• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طاقتور کو بقا ہے۔ وطنی اُفق سُرخ اور سیاہ ہو چکا، گھٹائیں تُل چکیں، طوفان کی آمد کا پیش خیمہ سمجھیں۔ سپریم کورٹ نے چند دن پہلے جیسے ہی وزیراعظم کی نا اہلی کا فیصلہ دیا، ’’ملک میں گویا آندھی آئی‘‘ تین معزز جج صاحبان کا وجہ فیصلہ۔ ’’ایک ایسی قابلِ وصول تنخواہ جو ناوصول رہی جبکہ ایسی کمپنی چند سال پہلے بند ہو گئی۔‘‘ عالمی میڈیا اور اندرون ملک سینئر قانونی ماہرین، سابق جج اور میڈیا کے لئے بصد احترام فیصلہ ورطہ حیرت کا باعث بنا۔ فیصلے کا دلچسپ پہلو، تنخواہ وصولی کی تشریح قانون کی کتابوں اور انکم ٹیکس کے مروجہ قوانین کی بجائے انگریزی لغت سہارا بنی۔ اس سے قبل دو معزز ججوں نے ماریو پوزو کے ناول ’’گاڈ فادر‘‘ کو فیصلہ کی بنیاد بنایا۔ وجہ پر گنجلک پُرمغز بحثیں طول پکڑ چکی ہیں۔ ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر بحث و تمحیص جاری ہے۔ چونکہ بڑے بڑے جج، قانون دان، نکتہ رسی، دقیقہ شناسی میں ہر پہلو زیر بحث لا رہے ہیں۔ سول سوسائٹی، تجزیہ نگار بھی احتیاط کا دامن پکڑے دامے درمے سخنے حصہ ڈال رہے ہیں۔ عقل کو بمطابق ’’فیصلہ‘‘ آمادہ کرنے کی سعی جاری ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بحث کی حدود وقیود ہیں۔ ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہی لب کشائی، قلم آزمائی کرنی پڑے گی۔ تاریخ بے رحم ہے، پابندی کی روادار نہیں، بے باک اور آزاد ہے۔ مولوی تمیز الدین کیس سے لیکر نصرت بھٹو، ظفر علی شاہ کیس تک بے رحمی اور بے تکلفی سے چیر پھاڑ کرنے کی متحمل ہے۔
درست! سپریم کورٹ کا فیصلہ بیسیوں سال یاد رکھا جائے گا۔ دوررس نتائج مرتب ہوچکے، بھگتنے ہوں گے۔ فیصلہ ’’جو صورتحال پہلے تھی (Status Quo Ante)، کو پچھاڑ چکا‘‘۔ سیاسی عدم استحکام کی جان میں جان آ چکی ہے۔ معاشی بحران فوری منطقی نتیجہ، عالمی اقتصادی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے تفکرات دیدنی ہیں، اقتصادی بحالی کو درہم برہم دیکھا جا رہا ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کو برا شگون قرار دیا ہے۔ آنے والے دنوں بحران بتایا ہے۔ اقتصادی مشکلات کا اشارہ بھی دیا ہے۔ یہی کچھ دشمنان وطن کا ایجنڈا بھی۔ ہچکولے کھاتی سیاست کا لڑکھڑانا بنتا ہے۔ کیا وطنی سیاست سینہ سپر ہو کر اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی؟ طاقت کے ساتھ واپس آئے گی؟ اس کا انحصار نواز شریف کی حکمت عملی اور لائحہ عمل سے جڑ چکا ہے۔ کیا زخم خوردہ نواز شریف بڑی تاریخی سیاست کے لئے تیار ہیں؟ نئی تاریخ رقم کر پائیں گے۔ آنے والے چند دن سب کچھ عیاں کر جائیں گے۔ جناب نواز شریف کی خوش قسمتی کہ سیاست بڑی ہو گئی۔ چند ماہ پہلے، وطنی سیاست ون مین شو نظر آ رہی تھی، اپوزیشن جماعتیں کمتر دِکھتی تھیں۔ جو کام عمران خان اور قادری ملین مارچ سے نہ کر سکے، نادیدہ قوتوں کی برملا، ڈھکی چھپی مداخلت سر انجام نہ دے پائی، امپائر کی وزنی انگلی نہ اُٹھ پائی۔ ایسے موقع پر مہروں، کٹھ پتلیوں کو مبارک باد نہ دینا، کم ظرفی ہو گی۔ مبارک ہو، مبارک ہو، 1953کا پرانا پاکستان مل گیا ہے۔ 1953 وزیراعظم خواجہ نظام الدین کے شکار کا نقطہ آغاز ایسا بابرکت کہ نواز شریف کے شکار تک پہنچ کر ’’بس‘‘ نظر نہیں آرہا۔ دہائیوں پہلے شاید CARPENTERگروپ کا گانا، "YESTERDAY ONCE MORE"، کئی دہائیوں پہلے گایاگیا۔ اس وقت گاڈ فادر فلم نہیں بنی تھی۔ ماریو پوزو نے شاید ناول بھی نہ لکھا ہو۔ خواہ مخواہ ذہن پر سوال ہے کیا گزرا ’’کل‘‘ آج پھر ہماری تلاش میں ہے؟ خواجہ ناظم الدین کو سمری ٹرائل پر نااہل قرار دے دیا گیا تو نواز شریف کس باغ کی مولی؟ سینئر قانونی ماہرین، سینئر اور ریٹائرڈ جج صاحبان سر جوڑ کر بیٹھے، درجنوں قانونی گتھیاں سلجھائیں، سینکڑوں دفعہ نکتہ رسی کریں، زیر بحث موضوع ناوصولی تنخواہوں والے اثاثہ پر سزا ملنا، منطق ڈھونڈنا مشکل رہے گا۔ تو یہی شبہ و شک کا فائدہ ملزم کو ملنا ہے۔
کرکٹ میںBENEFIT OF DOUBTبلے باز کو نا کہ بولر کو ملتا ہے۔ ایک ورلڈ کپ سیمی فائنل میں ٹنڈولکر کو شک و شبہ کا فائدہ ملا تو پاکستان میچ ہار گیا شاید وہی غصہ قومی ہو چکا ہو۔ ’’وصول نہ کرنے والی تنخواہ‘‘ پر وزیراعظم پاکستان کی نااہلی کا اچھنبا چبھتا رہے گا۔ پچھلے کالموں میں کئی دفعہ وارننگ دی کہ معاملہ اتنا گمبھیر اور الجھ چکا کہ اس کا حل نکالنا ناممکن رہے گا، وہی ہوا۔ سوشل میڈیا ہمیشہ سے دو دھاری تلوار ہی تھا، آج اصلی تیز دھار والی سائیڈ عزتیں پامال کر رہی ہے۔ کسی کی بھی ماں، بہن، بیٹی، باپ کو برہنہ دیکھنا ہو، اپنی پسند کی سائٹ کھول لیں۔ فیصلے پر جس بے رحمی سے بحثیں ہو رہی ہیں، اداروں کی تضحیک جاری ہے، کہاں جاکر رکے گی؟ نامعلوم۔
مخدوم جاوید ہاشمی کی معرکۃ الآرا پریس کانفرنس میں ادا کئے چند فقرے بڑے بڑوں کی اوس امیدوں پر پانی پھیر گئے۔ اگلے دن سارے مقدس ادارے صفائیاں پیش کرتے نظر آئے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس نے پانسہ الٹا یا پلٹا۔ وزیراعظم کو الٹنے پلٹنے والوں کے ارادے مصمم اور اٹل نکلے۔ 3سال بعد بالآخر شوٹ کر ہی لیا۔
اس کالم کو پیشگی انتباہ، توجہ دلائو نوٹس۔ کچھ بھی سمجھیں۔ ’’اے اہل وطن جاگو! سسٹم کو لپیٹنے الٹ پلٹ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے‘‘۔ کرائے کے سیاستدان ٹشو پیپرز کی طرح صرف استعمال ہوئے۔ نادیدہ قوتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ’’پارلیمانی نظام سودمند نہیں، پاکستان کے سیکورٹی خطرات پیراڈائم (PARADIGM)سے لگا نہیں کھاتا۔ سیاستدان اپنے اجزائے ترکیبی اور ڈی این اے کے لحاظ سے کرپٹ ہیں، پارلیمانی نظام کو یرغمال بنا رکھاہے چنانچہ صدارتی سسٹم تریاق (PANACEA) ہے‘‘۔ نواز شریف کی سیاست نے طے کرنا ہے کہ صدارتی نظام طوفان میل کو کیسے روکنا ہے؟ وگرنہ معاملہ ٹھپ سمجھیں۔ اضافی نوٹ اتنا کہ PCOبہار کے ہمرکاب رہنا ہے۔ وطن عزیز کے مہربانوں، قدر دانوں، پاسبانوں کی توقعات تمام اداروں سے بہت بڑھ چکی ہیں۔ چند لوگ،’’امید سے ہیں‘‘ کہ عدالتیں اور دیگر ادارے حالات نزاکت سمجھتے ہوئے ان سے تعاون جاری رکھیں گی۔ ماضی میں جب بھی عوامی سسٹم کی ’’ناپاکی‘‘ کو ’’خاکی طہارت‘‘ کرائی گئی، عدالتیں بزم خویش، نکاح خواں رہیں۔ نااہلیوں کا معاملہ چل پڑا ہے، بات نے دور تلک جانا ہے، سب نے لپیٹ میں آنا ہے۔ یہ تو تھی تاریکی، اب دیکھیں تاریخی، ’’پاکستان نور ہے، نور کو زوال نہیں‘‘، صاحبِ بصیرت صوفی،دانشور واصف علی واصف یہاں نہیں رکے، مزید فرماتے ہیں ’’بہترین وقت آکے رہے گا، جس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے، اسی طرح وقت بدلنے کا بھی ایک موسم ہے‘‘۔ کیسے مان لوں کہ 27رمضان المبارک، اگلا دن جمعۃ الوداع، لیلۃ المبارکہ کو وجود پانے والی مملکت تحفہ خداوندی، تاریخ انسانی کا سب سے بڑا معجزہ، اللہ کے نور کا پرتو، کیونکر زوال آئے گا؟ کیسے بکھر سکتا ہے؟ اللہ پر ایمان کامل، لالچی، سازشی خاک چھانیں گے، منہ کی کھائیں گے۔ یہ صحیح ہے کہ مخصوص میڈیا مخصوص لواحقین کی برین واشنگ کر چکا ہے۔ کالم کا حاصل کلام صرف اور صرف توجہ دلائو نوٹس، جاگتے رہنا، ایسوں کیلئے جو شعور رکھتے ہیں جبکہ جمہوریت پر شب خون کا موسم آیا چاہتا ہے۔
اہم سوال، جواب کا متلاشی، نظام کو آڑے ہاتھوں لینے والے، عوامی رائے کو خاطر میں نہ لانے والوں کو یہ کب معلوم ہوگا کہ ایک آنے والا کل ہے۔ جو ہمیشہ ان کے لئے بھیانک رہا، عبرتناک انجام دے گیا۔ بدقسمتی سے ریاست پاکستان کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے NA-120کا الیکشن فوری سیاسی بحالی بلکہ نئی طاقت دے جائے گا۔ الیکشن کا نتیجہ، 2018کے الیکشن نتائج کا پیشگی اعلامیہ جانا جائے گا۔ بفرض محال جناب نواز شریف اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ لاہور کا رُخ کریں گے۔ گارنٹی دیتا ہوں لاہور امڈ باہر، شاہدرہ استقبال کے لئے موجود ہوگا۔ ایسی تحریک، آئین پاکستان سے کھلواڑ کرنے والوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بھی۔

تازہ ترین