• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میاں نواز شریف پاکستان کے وہ پہلے بطلِ سیاست ہیں جن کی سیاسی پرورش و پرداخت اور تربیت و تہذیب میں آئی ایس آئی کے پانچ سابق سربراہوں کی بہترین صلاحیتیں صرف ہوئیں۔ جنرل غلام جیلانی خان نے انہیں تخلیق کیا، جنرل اختر عبدالرحمن نے آگے بڑھایا، جنرل حمید گل نے راستہ دکھایا، جنرل اسد درانی نے اقتدار تک پہنچایا اور جنرل جاوید ناصر ان کے مشیرِ اقتدار ہوئے۔ ملک کے ان پانچ جرنیلوں کی سرپرستی میں سیاست کرنے اور جنرل حمید گل کے الفاظ میں ’ہمارا نشان ہمارا فخر‘ بن جانے والے میاں نواز شریف کو تمام تر کوششوں کے باوجود ڈھائی برس سے زیادہ برداشت نہیں جاسکا۔ پیر صاحب پگاڑا کے الفاظ میں ایجنسیوں کے ہاتھ کا بنا ہوا ان کا فخر اور ان کا نشان جاتے جاتے خود اپنے تخلیق کاروں کے متعلق بہت سے سوالات چھوڑ گیا۔ وقت آگیا ہے جب ہمیں من حیث القوم، لمحہ بھر کو رک کر سوچنا چاہیے کہ ہمارے لئے اگلا نشانِ منزل کون سا اور آئندہ کے لئے ہماری سمت سفر کیا ہو؟‘‘ یہ اقتباس ممتاز صحافی اظہر سہیل کی کتاب سے لیا گیا ہے، جو انہوں نے 1993میں میاں نواز شریف کی پہلی برطرفی پر لکھی تھی۔ 2017 میں نہ صرف یہ کہ میاں نواز شریف برطرف ہوگئے ہیں بلکہ نااہلی کے سبب اقتدار کے دروازے بھی اُن پر بند کردئیے گئے ہیں۔ ایسے عالم میں سوال یہ ہے کہ سیاست میں مسلم لیگ (ن) کا مستقبل کیا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ غلام اسحاق خان سے کشاکش اور پرویز مشرف کے خلاف اقدام کے باعث ہر دو مرتبہ حکومت سے رخصتی کے باوجودمسلم لیگ میدان میں رہی،وجہ یہ تھی کہ قائد کی پھر سے اقتدار میں آنے کی امید تھی، تاہم اب معاملہ برعکس ہے، جلیل حشمی نے کہا تھا۔
گرا ہے جھوم کے دیوار سے جواں ایسا
دھواں قبیلے کے خیموں میں بھر گیا یارو
اس میں شک نہیں کہ میاں صاحب کی قیادت میں مسلم لیگ روایتی ’موسم‘ لیگ نہیں رہی، پھر متعدد ایشوز پر ان کا صائب موقف اور اسٹیبلشمنٹ کی ہر بات میں ہاں سے ہاں ملانے کی روایت سے بغاوت ان کی شخصیت کو تو ممتاز بنا گئی ہے، دیکھنا مگر یہ ہے کہ خود ان کی جماعت نےاس کا کتنا اثر لیا ہے۔ خارجہ امور سے متعلق ان کے حالیہ اقدامات جیسا کہ یمن، قطرکےمعاملے میں غیر جانبداررہنا،ایران سے تعلقات برقرار کھنا، قابل تعریف ہیں، ان کے ایسی ہی قومی مفاد پر مبنی فیصلوں کے تناظر میں کہا جارہا ہے کہ ان کے دو خلیجی دوست ممالک ان سے ایسے ناراض ہوگئے ہیں کہ وہ اس مرحلے پر میاں صاحب کی مدد کیلئے نہیں آئے۔ قابل غور امر یہ بھی ہے کہ ملک میں میاں صاحب کے اس طرح کے جرات مندانہ اقدامات کی پزیرائی اُ س طرح نہ ہوسکی جس طرح کے یہ مستحق تھے، یعنی ہم مطالبہ تو کرتے ہیں کہ فلاں فلاں معاملے میں غیر جانبدار رہا جائے اور جب میاں صاحب ایسا کرگئے تو ہم نے سنی ان سنی کردی۔ کہنا یہ ہے کہ کیا اس طرح کے بولڈ فیصلوں سے مسلم لیگیوں نے کوئی تقویت حاصل کی ہوگی۔
میاں صاحب کے ڈٹ جانے کی روایت کے باوجود مگر تاریخی طور پر مسلم لیگ نام کی ہر جماعت میں آنے والوں کی فطرت موقع پرستی سے ہی عبارت ہے۔ کاش اس فطرت میں انقلابی تبدیلی آچکی ہو، ثبوت کیلئے وقت درکار ہے،لیکن یہاں اس فطرت کو سمجھنے کیلئے ہمیں پہلے قائد اعظم کے اس تاریخی قول کو سمجھنا ہوگا ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘
ایک نظر میں تو واضح ہے کہ اس سے مراد وہ مسلم لیگی نواب، خان بہادرو جاگیردار تھے جو فرنگی جیسے استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ میں بھی نہ تو ایک دن کے لئے جیل گئے، نہ ہی آزادی کے دیگر متوالوں کی طرح ان کی جائیدادیں نیلام ہوئیں اور جلاوطنی کا عذاب تو خیر ایسے سیماب صفت انسانوں کے لئے روا ہی کہاں تھا! واقعہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے محض ایک سال بعد کھوٹے سکوں یعنی مسلم لیگیوں کا یہ حال تھا کہ لاہور میں ممدوٹ، دولتانہ اور ملک فیروز خان نون ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے تھے۔ پشاور میں پیر مانکی اور خان عبدالقیوم خان ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ پنجاب میں تو مسلم لیگی اختلافات اسطرح جوبن پر تھے کہ وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے جنوری 1949میں پنجاب میں وزارت اور اسمبلی کو تحلیل کردیا۔ فروری 1949میں سندھ کی حکومت بھی ختم کردی گئی۔ مسٹر ایوب کھوڑو یہاں حاکم اعلیٰ تھے۔ تاہم یہاں پھر بھی کھوڑو کا طوطی بولتا تھا، انہوں نے یوسف ہارون جو کہ اسمبلی کے رکن بھی نہیں تھے، کو مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کا لیڈر منتخب کروایا۔ (یاد رہے کہ ضیا الحق صاحب نے بھی غوث علی شاہ کو سندھ کا وزیر اعلیٰ پہلے بنایااور اسمبلی کے رکن وہ بعد میں بنے) یوں یوسف ہارون وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ صوبہ سرحد (پختونخوا) میں خان عبدالقیوم خان نے سیفٹی ایکٹ کے تحت مسلم لیگیوں کا کچومر نکال دیا۔ پیر مانکی نے خان قیوم کی فسطائیت کے خلاف قائد اعظم کی مسلم لیگ سے اپنا تعلق ختم کرتے ہوئے ستمبر 1949میں عوامی مسلم لیگ قائم کرلی۔ مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کے سیاسی بطن سے ایک اور جماعت عوامی لیگ نکلی، مولانا عبدالحمید بھاشانی اس کے روح رواں اور حسین شہید سہروردی پشتی بان تھے۔ 1950میں مزید دو نئی جماعتیں تولد ہوئیں۔ میاں افتخار الدین نے آزاد پاکستان پارٹی بنالی اور نواب ممدوٹ نے جناح مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی۔ بعد ازاں جناح مسلم لیگ نے سہروردی اور پیر مانکی شریف سے اتحاد کرلیا۔ اور ایک نئی جماعت جناح عوامی لیگ معرض وجود میں آگئی۔ کچھ عرصے بعد نواب ممدوٹ اور سہروردی نے باقی ماندہ عوامی مسلم لیگ کو مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کے ساتھ متحد کرلیا۔ اور متحدہ پارٹی کے نام سے ’’مسلم‘‘ کا لفظ خارج کردیا۔ وہ جو مسلمانوں کا نعرہ تھا، مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ،گویا ہوا میں گرد و غبار کے ساتھ جا مل گیا۔
یہ چند جھلکیاں ہی کافی ٹھہرتی ہیں کہ قائد اعظم نے انہیں کھوٹے سکے کیوں کہا تھا۔ اب جب ایسے کھوٹے سکے سیاست پر قابض ہوں تو مضبوط اسٹیبلشمنٹ کا ابھرنا عین فطرت ہوتا ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ بیوروکریسی کے بے تاج بادشاہ غلام محمد، میجر جنرل اسکندر مرزا اورایوب خان کے گٹھ جوڑ پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ نے مسلم لیگ کو اقتدار کی لونڈی بناتے ہوئے عالمی سامراج کے مفادات اور اپنے شخصی، گروہی و طبقاتی مفادات کو بلند بام رکھا۔ یوں جمہوریت کمزور اور شخصی حکمرانی مضبوط ہوتی رہی۔ خواجہ ناظم الدین کے بعد محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، سہروردی، اسماعیل ابراہیم چندریگر، فیروز خان نون، حسین شہید سہروردی ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہوئے یکے بعد دیگر حکمران بنتے رہے اور پھر کوچہ اقتدار سے بے آبرو ہوکر نکلتے رہے۔ ہم یہاں تین آمروں ایوب خان، ضیاالحق، پرویز مشرف کے ادوار کی تفصیلات سے صرف نظر کرتے ہیں کہ کس طرح اُنہوں نے مسلم لیگ کو اپنی سیاسی لونڈ ی بنائے رکھا۔
اب جب مسلم لیگ کی تاریخ اس طرح موقع پرستی سے بھرپور ہو، تو بھلا ابتلا کے اس دور میں موجودہ مسلم لیگ سے انقلا ب کی توقع کیونکر ہوسکتی ہے۔ ان حقائق کے باوجود مگر یہ کہے بغیر چارہ بھی نہیں ہے کہ اگرچہ میاں صاحب اپنی جماعت کی تنظیمی ساخت سے قطعی طور پر انصاف نہیں کرسکے ہیں، اور شاید ہی کسی سطح پر مسلم لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ سلامت ہو، لیکن اب جو حالات پیدا ہورہے ہیں، تاریخ میں ایسے ہی مواقع کو نظم وضبط کیلئے بروئے کار لایا جاتاہے۔ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے سے جہاں موقع پرستی کی فطرت رکھنے والوں کو تشفی ہو سکتی ہے، تووہاں حالات کے جبر سے میاں صاحب کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ مسلم لیگ کو ایسی جماعت بناسکیں جو ملک میں انقلابی تبدیلی اور اسٹیٹس کو کے خاتمےکیلئے ہر اول دستے میں ہو۔ کیا وہ خودکو اس کیلئے آمادہ پاتے ہیں۔ لاریب! ان کے جوہری عزائم کی تکمیل کیلئے میدان تو اب سجنے والا ہے۔

تازہ ترین