• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کا ہنگامہ تو ختم ہوا اس کے نتیجے میں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ چھوڑنا پڑی اور کابینہ بھی گئی۔بہرحال چند ہفتوں کے لئے ملکی نظام چلانے کے لئے خاقان عباسی کو نگراں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ نواز شریف کے جانے سے ملکی سیاست بین الاقوامی صورتحال اور سی پیک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
سیاسی تجزیہ نگار آج کل ٹی وی چینل پر زور دار اور دھواں دار تبصرے اور بات چیت کر رہے ہیںکچھ تکےچل بھی گئے اور کچھ رہ بھی گئے۔
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
مٹھائی مافیا نے حسب روایت مٹھائیاں بانٹیں بھی اور کھائیں بھی ہمارے ہاںایک ایسا طبقہ ہے جو ہر جانے والے اور ہر آنے والے پرمٹھائی تقسیم ضرور کرتا ہے اور پھر فوٹو سیشن بھی کراتا ہے۔
ملک کا نیا وزیر اعظم پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کو لایا جا رہا ہے جو یقیناً ایک اچھا فیصلہ ہے اور شہباز شریف ملکی سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کریں گے بلکہ وہ آئین اور قوانین میں کئی ترامیم اور ضابطے بھی بنائیں گے جو کہ آئندہ کی ملکی سیاست میں سنگ میل ثابت ہوں گے۔ شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے سے ملک کے تمام صوبوں کو یقیناً کافی فائدہ ہو گا مگر دوسری طرف پنجاب ایک مسیحا سے محروم ہو جائے گا وہ مسیحا جو صوبہ پنجاب میںصحت، تعلیم اور خصوصاً خواتین سے زیادتی کے کیسوں میں ذاتی دلچسپی لے کر مظلوم لوگوں کی مدد کرتا تھا اس سے مظلوم لوگ یقیناً محروم ہو جائیں گے۔
کیونکہ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی مصروفیت یقیناً بہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔ ان کو اپنا جانشین پنجاب میں کسی ایسے شخص کو بنانا چاہئے جس میں اس طرح کام کرنے کا جذبہ ہو۔ کیونکہ ہمارے ملک میں آج بھی بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق سماجی رویوں فرسودہ روایات اور بغیر بنیاد کے نظام سے ہے۔مثلاً ملتان کے علاقے مظفر آباد میں جس فرسودہ پنچایتی نظام کے ذریعے زیادتی کا جو شرمناک واقعہ ہوا ہے یہ ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک کلنک کا ٹیکہ ہے۔کس طرح ایک لڑکی سے زیادتی ہوئی ہے پھر بدلے میں دوسری لڑکی کے ساتھ بھی یہ ہی ظلم کیا گیا۔پنچایت کا سرپنچ ملزم کی رشتہ دار کی 16سالہ یتیم بچی کے ساتھ زیادتی کا حکم دیتا ہے اور پھر اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے کس قدر شرمناک واقعہ ہے اس واقعے نے تو پتھر کے دور کے زمانے کی یاد دلا دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پورے ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں ہیں تو پھر پنچایتی نظام کی کیاضرورت اور اہمیت ؟ ایک طرف ہمارے ملک میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ادارے موجود ہیں خصوصاً ملتان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک سرکاری ادارہ بھی موجود ہے تو دوسری طرف پنچایت کے ذریعے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اگر تھوڑی دیر کے لئے ہم یہ مان لیں کہ پنچایت برصغیر میں ایک مدت سے چلنے والا مقامی نظام ہے جب برصغیر میں یہ نظام آیا تھا تو پنچایت میں بڑے بوڑھے اور بزرگ ہوتے تھے جن کی علاقے میں عزت ہوتی تھی اور وہ مالی طور پر بھی بہتر ہوتے تھے ٹھیک ہے کہ گاندھی نےاس سسٹم کو بہت سپورٹ کیا تھا مگر ہمارے ہاںپنچایت صرف مخصوص لوگ اپنے مفادات کے لئے بناتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس نظام کے ذریعے لوگوں کو انصاف ملتا ،مگر یہاں توپنچایت خود ظلم وستم کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔ پھر پنچایت کے سرپنچ کی کیا قانونی حیثیت؟ کیا قانون اور پاکستان کے آئین میں مقامی سطح پر ایسا نظام تشکیل دینے کی بات کی گئی ہے ؟ کیا سرپنچ کو کوئی حکومتی ادارہ یا مقامی پولیس مقرر کرتی ہے ؟ جب ایسی بات نہیں تو پھر حکومت اور خصوصاً پولیس کو چاہئے کہ وہ اس نظام کے خلاف سخت ایکشن لے اس فرسودہ نظام کے ذریعے پورے ملک میں خواتین کی عزت کو تار تار کرنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں کیونکہ اس غیر قانونی نظام کو آج بھی مختلف علاقوں اور برادریوں کی طرف سے تحفظ حاصل ہے اور پولیس کا بھی اس نظام کے خلاف کوئی موثر کردار کبھی سامنے نہیں آیا۔ دوسری طرف علما کرام کی جانب سے بھی اس فرسودہ اور غیر قانونی نظام کے خلاف بھرپور آواز نہیں اٹھائی گئی حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ علاقے جو بہت پسماندہ اور جہالت کا شکار ہیں وہاں علاقے کے امام مسجد جمعہ کے خطبات میں لوگوں کو شعور دینے میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں پھر کس قدر افسوسناک صورتحال ہے کہ ہر سیاسی پارٹی دوران الیکشن اور ویسے بھی اکثر سیاسی جلسے جلوس کرتی رہتی ہے ان سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں اور ورکرز نے کبھی اس اہم مسئلے پر آواز نہیںاٹھائی؟ کیا صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی پر کبھی اس پر بحث ہوئی ؟ صرف حالیہ واقعہ کے خلاف سندھ اسمبلی نے قرارداد پاس کی ہے۔
سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ پنجایتی نظام کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے پھر بھی آج پاکستان کے تقریباً تمام علاقوں میں یہ نظام کسی نہ کی صورت میں موجود ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر پولیس خود یہ ذمہ داری سنبھال لے تو اس روایتی پنجایتی نظام کی ضرورت نہیں رہتی۔
ہمیں یاد ہے کہ آج سے چند ماہ قبل ہم سی سی پی او کیپٹن امین وینس اور ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف کے آفس میں بیٹھے تھے تو ان دونوں صاحبان نے ہمارے سامنے چند بڑے سیریس جھگڑوں کو بغیر مقدمہ درج کئے صرف گفت و شنید کے ذریعے حل کردیا۔ دونوں پارٹیوں نے راضی نامہ کرلیا۔ اگرچہ بحث ومباحثہ کافی ہوا کئی مرتبہ تلخی بھی بڑھی مگر مسئلہ حل ہوگیا۔ اگر عدالتیں اور وکلا برادری بھی اپنا موثر رول ادا کرےتو یہ روایتی پنجایت سے لوگوں کی جان چھوٹ سکتی ہے۔ پنجاب کمیشن آف دی ا سٹیٹس آف ویمن کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف جنوری 2017سے جون 2017ء تک صوبہ پنجاب میں خواتین پر تشدد کے 3ہزار 410 سے زائد کیسزرپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 1450 کے واقعات صرف زیادتی کے ہیں۔ یہ رپورٹ 30جولائی 2017ء تک کی ہے۔
ملتان کے واقعہ پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیا اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو جب اس واقعہ کا میڈیا کے ذریعے پتہ چلا تو وہ فوراً ملتان پہنچے اور زیادتی کا شکار ہونے والی دونوں لڑکیوں کو دلاسہ دیا۔ وزیر اعلیٰ نے سی پی او ملتان کو او ایس ڈی بنادیا اور ڈی ایس پی اور پورا تھانہ معطل کردیا۔ شہباز شریف کا یہ اقدام بڑا بروقت اور اچھا تھا مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شہباز شریف وزیر اعظم بن جائیں گے تو پھر ان واقعات کا شکار مظلوم خواتین کے ساتھ ہمدردی اور فوری اقدامات کون کرے گا؟ایک بات تو طے شد ہ ہے کہ شہباز شریف نے صحت تعلیم اور خواتین کے حقوق کے لئے پنجاب میں بہت کام کیا ہے کیا ان کے بعد پنجاب میں ایسا کوئی فرد ہے جس کا اتنا وژن ہوگا؟۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ پنجاب کمیشن آف دی اسٹیٹس آف ویمن کومزیدفعال بنانے کے لئے اس کو مزید فنڈز دیئے جائیں اور جس طرح ملتان میں اس کمیشن کےتحت داد رسی سینٹر ہے اس طرح کے کئی مزید سینٹرز حکومت کو ان علاقوں میں لازمی قائم کرنے چاہئیں جہاں پر خواتین پر تشدد اور زیادتی کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان واقعات میں پنجاب پہلے نمبر پر، دوسرے نمبر پر سندھ، تیسرے نمبر پر کے پی کے، چوتھے نمبر پر بلوچستان اور پانچویں اور چھٹے نمبر پر آزاد کشمیر، گلگت بلتستان وغیرہ ہیں۔
سندھ اسمبلی یہ کمیشن بنانے کا بل پاس کر چکی ہے۔ مگر تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس کی کیا وجوہات ہیں اس پر بات کی جائے۔ دوسرے ہوسکتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں ایسے واقعات بہت بڑی تعداد میں ہو رہے ہیں بلکہ صوبہ سندھ اور بلوچستان تو ونی، کاروکاری اور دیگر فرسودہ رسومات اور روایات میں خاص شہرت رکھتے ہیں۔ مگر وہاں ان واقعات کو رپورٹ نہ کیا جا رہا ہو۔ کے پی کے میں یہ کمیشن بن چکا ہے۔

تازہ ترین