• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کےمقدمے کی سماعت کے دوران بنچ میں شامل ایک معزز جج نے فرمایا تھا کہ ایسا فیصلہ دیا جائے گا جو بیس سال بلکہ صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ اٹھائیس جولائی کو سنایا جانے والا فیصلہ واقعی ایسا ہے جسے عدالتی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ عدالت عظمی کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلے کے تحت منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو صادق اور امین نا ہونے کی پاداش میں نا اہل کر دیا۔ فیصلے میں نا اہلی کی مدت کا ذکر موجود نہیں ہے تاہم وزیر اعظم کی نا اہلی آمرانہ دور کی اس آئینی شق کے تحت کی گئی ہے جس کی تشریح قانونی ماہرین کی اکثریت کے نزدیک تاحیات تصورکی جاتی ہے۔ وزیر اعظم کی نا اہلی کا جواز جس ایک معاملے کو بنایا گیا ہے اس کا سرے سے پاناما پیپرز سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے بلکہ آئینی ماہرین اس عذر کو نا اہلی جیسے انتہائی سخت فیصلے کیلئے معقول خیال نہیں کرتے، پاناما پیپرز کے ضمن میں جو اصل سوالات اٹھائے گئے اور الزامات عائد کئے گئے تھے کہ لندن فلیٹس کی منی ٹریل غائب ہے، نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کی اصل مالک مریم نواز ہے،لندن فلیٹس نواز شریف کی ملکیت ہیں ،نواز شریف نے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب میں جھوٹ بولا، مریم نوازاپنے والد کی زیر کفالت ہیں،نواز شریف نے ٹیکس چوری کی، ذرائع سے زائد آمدنی ہے، جعلی دستاویزات پیش کی گئیں، قطری خط کے مندرجات ایک کہانی ہیں،کیپیٹل ایف زیڈ ای کمپنی نواز شریف کی ہے اور انہوں نے اقامہ بھی لے رکھا ہے۔ کیپیٹل زیڈ ای کمپنی کے علاوہ تمام الزامات پر حتمی فیصلہ کرنے کی بجائے انہیں احتساب عدالت کو بھجوا دیا گیا جبکہ صرف بیٹے کی کمپنی سے قابل وصول تنخواہ ظاہر نہ کرنے کے جرم میں وزیر اعظم کو منصب سے ہٹا دیا گیا کیوں کہ عدالت عظمی سمجھتی ہے کہ عدم وصولی کے باوجود قابل وصول تنخواہ ایک اثاثہ ہے جسے کاغذات نامذدگی میں ظاہر کرنا ضروری تھا ۔ عابد منٹو ہوں یا ایس ایم ظفر، عاصمہ جہانگیر ہوں یا جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین ،بیشتر آئینی ماہرین فیصلے کی اس دلیل کو کمزور قرار دے رہے ہیں۔ مالیاتی امور کے ماہرین بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی مالی مفاد نہیں لیا گیا تو اس کو ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 ءمیں اثاثوں کی تعریف کا ذکر نہیں ہے اس لئے اثاثوں کی تعریف کیلئے مختلف لغات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اثاثے کی جو تعریف معزز عدالت نے وضع کی ہے وہ بلیک لاء ڈکشنری سے مستعار لی گئی ہے لیکن اس کی تشریح پر بھی آئینی ماہرین متفق نہیں ہیں۔ سیاسی میدان میں ایک طرف مقدمہ دائر کرنے والوں کی طرف سے فیصلے کو تاریخی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے اظہار تشکر کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف نواز شریف اور مسلم لیگ ن نہ صرف مطمئن بلکہ فخر کر رہی ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے اہلخانہ کے خلاف نو ماہ سے جاری مقدمے میں کسی قسم کی بد عنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔ حکمراں جماعت کو آج بھی یقین کامل ہے کہ ڈیڑھ کروڑ ووٹوں سے منتخب ہونے والے ان کے جمہوری وزیر اعظم کو ایک منظم سازش کے تحت ایک بار پھر عہدے سے ہٹایا گیا ہے، نواز شریف کو تیسری بار بھی کچھ ’’کردہ ‘‘گناہوں کی سزا دی گئی ہے تاہم وہ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے خاموش ہو جاتے ہیں کہ کیا وہ عدالت عظمی پر بھی کسی سازش میں شریک ہونے کا شک کر رہے ہیں۔ مقدمے کی سماعت اور جے آئی ٹی کی تفتیش کے دوران پتلی تماشے کا ذکر کرنے اور وقت آنے پہ سب کچھ بتانے کا دعویٰ کرنے والے نواز شریف وزارت عظمیٰ گنوانے کے بعد بھی صرف یہی شکوہ کر رہے ہیں کہ ایٹمی دھماکہ کرنے والے ایک منتخب وزیر اعظم کے ساتھ یہ توہین آمیز سلوک نہیں کیا جا نا چاہئے تھا۔ ستر سال سے جاری کھیل اب بند ہو جانا چاہئے۔ان کے عزائم سے عیاں ہو رہا ہے کہ وہ اب ملک میں حقیقی حق حکمرانی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ نواز شریف ملک کے خوش قسمت ہونے کے ساتھ وہ واحد بدقسمت شخص ہیں کہ جنہیں عوام نے تین بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پرفائز کیا لیکن وہ ایک باربھی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے۔ یہاں مجھے وزیر اعظم کے عہدے کیلئے نامزد ہونے والے لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی کی معصوم سی خواہش یاد آگئی جس کا اظہار انہوں نےاپنے ساتھیوں کے ہمراہ نیوز کانفرنس کے دوران ان الفاظ میں کیا تھا کہ سپریم کورٹ کو اتنی معمولی سی غلطی نظر انداز کرتے ہوئے درگزر سے کام لینا چاہئے تھا۔ ملک کی عدالتی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو نظریہ ضرورت کوئی عجوبہ نہیں ہے ۔
گورنر جنرل غلام محمد نے 1954ءمیں پہلی آئین ساز اسمبلی کوبرطرف کیا تو اسپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا جہاں انگریز چیف جج کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصلہ انکے حق میں سناتے ہوئے اسمبلی بحال کر دی لیکن غلام محمد اس کے خلاف فیڈرل کورٹ یعنی سپریم کورٹ چلے گئے جہاں جسٹس منیر کی سربراہی میں بنچ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کرجمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی بنیاد رکھ دی۔ ایوب خان کے مارشل لا کو بھی اسی نظریہ ضرورت کے تحت دوسوکیس میں نہ صرف جائز قرار دیا گیا تھا بلکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا تھا کہ ایک کامیاب فوجی انقلاب خود نئے راستوں اور قانونی نظام کا سرچشمہ بن جاتا ہے اس لئے یہ مارشل لاآئین کے منافی ہونے پر ناجائز نہیں۔ نظریہ ضرورت کا جادو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی توثیق کیلئے بھی نہ صرف سر چڑھ کر بولا بلکہ چیف جسٹس انوار الحق نے نصرت بھٹو کیس میں آئین کو محض کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار دینے والے کواسی آئین میں ترامیم کا اختیار بھی دیا۔ اسی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی بنچ نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کو قبولیت کی سند عطا کی اور ساتھ قرار دیا کہ ریاستی امور چلانے اور عوام کے مفاد میں اٹھائے گئے تمام اقدامات کی توثیق کی جاتی ہے۔ نظریہ ضرورت کی بدولت ہی پرویز مشرف کی طرف سے رفیق تارڑ کی جگہ خود عہدہ صدارت سنبھالنے کے اقدام کو بھی حق پہ مبنی قرار دیا گیا، ایل ایف او کی توثیق بھی اسی نظریے پہ عمل کرتے ہوئے کی گئی۔ سپریم کورٹ نے ہی پرویز مشرف کے ایمرجنسی اور پی سی او کے نفاذ کو تحفظ فراہم کیا جبکہ ڈوگر عدالت نے مشرف کے دوسری بار صدر منتخب ہونے کو بھی جائز ہونے کی سند عطا کی۔
اس تاریخ کو سامنے رکھیں تو یہ خواہش ضرور مچلتی ہے کہ آمروں کے غیر آئینی اقدامات کے لئے اگر ہر بار نظریہ ضرورت کا سہارا لیا گیا تھاتو ایک بار جمہوری وزیر اعظم کیلئے بھی نظریہ ضرورت کا سہارا لے لیا جاتا ۔ آمریت کو گیارہ سال تک دوام بخشا تھا تو صرف گیارہ ماہ جمہوریت کی بقا کیلئے عطا کر دیئے جاتےتاکہ ترقی کا جو سفر شروع ہوا تھا اس کا تسلسل قائم رہ سکتا۔اس سویلین وزیراعظم کو بھی نظریہ ضرورت کی سہولت فراہم کر دی جاتی جسکے چار سالوں میں ملکی ترقی کی شرح پانچ اعشاریہ تین فیصد تک پہنچ گئی،ترقیاتی بجٹ 2.56ٹریلین تک وسیع ہوا، پہلی بار افراط زر کی شرح چار فیصد تک محدود ہوئی،اسٹاک مارکیٹ پچاس ہزار کا ہندسہ عبور کر گئی،سی پیک کی مد میں پچاس ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری ممکن ہوئی،اعلی تعلیم کے بجٹ میں 130 فیصد کا اضافہ ہوا،ہونہار طلباء کولیپ ٹاپ ملے، دس ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار ممکن ہوئی،صنعتوں کولوڈ شیڈنگ سے استثنی ملا،گھریلو لوڈ شیڈنگ کو چار سے چھ گھنٹے تک قابو میں لایا گیا،گیس کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوا،زرمبادلہ کے ذخائر میں سو فیصد اضافہ ممکن ہوا،دہشت گردی پر قابوپایا گیا،کسانوں کو اربوں روپے کا مراعاتی پیکج دیا گیا،خطیر رقم کے ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے،عوام کو میٹرو بس کی سہولت ملی،ریلوے جیسے خسارے کے شکار ادارے منافع بخش اثاثہ بنے،مفت علاج کی سہولت میسر آئی،کراچی کو اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے ملے،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ وسیع ہوا، پی ایس ایل جیسے کامیاب شو سے کھیلوں کی بحالی ہوئی،مردم شماری کا انعقاد ممکن ہوا۔ پاکستان آئندہ بیس سالوں میں جی ٹونٹی ممالک کی صف میں شامل ہونے کے خواب دیکھنے لگا۔ کیاعوام کے منتخب ایسے وزیر اعظم کیلئے نظریہ ضرورت کا سہارا نہیں لیا جا سکتا تھا جس کی قیادت میں یہ سب ممکن ہوا، یہ بھی تو ممکن تھا کہ اس بارایک جمہوری وزیر اعظم کیلئے نظریہ ضرورت آڑے آ جاتا۔

تازہ ترین