار سی پیک والے روٹ پر ہو گا۔ کیا امریکہ، جاپان اور بھارت اس روٹ کو کھلا چھوڑ دیں گے؟ ماضی کی ایک مثال سے سمجھنے میں سہولت ہو گی۔ دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان اور چین میں جنگ جاری تھی تو چین کی سپلائی لائن کٹ چکی تھی، صرف ویت نام کی بندرگاہ ہائےپھونگ کے ذریعے چین کو تیل اور اسلحے کی سپلائی ہو رہی تھی سو جاپان نے حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ کیا ہم نے ایسی کسی صورتحال کی پیش بندی کی ہے؟
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سی پیک روٹ کی چینی مجبوری اور پاکستان کیلئے ممکنہ تزویراتی خطرات کے پیشِ نظر سی پیک کے معاہدوں پر پاکستان کو خصوصی رعایت ملتی لیکن جو خبریں سامنے آ رہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر سرمایہ کاری نہ صرف کمرشل ریٹوں پر ہے بلکہ شاید مارکیٹ سے بھی مہنگے قرضوں پر۔ دوسری طرف موجودہ حکومت خصوصا متعلقہ وزیر احسن اقبال سی پیک کے ماسٹر پلان اور معاہدوں کو مکمل طور پر خفیہ رکھنے پر بضد ہیں جس نے پاکستان کی معیشت کو مستقبل کے خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔ ان حالات میں ماسٹر پلان، معاہدوں اور شرائط خصوصا شرح سود کے حوالے سے یا تو دستاویز لیک ہونے سے علم ہو رہا ہے یا بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے۔ کک بیکس کا چکر ہے یا سی پیک کے کریڈٹ یا اس کے کنٹرول پر سول ملٹری تنازع یا پھر سی پیک کے معاہدوں سے لاہور یا پنجاب کو غیر منصفانہ فائدہ دینے کا چکر ہے یا پھر یہ تینوں وجوہات ہیں لیکن حکومت کی طرف سے سی پیک معاہدوں کو 20 کروڑ عوام سے خفیہ رکھنا جس کے انکے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہونگے، کتنی بڑی زیادتی ہے۔ سونے پر سہاگہ کہ سی پیک پر بات کرنے کو ہی شجرِ ممنوعہ بنا دیا گیا۔ وہ تو بھلا ہو آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا جن کا بیان آیا کہ سی پیک پر کھلی بحث ہونی چاہئے، کہ مجھے اس شجر ممنوعہ پر کنکر پھینکنے کی ہمت ہوئی کہ شاید خفیہ معلومات کا کوئی پھل عوام کی جھولی میں گر جائے۔

تازہ ترین