• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 تقریباً سال بھر سے پانامہ لیکس کا معاملہ چل رہا تھا اور طرح طرح کی بولیاں بولی جا رہی تھیں قیاس کے گھوڑے دوڑائے جا رہے تھے حزب اقتدار اپنی بولی بول رہے تھے اور حزب اختلاف اپنی ہر کوئی ہوا میں تیر چلا رہا تھا ایسے دعوے ایسی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں جن کا حقیقت سے دور کا واسطہ نہیں تھا گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ نے پانامہ لیکس کے حوالے سے چلنے والے مقدمے کا فیصلہ سنا کر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا اب مار پچھے پکار شروع کی جاچکی ہے میاں صاحب کے مخالفین جشن منا رہے ہیں مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں اور میاں صاحب کے حمایتی اور ساتھی حیران و پریشان ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ بات جس کا ذکر سارے فسانے میں نہیں اسے ہی بنیاد بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عدالت عظمیٰ نے بڑی باریک بینی سے سارے معاملے کو دیکھا اور سمجھا ہے کہنے والے جو جس کے منہ میں آرہا ہے کہہ رہا ہے حالانکہ عدالت نے باقاعدہ تحقیق و تفتیش کے بعد فیصلہ دیا ہے جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے پر اس کے تمام اہم اور غیر اہم نکات کو اور تمام تر قانونی اور آئینی نکات کو مد نظر رکھ کر ہی فیصلہ صادر کیا گیا ہے میاں صاحب کے حمایتیوں کے مطابق جس شخص نے اپنے کروڑوں کے اثاثہ جات ظاہر کئے کیا وہ دس ہزار درہم کی معمولی رقم کو ظاہر نہیں کرسکتا تھاچونکہ وہ دس ہزار درہم وصول ہی نہیں کئے گئے اس لئے ان کو ظاہر بھی نہیں کیا گیا بظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات نظر آرہی ہے اور وہ لوگ جو وزیر اعظم کے نا اہل ہونے پر جشن منا رہے ہیں انہیں سوچنا سمجھنا چاہئے کہ انہوں نے جس جس بنیاد پر عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا اور میاں نواز شریف کو نا اہل کرانے کے لئے جو الزامات عائد کئے تھے ان تینوں درخواستوں کا کہیں اور دور تک ذکر نہیں آیا عدالت نے جے آئی ٹی کی تحقیقات میں جو نکتہ سامنے آیا اسے بنیاد بنا کر فیصلہ صادر کیا ہے بظاہر بہت معمولی نظر آنے والے معاملے نے اتنی اہمیت اختیار کی کہ اس نے میاں صاحب کی حکومت کا تختہ ہی الٹ دیا ایسے تمام مقدمات جو اسی نوعیت کے ہیں جو میاں صاحب یا ان کے ساتھیوں کی طرف سے اپنے مخالفین کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر دائرے کئے ہوئے ہیں جن کے بارے میں جناب عمران خان اور ان کے ساتھی بڑے ہی پر اعتماد نظر آرہے ہیں کہ ہم نے تو کچھ نہیں چھپایا سب کچھ سب کے سامنے ہے عدالت عظمیٰ نے جس باریک بینی سے میاں صاحب کو نا اہل قرار دیا ہے، جس کے لئے عدالت نے تینوں فریقین کی دائر کردہ درخواستوں سے ہٹ کر ایک معمولی سی غلطی کی نشاندہی کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا ہے ہوسکتا ہے عمران خان اور ان کے ساتھیوں سے بھی ایسی کوئی بظاہر معمولی بات جسے وہ بالکل غیر اہم سمجھ رہے ہوں گلے کا پھندا بن جائے یہ فیصلہ دراصل بڑا اہم فیصلہ ہے اس سے تمام ارکان پارلیمنٹ کے سر پر تلوار لٹک گئی ہے موجودہ پارلیمنٹ میں کتنے ارکان ہوں گے جو امین و صادق کے معیار پر پورا اتر سکیں گے میاں صاحب کے خلاف آنے والے فیصلے نے ان کے مخالفین کو شاد کام تو کردیا انہوں نے مٹھائیاں کھالی اور کھلائی بھی اور بھنگڑے ڈالے ہیں فوری رد عمل کا جس طرح وہ اظہار کر سکتے تھے کیا ہے جب وہ فرصت سے بیٹھ کر اس فیصلے پر غور و فکر کریں گے تو ہوسکتا ہے ان کی راتوں کی نیند اڑ جائے کیونکہ یہ اہم فیصلہ جس نے ایک بظاہر مضبوط و مستحکم حکومت کو چلتا کردیا ہے ایسی غلطیاں تو ہر کسی سے ہونا ممکن ہیں اور ایسے افراد جن کے مقدمات عدالت عظمیٰ میں پہلے ہی زیر سماعت ہیں اور معاملہ وہی یعنی پانامہ لیکس یا آف شور کمپنیوں کا قصہ آج اگر کچھ لوگ جشن منا رہے ہیں تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کل ان کے مخالفین جشن منا رہے ہوں کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ بڑے بڑے اور اہم معاملات کو اہمیت دی جاتی ہے ان کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو کبھی کبھی دانستہ نظر انداز کردیا جاتا ہے اور ان کی نشاندہی نہیں کی جاتی لیکن دوران سماعت بہت سے نکات از خود سامنے آتے چلے جاتے ہیں یا مخالف اپنی بات میں وزن پیدا کرنے اور اپنی شکایت کو درست ثابت کرنے کے لئے بال کی کھال نکال لاتا ہے اور اپنے حریف کے چودہ طبق روشن کردیتا ہے۔
عدالت نے تینوں پٹیشن کوقطعی نظر انداز نہیں کیا بلکہ آئین اور قانون کے مطابق متعلقہ شعبے کو منتقل کردیا ہے کیونکہ کرپشن اور بد عنوانی کے معاملات کے لئے نیب با اختیار ادارہ ہے اور بد عنوانی کے معاملات کے فیصلے کے لئے احتساب عدالتیں موجود ہیں چاہے وہ تحریک انصاف کی پٹیشن ہو یا شیخ رشید کی یا جماعت اسلامی کی تینوں کا فیصلہ نیب اور احتساب عدالت کرے گی کیونکہ وہی اس کے لئے درست ادارے ہیں عدالت عظمی نے نیب اور احتساب عدالت کے لئے وقت کی پابندی کے ساتھ ان کی سہولت کے لئے جے آئی ٹی رپورٹ سے استفادہ کرنے کا حکم بھی صادر کردیا ہے تاکہ نیب کو تحقیق و تفتیش کرنے میں دقت نہ ہو اور کارروائی مقرر کردہ مدت میں مکمل ہوسکے عدالت عظمیٰ نے وطن عزیز کے مختلف اداروں کی کارکردگی کے بارے میں مختلف جماعتوں کی بد اعتمادی اور یہ کہ کوئی ادارہ حکمرانوں کے خلاف کیسے کارروائی کرسکتا ہے کے اعتراض کو سامنے رکھتے ہوئے نیب اور احتساب عدالت کی کارروائی کی نگرانی کے لئے عدالت عظمیٰ کے ایک جج کو نگرانی کے لئے مقرر کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے اس پر کئی قانونی ماہرین کو اعتراض ہوا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے جج کی نگرانی اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ نیب یا احتساب عدالت آزادانہ طور پر کام کرسکے یا کوئی فیصلہ کرسکے اگر عدالت عظمیٰ ایسا حکم نہ دیتی تب بھی اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے وہ ادارے جو بڑی حد تک پہلے ہی بدنام ہیں ان پر انگلیاں اٹھتیں کہ یہ ادارے شفاف طریقے پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے اس لئے ان تمام افواہوں اطلاعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی غالباً عدالت عظمیٰ نے ان کی نگرانی کا فیصلہ کیا ہوگا عدالت کے فیصلے نے میاں صاحب کو نہ گھر کا چھوڑا نہ گھاٹ کا اگر وہ بر وقت اپنے خیرخواہوں کی بات پر کان دھر لیتے اور مستعفی ہوجاتے اور اپنا جانشین مقرر کردیتے تو یوں رسوا نہ ہونا پڑتا۔
خود عمران خان اور شیخ رشید جو دونوں مدعی بھی ہیں انہوں نے اپنے اپنے بیانات میں اس بات کا بھی بر ملا اظہار کیا ہے کہ میاں نواز شریف نے عمران خان کا منہ بند کرانے کے لئے انہیں کسی مشترکہ دوست کے ذریعے دس ارب دینے کی آفر کی حیرت کی بات ہے جو شخص اپنے مخالف کا منہ بند کرانے کے لئے دس ارب اور درمیانی شخص کو جو اس ڈیل کو کرانے والا ہے اسے بھی دو ارب دینے کو تیار ہے کتنی حیرت کا مقام ہے کہ وہ صرف دس ہزار درہم جس کی مالیت جو آج کے حساب سے تقریباً پونے تین لاکھ بنتی ہے چھپانے پر نا اہل ہوگا ایسے ہی جناب شیخ رشید نے الزام لگایا اور پانچوں جج صاحبان کو راولپنڈی والوں کی طرف سے سلام پیش کیا کہ انہوں نے میاں صاحب کی اربوں کی پیش کش کو ٹھکرا دیا کیا یہ ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیںجو بڑے بڑے دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ ایک ایسا شخص جو دس بیس ارب روپے اپنے مخالفین کا منہ بند رکھنے کے لئے خرچ کرسکتا ہے وہ صرف دس ہزار درہم یعنی صرف تین یا پونے تین لاکھ کی رقم جو اس نے لی بھی نہیں اس کی اطلاع نہ کرنے پر نا اہل ہو کر اپنی مضبوط مستحکم حکومت و اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ تو پھر باقی تیس مار خانوں کا کیا حال ہونے والا ہے اللہ ہی جانتا ہے یقیناً عدالت عظمیٰ نے ایک ایسا زبردست فیصلہ صادر کیا جسے برسوں یاد رکھا جائے گا۔ اللہ ہمارے سیاست دانوں کو عقل سلیم عطا کرے اور عدلیہ کو یوں ہی حوصلہ دے کہ وہ ملک میں انصاف کی حکمرانی رائج کرسکے۔

تازہ ترین