• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلا سوال تھا اگر قانون موجود نہ ہو تو فیصلہ کیسے ہو گا؟ دوسرا سوال اگر قانون ہے تو انصاف کیسے ہوگا اور تیسرا اہم سوال، قانون بھی ہے، انصاف بھی ہوسکتا ہے، مگر نظام نہیںہے ۔ شریک محفل حضرات ایسی بحث کر رہے تھے جس کا سرا کئی لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ ویسے بھی قانون اور قاعدہ دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔ قدرتی قانون جسے عام زبان میں قانون فطرت کہا جاتا ہے مگر میرا سوال تھا کہ قانون کیا ہے؟ ا س پر سب خاموش تھے سب ہی مجھے دیکھ رہے تھے اور مسکرا بھی رہے تھے۔ میں ایک کم عقل شخص ہوں اور مجھے اندازہ بھی ہے مجھ میں عقل اور فہم کی خاصی کمی ہے۔ میں اپنی بیوی سے جب بھی مکالمہ کرتا ہوں تو وہ بحث کے درمیان میں ہی میرا دھڑن تختہ کردیتی ہے۔ میں جب غصہ اور شرمندگی سے اس کی طرف دیکھتا ہوں تو وہ اور بھی سنجیدہ ہو کر کہتی ہے۔ کیا میں پاگل ہوں۔ بس اس کے بعد ہماری بحث اور مکالمہ ختم ہوجاتا ہے۔ آپ پاگل نہیں مگر میں ذرا کم عقل ہوں۔ ا س کے بعد ہماری صلح ہو جاتی ہے۔ اور آئندہ مکالمہ تک زندگی خوشگوار رہتی ہے۔
آج پھر یہ سوال درپیش ہے کہ قانون کیا ہے۔
ہمارے ہاں پاناما کے مقدمہ نےپوری قوم کو ہیجان اور بے بسی میں مبتلا کئے رکھا ۔ سونے پر سہاگہ ہمارا میڈیا ہر روز کوئی نہ کوئی نئی موشگافی لے کر آتا ہے۔ پاناما کافیصلہ آچکااب ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے لئے نیا مقدمہ درپیش ہے کہ اقامہ کی سہولت قانونی ہے یا غیر قانونی۔ عام حالات میں سہولت قانونی ہی ہوتی ہے۔ مگر پہلا سوال اپنی جگہ ہے کہ قانون کیا ہے۔ اس پر زیادہ سوچنا مناسب نہیں قانون کا عام فہم مطلب ہے کہ کسی بھی مشکل کے لئے آسانی کے اصول کو قانون کہا جاسکتا ہے اس سے ہمارا معاملہ وقتی طو ر پر حل ہوگیا ہے۔ مگرسوال یہ ہے کہ آپ اس سہولت کو استعمال کرکے کسی اور اصول اور قانون کی نفی تو نہیں کر رہے۔ اس میں سب سے اہم معاملہ وزیر باتدبیر احسن اقبال کا ہے۔
احسن اقبال صاحب پروفیسر بھی ہیں اور ان کا اہم کردار ہمارے دوست قدر دان ہمسایہ چین کے راہداری منصوبہ سے ہے۔ اس منصوبہ کے بنیادی خد و خال سابق ملٹری صدر مشرف کے زمانہ میں نظر آتے ہیں۔ پھر ملک میں تبدیلی شروع ہوئی اور ابھی تک راستے میں ہے اور کبھی کبھی لگتا ہے کہ تبدیلی آچکی ہے مگر وہ آتی نظر نہیں آ رہی۔ تبدیلی کے لئے جمہوریت کا اسلحہ استعمال ہو رہا ہے اور اسلحہ اور بارود سے انقلاب تو آ سکتا ہے، تبدیلی ممکن نہیں۔ مگر راہداری منصوبہ جس کو چین نےاپنی اور ہماری ترقی کے لئے سنگ میل بنا رکھا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں شروع ہو چکا ہے جب ملٹری صدر باہمی مفاد کے تناظر میں ملک کو خیر باد کہتے ہیں تو چین کے راہداری منصوبہ کی نگرانی سابق صدر آصف علی زرداری بڑی دلجمعی سے کرتے رہے۔ ان کے زمانہ صدارت میں وہ ہر دوسرے ماہ چین کے کسی شہر کی یاترا کرتے نظر آتے تھے۔ ہمارا میڈیا اور اس وقت کی اپوزیشن ان کی بڑی ناقد ہوتی تھی اور پروفیسر احسن اقبال صدر پاکستان کے رتبہ کے برخلاف کڑی تنقید بھی کرتے۔ ان پر بڑے عجیب بہتان بھی لگے۔ مگر سابق صدر نے چین کو باور کروا دیا کہ پاکستان ان کا مخلص دوست ہے۔
چین کے ساتھ راہداری منصوبہ کے خدو خال پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں واضح ہونے لگے تھے اور ابتدائی طور پر افواج پاکستان اس اہم منصوبہ جس کو سی پیک بھی کہا جاتا ہے، میں اہم ذمہ داری کے لئے تیاری کرتی نظر آنے لگی۔ سابق صدر زرداری کا دور خاصا ہنگامہ خیز رہا۔ ان کو سیاسی طور پر خاصا مصروف رکھا گیا اور کئی دفعہ تو ایسا لگا کہ بس صدر زرداری فارغ ہو سکتے ہیں۔ مگر چین راہداری منصوبہ نے ان کو ہمت اور جرأت دی اور وہ ڈٹے رہے اور ان کی پشت پر عسکری حلقے بھی تھے۔ پھر جب معاملات طے پا گئے تو میاں نواز شریف کو اپنی سرکار بنانے کا موقع انتخابات نے دیا۔ ان کے ابتدائی دن بھی خاصے مشکل تھے۔ انتخابات میں شفافیت سوال بنی رہی اور کپتان عمران خان نے تاریخی دھرنے کا آغاز کیا اور پھر دہشت گردی کے بڑے حملہ کے بعد سرکار نے ایک عدالتی کمیشن بنا کر اس معاملہ کو طے کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ معاملہ ہمارے ناقص قانونی نظام کی بدولت ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ ان ہی دنوں میں چین کا اصرار تھا کہ راہداری منصوبہ کو عملی طور پر پاکستان کے عوام کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔ مگر سرکارنے عمران خان کے دھرنےکی وجہ سے صدر چین کا دورہ موخر رکھا اور چین مروت کی وجہ سے خاموش رہا۔ مگر وہ ہمارے عسکری حلقوں سے رابطے میں رہے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب چین کے صدر نے اس دو طرفہ منصوبہ کواس خطہ کے لئے اہم قرار دیا اور ابتدا کی نوید بھی سنا دی اس منصوبہ میں تین فریق ہیں۔ ایک فریق پاکستان دوسرا فریق چین اور تیسرا فریق پاکستانی فوج ہے جو اس راہداری کی نگرانی اور تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
اس منصوبہ کے خدو خال تو واضح ہوتے جا رہے ہیں مگر اب تک قومی اسمبلی اور سینیٹ کو مکمل طور پر باخبر نہیں رکھا گیا اور جس کی وجہ سے کئی مسائل اور سوال پیدا ہو رہے ہیں اور منصوبہ کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے چین اس منصوبہ میں افرادی طاقت اور امداد کے علاوہ قرض بھی مہیا کر رہا ہے اس معاملہ میں خاصا ابہام پایا جارہا ہے اور اس منصوبہ کے نگران وزیر پروفیسر احسن اقبال صوبوں سے مشاورت تو کرتے نظر آتے ہیں مگر ان کی کوششوں کو ماہرین نہیں مانتے اور خصوصاً وہ خفیہ معاملات جن سے ہمارا مفاد وابستہ ہے۔
چین راہداری منصوبہ کسی ایک فرد یا حکومت سے وابستہ نہیں ہے۔ مگر پاناما لیکس نے اس منصوبہ کو سست کر رکھا ہے۔ پھر اس منصوبہ کے قوانین کے بارے میں ہمارے اہم ادارے بھی بے خبر ہیں۔ ان کی شفافیت بھی ضروری ہے۔ پھر قانون کے لئے کسی عدالت میں جانابھی ضروری اور لازمی نہیں۔ فیصلہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے مگر ہماری اشرافیہ اور اعلیٰ نوکر شاہی اس معاملہ میں ہمیشہ دروغ گوئی اور بدعملی سے طے کرتی ہے۔ قانون کے مطابق سپریم کور ٹ نے جنرل اسلم بیگ کے مقدمہ میں فیصلہ دیا ہوا ہے کہ قانون کے مطابق سرکار اپنا کردار ادا کرے اور انصاف ہوتا نظر آئے مگر ہماری سرکار بھی ہمیشہ نوکر شاہی کی محتاج نظر رہی ہے اور اس ہی وجہ سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل نہیں ہو رہا۔
شکر ہے قانون اور انصاف قربانی نہیں مانگتا اور معاملہ فہمی وقت پر ضروری ہے وقت گزرتا جا رہا ہے۔ پہلے ہی تبدیلی کے لئے دیر ہو چکی ہے ہر دفعہ تبدیلی سے پہلے انقلاب آ جاتا ہے۔ اب کی بار قانون کون سا راستہ اختیار کرتا ہے اور کونسا قانون عام پاکستانیوں کی مشکلات کا ازالہ کرتا ہے میں کم عقل انتظار میں ہوں اور یہ ہی سب سے بڑی مشکل ہے۔

تازہ ترین