• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے گزشتہ 40سالوں میں مختلف انتظامی اور آئینی عہدوں پر رہ کر ملک کی خدمت کی ہے جس سے میں نے جو سبق حاصل کیا ہے اسے ایک معروف سماجی سائنسدان کے الفاظ میں اس طرح ہی خوبصورتی سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب بھی رازداری اور احتساب کی بات کی جائے تو لوگ ہمیشہ اپنے لئے پہلی اور دوسروں کے لئے موخرالذکر چیز کو ہی پسند کرتے ہیں، ہمارے لوگ بھی باقی دنیا سے مختلف نہیں، جب دوسروں کے اعمال کا احتساب ہوتاہے تو ہم بھی بطور قوم اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کا ایک رکن رہنے کے ناطے میں قومی اور بین الاقوامی نوعیت کے کیسوں کی تحقیقات میں شامل رہا ہوں اور اس وقت سے میں نے عوامی اور حساس نوعیت کے کیسوں کی تحقیقات کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کئی مشترکہ تحقیقاتی کمپنیاں (جے آئی ٹی) بنتے دیکھی ہیں، کسی بھی کیس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی کی تشکیل کے وقت میرا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ قانون کی نظر میں جے آئی ٹی ایک اجنبی اور الگ قسم کا طریق کار ہے۔ فوجداری کیس کی تحقیقات کو ضابطہ فوجداری کے سیکشن 156کے تحت مربوط بنایا گیا ہے جو پولیس اسٹیشن کے انچارج کو اختیار دیتا ہے کہ وہ قابل دست اندازی جرم کی تحقیقات کرے اور ضابطہ فوجداری کے سیکشن 157کے تحت اسے تفتیش کے لئے کسی ماتحت افسر کو متعین کرنے کا اختیار حاصل ہے اور تحقیقات مکمل ہونے پر پولیس اسٹیشن کا انچارج افسر سیکشن 173کے تحت رپورٹ متعلقہ عدالت میں پیش کرتا ہے۔ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 157 کے تحت کسی پولیس افسر کو ملنے والے کیس کی تحقیقات کوئی غیر پولیس افسر نہیں کر سکتا، ضابطہ فوجداری میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ہمیشہ پولیس افسر کا فرض اور ذمہ داری ہے کہ وہ سیکشنز 156اور 157کے تحت فوجداری کیس کی تحقیقات کرے اور ضابطہ فوجداری کے سیکشن 173کے تحت متعلقہ عدالت میں ٹرائل کے لئے رپورٹ پیش کرے یا ملزم کے بارے میں کوئی اور فیصلہ کرے تاہم یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ صوبائی حکومتیں جب بھی کوئی عوامی اہمیت یا حساس نوعیت کا کیس ہوتا ہے توجے آئی ٹی بنا دیتی ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پرموجود ہے کہ بہت سی مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں اپنی تحقیقات کو حتمی نتیجے تک نہیں لے جا سکیں، اکثر کیسوں میں جے آئی ٹیز کے مرتب کردہ نتائج پر لوگوں کو سزائیں نہیں ہوئیں، جے آئی ٹی کی بہت سے معاملات میں تحقیقات اور تفتیش کے بعد استغاثہ قانون کی عدالت میں شواہد کو ثابت نہیں کر سکا جس پر ظاہر کئے گئے شکوک و شبہات جہاں جائز ہیں وہاں خود جے آئی ٹیز کی قانونی حیثیت اور جواز خود مشکوک اور مشتبہ ہے کئی مواقع پر جے آئی ٹیز بنائی گئیں مگر وہ ٹھوس نتائج نہ دے سکیں۔تاہم کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 1956ء کا سیکشن 3وفاقی حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ’’ کسی عوامی اہمیت کے معاملے کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیشن بنا سکتی ہے جو اس مقصد کے لئے جاری نوٹیفکیشن میں دی گئی مدت میں اپنے امور طے کرے گا‘‘ تاہم انکوائری کمیشنز کے حاصل کردہ نتائج ہمیشہ سفارشی نوعیت کے ہوتے ہیں اور وفاقی حکومت ان پر عملدرآمدکی پابند نہیں ہوتی۔ ماضی میں وفاقی حکومتوں نے اس ایکٹ کے تحت کئی انکوائری کمیشن بنائے جن میں حمود الرحمان کمیشن، ابیٹ آباد کمیشن، ایک صحافی کے قتل پر تحقیقاتی کمیشن شامل ہیں، بدقسمتی سے ان میں سے اکثر کمیشنز کی رپورٹس کو عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184کے تحت عوامی اہمیت کے کسی بھی معاملے میں مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اس آرٹیکل میں دیئے گئے بنیادی حقوق کے معاملے میں کارروائی کر سکتی ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 184کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے کئی جوڈیشل کمیشن بنائے جن میں میموگیٹ کمیشن، لال مسجد کمیشن 2013ء ‘عمران خان/ پی ٹی آئی کی درخواست پر بنایا گیا انتخابی دھاندلی کا تحقیقاتی کمیشن اور لاپتہ افراد کمیشن شامل ہیں۔ انکوائری کمیشنز اور سپریم کورٹ کے بنائے گئے کمیشنز میں فرق یہ ہے کہ آخرالذکر کی سفارشات پر عمل ضروری ہوتا ہے جبکہ اول الذکر کے حوالے سے ایسا نہیں۔ فاضل سپریم کورٹ نے حال ہی میں ریاض ملک بنام ارسلان افتخار کیس میں قرار دیا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت سپریم کورٹ تحقیقات کا اختیار نہیں رکھتی مگر ’’غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور موثر تحقیقات و انکوائری یقینی بنانے کے لئے ناگزیر خصوصی اقدامات‘‘ کا اختیار رکھتی ہے اور الزامات کی تحقیقات کیلئے ایک رکنی کمیشن مقرر کیا جسے سپریم کورٹ کو رپورٹ دینا تھی۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے حج کرپشن کیسوں کی تحقیقات میں پیشرفت اور 2012ء میں نیشنل انشورنس کارپوریشن (این آئی سی) کی طرف سے عوامی خریداری قواعد(پپرا) کی خلاف ورزی پر نظر رکھی مگر کوئی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) نہیں بنائی گئی۔ افسوس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب کمیشن قائم کرنے کا شور تو بہت مچایا جائے مگر وہ کوئی نتائج دینے میں ناکام رہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی مثال ہی لے لیں جو ایبٹ آباد کے ایک کمپائونڈ میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تحقیقات کے لئے بنایا گیا تھا، میرا آپ سب سے سوال ہے کہ کتنے لوگ اس کمیشن کے رپورٹ کے نتائج سے آگاہ ہیں؟ کیا ہمارا حق نہیں کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ کیسے اور کیوں امریکیوں نے ارضِ وطن کی سکیورٹی کو پامال کیا؟ اور آخر کیوں کسی نے اسے روکنے کے لئے کچھ نہ کیا؟ بہت سی رپورٹس عوام سے چھپائی گئی ہیں، بدقسمتی سے ایسا ہی 2012ء کے لال مسجد آپریشن کی رپورٹ کے ساتھ کیا گیا جہاں 100سے زائد لوگ مارے گئے۔ اُس وقت کا آمر حکمران جنرل مشرف اس وقت پاکستان سے بھاگ گیا جب اس کے اعمال کا حساب ہو رہا تھا‘ پاناما کیس کی سماعتوں کی تکمیل پر سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ 13سوالوں کی تحقیقات کی جا سکے جس پر سپریم کورٹ مزید آگے بڑھ سکے۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر، ایس ای سی پی اورا سٹیٹ بینک جیسے ریاستی اداروں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جو اپنے طور پر اس معاملے کی تحقیقات نہیں کر سکے تھے‘ یہ عدم اطمینان ہی جے آئی ٹی کی تشکیل کا موجب بنا۔ سپریم کورٹ کے عدم اطمینان کے اظہار سے یہ ادارے عوام کی نظر میں اعتماد کھو بیٹھے تو سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں جے آئی ٹی فوجداری کیس کی تحقیقات کے لئے ضابطہ فوجداری میں دیئے گئے طریقہ کار کی جگہ لے لے گی؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ضابطے اور آئین میں ترمیم کے ذریعے اسے مناسب قانونی تحفظ دیا جائے۔ جونقطہ میں پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کا نظریہ ناقص نہیں مگر یہ کس طرح کام کرے اسے مناسب طور پر مانیٹر کرنا ہو گا تاکہ اختتام میں وہ جو کچھ پیش کرے اس کی اہمیت ہونی چاہئے۔ آئر لینڈ کی مثال لے لیجئے جہاں منظم جرائم اس کی موثر برآمدات بن چکے ہیں ۔ نیدر لینڈ پولٹی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) اتنی خفیہ رہتی ہے کہ اس کے افسران ناموں کی بجائے نمبرز استعمال کرتے ہیں کیونکہ خدشہ ہوتا ہے کہ وہ پر تشدد (گارڈ فادرز) کے ہاتھوں قتل نہ ہو جائیں مگر وہ فعال طور پر کام کرتے ہیں اور ان آئرش برٹش گینگز کا سراغ لگاتے ہیں جو یورپ بھر میں منشیات کی نقل و حرکت کے لئے روٹس بناتے ہیں، انہیں جے آئی ٹیز کی مسلسل کوششوں سے 6 جولائی کو یورپ بھر (سپین، اٹلی اور جرمنی) سے 30 افراد پکڑے گئے جو منشیات کی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث تھے اور ان سے 520کلو گرام کوکین اور 450ایم ایس حشیش اور چرس پڑی گئی، محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں اگر معاشرے کے انتہائی طاقتور طبقے کے خلاف جے آئی ٹی یا مشترکہ کمیشن بنائے جائیں تو وہ بے فائدہ ہی رہتے ہیں تاہم مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ کی بنائی گئی جے آئی ٹی نے اپنا فرض ایمانداری سے ادا کیا جہاں کہ سیاست میں لوگوں کو خطرہ ہوتا ہے کہ منصفانہ نتائج نہیں آئیں گے اور ملک کے انتہائی قابل احترام اداروں کو متنازع بنا دیا جاتا ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بنانے کا خیال باہمی تعاون کے بارے میں 1976ء کے نیپلس کنونشن پر نظرثانی کے دوران آیا۔ 2000ء کے کنونشن کا آرٹیکل 13کہتا ہے کہ 2یا زائد ارکان پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی جا سکتی ہے تاکہ فوجداری تحقیقات کو یکساں موثر بنایا جا سکے، یہ کسی مخصوص مقصد کے لئے بننی چاہئے جس کے حل کے بعد یہ ٹیم تحلیل کر دی جائے، مزید برآں تحقیقات منشیات ، ہتھیاروں کی نقل و حمل اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہونی چاہئے جس کا الزام شریف خاندان پر بھی ہے‘ پہلی بار ایسی جے آئی ٹی بنائی گئی ہے جس کا حوالہ ہمیشہ دیگر ماتحت عدالتوں میں دیا جائے گا پس ضروری ہے کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات اور اس کی آئینی حیثیت کو قانونی تحفظ دیا جائے جس کے تحت وہ تفتیشی ذمہ داریاں ادا کرے اور اس کی کارروائی کو قانونی دائرے میں لا کر مزید معنی خیز اور مفید بنایا جا سکے۔

تازہ ترین