• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’چوہدری نثار اور عمران خان کی ملاقات اتفاقیہ طور پر ہوئی۔‘‘ بچےجمہورے نے کہا ’’عمران خان کے جلسے سے اسلحہ سمیت پکڑے جانے والوں کا تعلق نون لیگ سے نہیں تھا‘‘۔ بچے جمہورے نے پھر کہا ’’بیک وقت وزیراعظم آزاد کشمیر اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان دونوں کی زبان کیسے لڑکھڑا گئی تھی۔ اس کا کسی کے پاس جواب نہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف آٹھ اگست کو اپنی عوامی رابطہ مہم شروع کریں گے اور اُسی روز شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری لاہور ایئر پورٹ پر اتریں گے۔ جمہوریت زندہ باد۔ تاریخ کے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے ایم این اے انتخاب لڑیں گے۔‘‘ بچے جمہورے کی زبان پر جمہوریت کی عظمت کے غلغلے پھیلتے چلے گئے۔
اچانک مجمع سےایک شخص بول پڑا ’’دیکھ جمہوریت کے خلاف عمران خان کی ڈگڈگی مت بچا۔ بڑی مشکلوں سے ہاتھ آئی ہوئی کو ریفرنس کی بندوقوں سے مت مار۔ قلم کی نوک مشین گنوں کی لبلبی سے باندھ کے مت رکھ۔ دیکھ بچے جمہورے اِس ’’عوام زادی‘‘ کے لئے نجانے کتنے ہیرو قربان ہو چکے ہیں۔ نواز شریف کی قربانی کوئی کم قربانی ہے۔ یہ منتر مت پڑھ۔ ایسی بری بری باتیں اتنے اچھے اچھے لوگوں کے بارے میں۔ اپنے چہرے پر سیاہی مت لگا۔ اپنے رخساروں پر کالک مت تھوپ۔ ان کے لباس تو دیکھ، اکڑے ہوئے۔ اجلے اجلے۔ لٹھے کے تھان، ان کی اجلی اجلی گاڑیاں دیکھ۔ جیسے ابھی انہی کے ساتھ کسی جھیل سے نہا کر نکلی ہوں۔ لمبی لمبی چمکتی ہوئی برانڈڈ گاڑیاں۔ کیا یہ تجھے بدصورت لگتی ہیں۔ دیکھ انہیں مت برا کہہ۔ یہ لوگ تو بھینس کے تازہ دودھ کی پیداوار ہیں۔‘‘ بچہ جمہورا چیخ کر بولا ’’ہاں ملاوٹ زدہ جعلی دودھ سے پلے ہوئے لوگ جمہوریت کے نمائندے نہیں ہو سکتے۔ بچے جمہورے ضرور ہوسکتے ہیں۔ بچے جمہورے۔‘‘
وہ آدمی دو قدم آگے بڑھا اور بچے جمہورے کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا ’’عام لوگوں کا کام نہیں ہوتا حکومت کرنا۔ ووٹ دینے کا حق سب کے پاس ہوتا ہے مگر ووٹ لینے کا حق کسی کسی کے پاس۔ خاص خاص لوگوں کے پاس۔ جمہوریت کے نمائندے خاص لوگ ہوتے ہیں۔ برانڈڈ پرفیومز میں نہائے ہوئے خاص لوگ۔ ان کے لئے تو پینے کا پانی فرانس سے آتا ہے۔ روشنی جیسا پانی۔ کپڑے ہالینڈ سے سلتے ہیں۔ جوتے برطانیہ سے آتے ہیں۔ یہی سونے اور چاندی کے لوگ حکمران ہوتے ہیں۔ ہاں شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ کوئی تھرڈ کلاس کا گیا گزرا غربت زدہ شخص اگر اتفاقاً حکمران بن گیا تو دنیا کیا کہے گی۔‘‘
بچہ جمہورا بولا ’’ہاں، ہاں وہی لوگ جن کے بنک اکائونٹ پانامہ میں ہوتے ہیں۔ جو اقامے لیتے ہیں سوئٹزلینڈ کے بنکوں میں اپنا مال چھپانے کے لئے۔ جو اربوں کی منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ جو پارک لین پر فلیٹ خریدتے ہیں۔ جو سرے میں محل بناتے ہیں۔ جو طرح طرح کی آف شور کمپنیوں کو جنم دیتے ہیں‘‘
اُس شخص کے ماتھے پرشکنیں پھیل گئیں اور ذرا سا تلخ ہو کر بولا ’’اوے بچے جمہورے۔ اوے بے عقلے۔ تیری عقل پر ہارس ٹریڈنگ والے گھوڑے ماتم کریں۔ جو کبھی پرویز مشرف کے اصطبل میں ہوتے تھے۔ میں ایچیسن کالج میں پڑھنے والوں کی بات کر رہا ہوں۔ یہ تُو نے کیا۔ اقامہ، پانامہ۔ اقامہ، پانامہ۔ اقامہ، پانامہ۔ لگا رکھا ہے۔ دنیا کا نقشہ تو دیکھ۔ ذرا سا ملک یہ پانامہ۔ اور اقامہ دبئی میں کاروبار کرنے والے کس ایک پاکستانی کے پاس نہیں۔ سب کے پاس ہے۔
جس عظیم لیڈر کو تم لوگوں نے نااہل قرار دیا ہے۔ او پیدائشی اندھے! کیا نہیں دیا اِس نے جمہوریت کو۔ یہ جمہوریت جوتجھے بانجھ عورت جیسی لگتی ہے؟ یہ لاہور سے اسلام آباد اتنی لمبی موٹر وے کس نے دی ہے۔ تُو ساتھ لے آیا تھا چیچو کی ملیاں سے شہر آتے ہوئے۔ کیا یہ جنگلہ بس سروس چکلالہ روٹ سے نکلی ہوئی ہے۔ یہ میٹرو، یہ سی پیک جمہوریت کے خزانے۔ یہ سب نواز شریف کی عطا ہے۔ ہمارے عہد کے شیر شاہ سوری ہیں وہ‘‘
بچہ جمہورا تنک کر بولا۔ ’’ہا ں ہاں یہ سارا پیسہ شریف فیملی اپنے ساتھ جاتی امرا سے لائی تھی۔ وہاں ان کے دادا کے پودینے کے باغ ہوا کرتے تھے۔ جہاں ڈان لیکس کے اونچے اونچے درخت لگے ہوئے تھے‘‘
وہ شخص غصہ میں بولا ’’اوے کالے کلوٹے۔ قسمت کے کھوٹے! تُو باز کیوں نہیں آتا۔ پھر غیر جمہوری باتیں۔ پھر ڈان لیکس۔ اوے جہاں سے لیک ہوا تھا وہیں اسے جوڑ دیا گیا ہے۔ اب کچھ بھی لیک نہیں ہے‘‘ بچے جمہورے نے قہقہہ لگا یا اور کہا ’’گاڈ فادر زندہ باد۔ گاڈ فادر زندہ باد۔ گاڈ فادر زندہ باد۔‘‘
اُس آدمی نے اپنے غصے پر کنٹرول کرتے ہوئے کہا ’’جس دن میں نے فلم ’’گاڈ فادر‘‘ دیکھی تھی تُو اُس دن ’’مولا جٹ‘‘ دیکھ رہا ہو گا۔ انجمن کا رقص دیکھا ہو گا۔ مولاجٹ اور نوری نت کی بڑھکیں سنی ہوں گی۔ تجھے کیا پتا گاڈ فادر کیا ہوتا ہے۔ رہنے دے بچے جمہورے۔ سفید دن کو، گورے چٹے دن کو کالی سیاہ رات مت کہہ۔
بچہ جمہورا نےادھر ادھر دیکھ کر کہا ’’ہاں ابھی یہیں دہکتا ہوا سورج تھا۔ کہاں چلا گیا۔ دیکھ ذرا تیرے پیچھے تو نہیں چھپ گیا۔ ابھی ڈان لیکس کی روشنی سے دنیا کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔ ابھی پاکستانی قوم کے پانامہ لیکس کی دوپہروں نے جسم جھلسا دئیے تھے۔ اربوں کھربوں کی کرپشن کے اجالے چاروں طرف پھیل گئےتھے۔
اُس نے پھر بڑے ٹھنڈے لہجے میں کہا ’’اوے بچے جمہورے تجھے کیا پتا۔ جمہوریت کیا ہوتی ہے۔ جمہوریت کا حسن کیا ہوتا ہے۔ جا اور جا کر ٹھنڈے یخ سکنجبین کے دو گلاس لے آ۔ گرمی بہت ہے۔‘‘ بچہ جمہورا بولا ’’ہاں ہاں جمہوریت کی پشت پر کچھ گرمی دانے نکل آئے ہیں۔ چمک کے ٹالکم پائوڈر سے کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا۔‘‘ وہ آدمی بولا۔ ’’پھر بکواس۔ نواز شریف ایک سچے اور دیانت دار شخص ہیں صادق اور امین ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ خطروں سے کھیلنا ان کا مشغلہ ہے۔ وہ ڈھونڈھ ڈھانڈ کر بم کو لات مارتے ہیں اور پھر دھماکے کی آواز پر خوش ہوتے ہیں۔ بچہ جمہورا بولا ’’بچوں کی طرح۔ اور نون لیگ کو شین بنا کر تماشا دیکھتے ہیں۔ دیکھ خدا کی شان کہ نواز لیگ، شہباز لیگ بن گئی ہے۔

تازہ ترین