• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں گزشتہ دنوں درد میں مبتلا رہا اور آپ کی محفل سے غیر حاضر رہا۔ میرے نزدیک درد زندگی کی علامت ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سنتے ہوئے میرا ذہن تاریخ کی وادیوں میں بھٹکنے لگا۔ دو تین دہائیاں قبل جنرل ضیاء الحق کی یادگار آئینی ترمیم اٹھاون ٹو بی تلوار کی مانند حکمرانوں کے سر پر لٹکتی رہتی تھی۔ صدر غلام اسحاق خان نے اسی تلوار سے پے در پے بے نظیر اور میاں نوازشریف کی حکومتوں کی گردنیں کاٹیں۔ حتیٰ کہ اس آئینی شق سے نجات حاصل کرنے کے لئے دو سیاسی حریف متحد اور متفق ہوگئے اور انہوں نے اس سے نجات حاصل کر کے ہی دم لیا۔ اسے اتفاق ہی سمجھئے کہ اب آئین کی شقیں 62-63تلوار بن کے ہمارے حکمرانوں کے سروں پر لٹک رہی ہیں حالانکہ اب تک سیاستدان انہیں بے ضرر اور سجاوٹی شقیں سمجھتے تھے۔ اب کچھ عرصے سے یہ بحث اعتراف (Confession) کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمان میں کوئی رکن بھی ان شقوں کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ مطلب یہ کہ کوئی رکن بھی چاہے وہ لاکھوں ووٹ حاصل کر کے اسمبلی میں پہنچے، امانت صداقت اور اچھی شہرت کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ آسان لفظوں میں یوں کہیں کہ مملکت خداداد اسلامی پاکستان میں کوئی رکن پارلیمنٹ بھی سچا، دیانت دار اور نیک شہرت نہیں۔ ووٹر بھی یہ سب کچھ جاننے کے باوجود انہیں ووٹ دیتے ہیں اور امیدواران بھی آئین کی ان شقوں کے باوجود انتخابات ’’لڑتے‘‘ ہیں۔ گویا نیک و پارسا مسلمانوں کے اس اسلامی ملک میں آگ دونوں طرف برابر کی لگی ہوئی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جس دن ایک بلوچ درویش اور سابق وزیراعظم نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں اعتراف کیا تھا کہ اس پارلیمنٹ میں کوئی رکن بھی آئین کی شقوں 62-63 پر پورا نہیں اترتا یعنی کوئی بھی سچا، امین اورنیک شہرت نہیں تو میں اقبالؒ کے الفاظ میں یہ بات سن کر پانی پانی ہوگیا تھا اگرچہ میرے پانی پانی ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ اعتراف رکن اسمبلی دستی نے کیا ہوتا تو میں اسے اگنور کر دیتا کیونکہ پارلیمان کی لاجز کی ٹوکریوں میں خالی بوتلیں تلاش کرنا اس کا محبوب مشغلہ اور بے وقت کی راگنی ہے۔ نہ جانے اسے عیوب سے پردہ اٹھانے میں کیا ملتا ہے۔ لیکن یہ بات سن کر اس لئے پانی پانی ہوا کہ اسے کہنے والا سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی تھا اور بادی النظر میں جمالی۔ جمال سے تعلق رکھتا ہے۔ جمال باوقار ہوتا ہے۔
فیصلے نے آئین کی ان دو شقوں کی تلوار سے مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اور قوم کے وزیراعظم کے اقتدار کی گردن کاٹ دی ہے۔ مسلم لیگی نئے نئے جیالے بنے ہیں اوراب ان شاء اللہ سیاست کی بھٹی میں جل کر پکے جیالے بن جائیں گے کیونکہ پی پی پی کے جیالے اب جعلی جیالے لگتے ہیں۔ جن معصوم آنکھوں نے بھٹو کے جیالے دیکھے ہیں انہیں زرداری کے جیالے جعلی لگتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے صحیح معنوں میں صحیح اور اصلی چوٹ پہلی بار کھائی ہے کیونکہ مشرف کی لگائی گئی چوٹ جعلی اور جرنیلی چوٹ تھی۔ اب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو غلط بیانی یا جھوٹ کا مرتکب قرار دے کر اعلیٰ ترین عہدے سے فارغ کر کے مسلم لیگ (ن) کو پہلی بار سچی حقیقی چوٹ لگائی ہے۔ اس لئے اب سیاست کی بھٹی میں آگ بھڑکے گی اور اس بھٹی سے پک کر نکلنے والے سچے جیالے ہوں گے۔ کچھ ابن الوقت مسلم لیگ (ن) کا ساتھ چھوڑ جائیں گے کہ ابن الوقتی ہماری اسلامی سیاست کا ’’روشن ترین‘‘ پہلو ہے۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ زیادہ تعداد اپنی پارٹی سے چپکی رہے گی۔ اس کی دو وجوہ اہم ہیں۔ اول ابن الوقتی کو کوئی جنرل پاشا جیسا کاریگر متحرک کرتا ہے اوراس کے پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ ایجنسی ہوتی ہے۔ اس بار سیاسی منظر نامے میں ایسا کوئی ہاتھ نظر نہیں آتا۔ دوم مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک ہمدردی کا طالب ہے اور اب مسلم لیگی پروپیگنڈہ مشین ہمدردی کے حصول کے لئے اپنی پوری توانائیاں صرف کرے گی۔ اس کا آغاز کل ہی سے ہو چکا ہے۔ ایک مسلم لیگی قانون ساز کا یہ فرمان کہ وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی سزا دی گئی اور دوسرے جیالے کا یہ اعلان کہ اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملک پر حکمرانی کون کرے گا اس مہم کی شروعات ہیں۔ یہ مت بھولیں کے مسلم لیگ (ن) پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب کی مستحکم حکمران جماعت ہے، پنجاب میں اس کا ووٹ بینک مضبوط ہے اور یہاں اس کی حکومت ہے۔ اس لئے اس صوبے سے تعلق رکھنے والے وفاداری بدلنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔ درست کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ ہوا لیکن میری نظر میں وہ فائدہ اتنا بڑا نہیں جتنا فرض کیا جارہا ہے۔ فی الحال خود عمران خان عدالتی عمل کی زد میں ہیں اور ان کا اپنا مستقبل مشکوک ہے۔ اس لئے زیادہ فائدے کی امید عبث۔
مسلم لیگ (ن) چاہے بال کی کھال اتارے اور واویلا کرے لیکن قانون کی نظر میں وزیراعظم ٹیکنیکل گرائونڈ پر ناک آئوٹ ہو چکے ہیں۔ رہے باقی الزامات تو وہ نیب اور احتساب عدالت کے سپرد ہو چکے ہیں اور احتساب عدالت کو چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرنا ہے۔ الزامات سنگین ہیں چنانچہ چھ ماہ شریف خاندان کی کردارکشی کا عمل جاری رہے گا جس کے انتخابی مہم پر اثرات مرتب ہوں گے۔ احتساب عدالت سے سزا کا امکان بھی خاصی حد تک واضح ہے۔ فی الحال دو باتیں ظاہر ہیں۔ اول یہ کہ اب ہمارے اراکین پارلیمنٹ کا نشانہ آئین کی شقیں 62-63ہوں گی اور وہ اپنی صداقت و امانت کا بھرم رکھنے کے لئے موقع ملتے ہی ان شقوں کو آئین سے خارج کرنا چاہیں گے۔ دوم احتساب کا عمل جاری رہے گا، اس کا دائرہ پھیلتا جائے گا، بہت سے کرپٹ عناصر اس کی زد میں آئیں گے اور کسی حد تک سیاست کے گندے تالاب کوصاف کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جوکام ووٹر نہیں کرسکتے وہ شاید عدلیہ کردے۔ آخر امید رکھنے میں کیا حرج ہے۔
ایک معتبر کالم نگار نے لکھا کہ حکمران اپنا مقدر لکھ رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ایک مقدر انسان خود لکھتا ہے اورایک مقدر قدرت کا لکھا ہوتا ہے۔ محترم مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے فون نے قدرت کا لکھا یاد کرا دیا۔ اس کا ذکر ان شاء اللہ پھر کبھی.....!!

تازہ ترین