• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نواز شریف سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کی روشنی میں اب نہ تو وزیر اعظم رہے اور نہ ہی مسلم لیگ(ن) کے صدر رہے، حتیٰ کہ اب وہ پاکستان میں پہلے سینئر ترین سیاستدان قرار پائے، جنہیں ہمیشہ کے لئے مختلف الزامات کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ شکر یہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز شریف کو فیصلہ والے دن سب سے زیادہ صدمہ پہنچا تھا اور یقیناً سب سے زیادہ مطمئن بھی وہی تھیں کہ اللہ کے ہر فیصلے میں کوئی بہتری ہی ہوتی ہے۔ بہرحال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے جس کی ذمہ داری یقینی طور پر ہمارے سیاسی قائدین کو قبول کرنا ہوگی، اگر وہ سیاسی طور پر ہزار اختلافات کے باوجود اکٹھے رہتے اور شریف فیملی اپنے معاملات چھپانے کی بجائے سب کو اعتماد میں لےلیتی تو شاید حالات اس قدر خراب نہ ہوتے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے حوالے سے بہت کچھ میڈیا میں چھپ چکا ہے اور بہت کچھ کہا جارہا ہے ۔ الیکٹرونک میڈیا پر اب چلتے ہیں ،مستقبل کے حالات پر تو مسلم لیگ(ن) کو کیا کرناچاہئے سب سے پہلے تو شریف فیملی کو اللہ کے ہاں سے معافی مانگنی چاہئے کہ دوران اقتدار ان سے جو غلطیاں ہوئی ہیں اللہ ان کی خطا معاف کرے ،اس لئے ایسے لگتا ہے کہ شریف فیملی اللہ کی پکڑ میں آئی ہے۔
پاکستان میں قانونی طور پر گرفت میں لانا انہیں اتنا آسان نہیں تھا۔ میاں نواز شریف اب لالو پرساد کی طرز پر سیاست تو کرسکیں گے مگر آنے والے تین چار ماہ ان کے لئے اتنے آسان نظر نہیں آتے، اس عرصے میں وہ اپنی پارٹی کی تنظیم سازی پر توجہ دیں، تو زیادہ فائدہ ہوگا، اس لئے کہ سیاسی مارکیٹ میں دو روز سے عمران خان کا ریٹ ہاٹ فیورٹ سطح پر چلے جانا ان کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے، ہم نے چند ہفتے قبل ایک کالم میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو تجویز کیا تھاکہ وہ پی ٹی آئی سے ضد چھوڑ یں اور سیاسی محاذ آرائی ختم کرکے مفاہمت کی طرف آئیں، مگر جب کوئی اقتدار میں ہوتا ہے تو اسے یہ باتیں اچھی نہیں لگتیں جس طرح نواز شریف سیاسی میدان میں عمران خان سے چت ہوئے ہیں۔ اس طرح1980کے آخری عرصہ میں مسز بینظیر بھٹو میاں نواز شریف کی مسلسل مخالفت کرکے مشکلات سے دو چار ہوئی تھیں۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سب سے زیادہ پریشان کن بات امریکہ اور چین کا بیان ہےجس میں کہا گیا ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس حوالے سے خاص کر چین کی طرف سے اس طرح کا بیان شریف فیملی کے لئے حیران کن ہے۔ ان کا یقیناً خیال ہوگا کہ چین تو ان کے حق میں بیان دے گا کہ اس سےCPECکے منصوبے میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں لیکن چین کے حالیہ بیان کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ چین پاکستان کا دوست ملک ہے۔ شریف فیملی کا نہیں، اس طرح امریکہ کے بیان سے بھی شریف فیملی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو شکر کریں کہ امریکہ نے ان کے جانے سے پہلے کوئی خوفناک بیان نہیںدیا۔ یہ سب صورتحال واضح کرتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر نواز شریف حکومت کی لابی اتنی مضبوط نہیں تھی یہی صورتحال مقامی سطح پر نظر آرہی ہے۔ بہرحال اب پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے آگے کی فکر کریں اور دعا کریں کہ پاکستان میں جمہوری نظام سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی چلتا رہے اور سب سیاسی قوتیں پاکستان کی سلامتی کو پہلی ترجیح دیں۔ اس سے بھی ملک میں حالات کی بہتری کی راہ ہموار ہوسکتی ہے لیکن اگر محاذ آرائی کی سیاست کی گئی تو اس سے صرف کرپشن نہیں اور کئی اور شعبوں میں شریف فیملی کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ ہماری بیوروکریسی اب اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ بھی لے سکتی ہے۔

تازہ ترین