• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سو تاریخی فیصلہ آگیا۔ فیصلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ایک اقامہ کی بنیاد پر نواز شریف کونااہل قرار دے دیا گیا ہے، فیصلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اوپر الزامات کےدفاع میں کچھ ٹھوس ثبوت فراہم نہ کرسکے۔ ان الزامات کے ججوں کے مطابق صحیح ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمے احتساب عدالت میں بھیج دیئے گئے ہیں اور ان عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ 6ماہ کے اندر ان مقدمات کا فیصلہ کریں۔ ان مقدمات کی زد میں نواز شریف کا پورا خاندان ہی لپٹا ہوا نظر آتا ہے اور ان کے ساتھ ہی ان کے دست راست اسحاق ڈار بھی۔
اب جو نواز شریف کے وزرا بشمول سعد رفیق کے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہوا تو انہیں5میں سے 2ججوں کے نواز شریف کے بار ےمیں فیصلے کو ذرا دوبارہ پڑھنا چاہئے۔ اس کے بعد شاید وہ یہ نہ کہیں کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا۔
نواز شریف کے خلاف اس مقدمے کے بارے میں جو چیزیں سامنے آئیں اس کے مطابق انہو ںنے اور ان کے ان وکیلوں نے جن کے بار ےمیں بعض دوست یہ کہتےہیں کہ ان کے بودے دلائل نے نواز شریف کو مروا دیا، ان لوگوں نے ہی شاید نواز شریف کو قطری کہانی سنائی اور انہیں یقین دلایا کہ یہ کہانی کام کر جائے گی۔ قطری خود نہ تو JITکے سامنے پیش ہوا اور نہ ہی اس نے کوئی ایسا بنک ٹرانزیکشن کا ثبوت مہیا کیا جس کی بنیاد پر نواز شریف کو بری قرار دیاجاتا۔
عدالت میں نواز شریف شایداس خوف کے باعث کہ جو حقائق وہ وکیل کوبتائیں گے وہ کہیں میڈیاکے ہاتھ نہ لگ جائیں، جانے پہچانے وکیلوں پربھروسہ کرتے رہے۔ یہ بھروسہ کتنا کم تھا کہ انہیں بار بار وکیل بدلنے پڑے۔ ہر نیا وکیل اپنے ساتھ بودی دلیل کے انبار لایا۔ JIT کے سامنے بھی نوازشریف اور ان کے خاندان کے لوگ متضاد بیانات دیتے رہے اور اپنے دلائل کے ثبوت میں جعلی سرٹیفکیٹ پیش کرتے رہے۔ اس سے بہتر ہوتا کہ نواز شریف JIT کا بائیکاٹ کردیتے اور یوں JIT کو یکطرفہ رپورٹ بنانا پڑتی۔ مگر JITبننے پر شکرانے کے نفل ادا کرنےوالے اور مٹھائیاں بانٹنے والے نواز شریف کسی اور ہی خوش گمانی میں گم تھے۔
یہ سب کچھ صحیح لیکن اب نواز شریف اور ان کے خاندان کے لوگوں کے لئے آگے کیا ہے؟ وہ اپنا وقت کیسے گزاریں گے؟ اس سوال کا ایک جواب تو ذرا مزیدار ہے۔ ہمار ےایک دوست کہتےہیں کہ نواز شریف اب اپنا وقت ایسے ہی گزاریں گے جیسے وہ سرور پیلس سعودیہ میں گزارا کرتے تھے۔ تفصیل اس کی وہ کچھ یوں سناتے ہیں کہ انہیں اپنی کتاب کے لئے نواز شریف کا طویل انٹرویو چاہئے تھا۔ سو وہ ان سے ملنے کئی روز سرور پیلس جاتے رہے۔ دن کا آغاز روزانہ ایک ہی طرح ہوتا تھا۔ نوازشریف ان کے آتے ہی پہلا سوال یہ کرتے کہ ناشتہ تو ظاہر ہے آپ نے نہیں کیا ہوگا۔ ساتھ ہی وہ اپنے خانسامائوں کی پلٹن کو بلا لیتے ۔ارشادہوتا کہ تم پراٹھے بنائو اور تم انڈوں کا آملیٹ، تم کڑاہی گوشت بنائو اور تم جو لائن سے پیچھےکھڑے ہو قیمہ فرائی کرو۔ نہیں یہ تم جسے میں نے پراٹھے بنانے کا کہا ہے آج قیمہ فرائی کرو۔ کل تمہارے پراٹھے ٹھیک نہیں تھے۔ اگر قیمہ بھی ٹھیک نہ ہوا تو تمہاری چھٹی۔
اس کے بعد وہ اسی طرح لنچ کے بارے میں تفصیلی آرڈر دیتے اور پھر رات کے کھانے کی باری آتی۔ انٹرویو کے دوران بھی انہیں باربار کھانے کےمینو میں تبدیلیاں کرنا پڑتیں۔ اور وہ سب کو بلاکر ان تبدیلیوں کے بارے میںبتاتے رہتے۔
نوازشریف کا وقت تو گویا اچھاہی گزرے گا لیکن ان کی اس طرح کی مصروفیت ان کی پارٹی کے لئے سخت نقصان کا باعث بنے گی۔ انہو ںنے نئے وزیراعظم کے لئے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کاانتخاب کیا ہے۔ بہت سے لوگ اس بات سے بھی ناراض ہوں گے۔ باقی ناراضی نئےوزیراعلیٰ پنجاب کی نامزدگی کی صورت میں سامنے آئےگی۔ پارٹی اب زوال کاشکار ہوگی۔ اس نے جو عروج دیکھناتھاوہ دیکھ لیا۔ اس میں بڑا سبب پارٹی کو موروثیت کی بنیادپر مضبوط کرناہے۔ اب اگر شہباز شریف کے وزیراعظم بنتے ہی حدیبیہ اور ماڈل ٹائون کیس سامنے آگئے اور اس بنیاد پر انہیں سزا ہوئی تو پارٹی تقریباً ختم ہو جائے گی۔ نواز شریف کے بچے خاص طور پر مریم بی بی جو مستقبل میں وزیراعظم کی کرسی سنبھالنے کے خواب دیکھ رہی تھیں، ان کے خواب تو چکناچور ہوئے، شہباز شریف کو سزا ہونے کی صورت میں ان کا خاندان بھی سیاست سے تقریباً ختم ہی ہو جائے گا۔
ایک ایسا خاندان جس پر کرپشن کے الزامات ثابت ہو جائیں کس منہ سے اگلے انتخاب میںایسی پارٹیوں کاسامنا کرے گا جو اس پر الزامات کی بوچھاڑ کردیں گی۔ نوازشریف کے خلاف یہ سب کچھ کسی سازش کے تحت نہیں ہوا۔ اس میں خود ان ہی کا اور ان کے خاندان کا قصور ہے۔ لندن میں فلیٹ، دبئی میں کاروبار اور پاکستان سے ناجائز طریقے سے رقم کا باہر جانا یہ سب ان کا اپنا ہی کیادھرا ہے۔

تازہ ترین