• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیلی پولیس وفوج کی طرف سے گزشتہ جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ میں پیش آنے والے ایک خونی واقعہ کے بعد قبلہ اول کو نمازیوں کے لئے بند کردیا گیا جس کے بعد سے دنیا بھر میں اور خاص طور پر اسلامی ممالک میں مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے مسجد اقصیٰ کی بندش کے خلاف ہزاروں فلسطینی سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے قبلہ اول کے باہر جمع ہو کر شدید احتجاج کیا۔ اسرائیلی سیکورٹی فورسز کی طرف سے نہتے مظاہرین پر وحشیانہ تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔بتایا گیا ہے کہ صیہونی فوج نے فلسطینی شہریوں پر لاٹھی چارج کیا، آنسوگیس کی شیلنگ کی، صوتی بموں سے حملے اور دھاتی گولیوں کے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کی۔ فلسطینیوں نے اسرائیلی فوج کے وحشیانہ تشدد کے باوجود مسجد اقصیٰ کے باہر برقی دروازوں کی تنصیب کے خلاف دھرنا جاری رکھا۔ فلسطینیوں کے سخت رد عمل پر مسجد اقصیٰ کے 2 دروازوں کو 16 جولائی کو کھولا گیا لیکن دروازوں پر الیکٹرانک میٹل ڈٹیکٹر نصب کئے جا چکے تھے تاہم بعد میں تمام دروازوں سے ڈٹیکٹر ہٹادئیے گئے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیر داخلہ گیلا دایردان نے مسجد اقصی بند کرنے کے بارے میں کہا ہے کہ اس کا کنٹرول ہمارے ہاتھ میں ہے اور اسے کھولنے یا بند کرنے کا فیصلہ بھی ہمیں کرنا ہے لہٰذا کوئی دوسری ریاست ا س بارے میں کیا کہتی ہے ہمیں پروا نہیں۔ اسرائیل کے اس رویے کے خلاف سب سے پہلے ترکی نے اپنا شدید ردِ عمل ظاہر کیا اور مسجد کو فوری طور پر عبادت کے لئے کھولنے کا مطالبہ کیا۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے استنبول میں منعقد ہونے والے القدس فائونڈیشن فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے جاری قتلِ عام پر سب کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ علاقے میں امن کے لئے ضروری ہے کہ ایک آزاد فلسطینی مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی صورت القدس کی فضاؤں کو اذان کی آواز سے محروم نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے اس موقع پر بڑی تعداد میں مسلمانوں سے القدس کی زیارت کرنے کی بھی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’القدس عشقِ حقیقی ہے، ہم اس کی حسرت میں جل رہے ہیں، یہ انسانیت کی آنکھوں کا نور ہے، القدس ہماری امت کا قبلہ اول ہے، یہ پیغمبروں کا شہر ہے۔‘‘ انہوں نے اس موقع پرایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایک روز حضرت مومنہ نے حضرت محمد ﷺ سے مسجدِ اقصیٰ کے بارے میں پوچھا جس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’جائو اور وہاں پر نماز ادا کرو‘‘ اس پر حضرت مومنہ نے کہا کہ اگر کسی کے پاس مسجدِ اقصیٰ جانے کی سکت نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ’’پھر اس مسجد کو منور کرنے والی قندیلوں کے لئے تیل ہی روانہ کردو‘‘ اس حدیث مبارکہ سے القدس اور مسجدِ اقصیٰ کی اہمیت اجاگر ہوجاتی ہے۔ ترک صدر ایردوان نے کہا کہ القدس کے بارے میں حضرت محمد ﷺ کا پیغام اس قدر واضح اور صاف ہے۔ اسی لئےالقدس پر قبضہ کیے جانے اور صلیبی جنگوں کے دوران مسلمان خاموش نہ بیٹھے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں لڑتے ہوئے اسے آزاد کروانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’القدس میں حرم الشریف تمام عالمِ اسلام کے وقار، عزت و ناموس اور مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے القدس میں جاری کشیدگی کو فوری طور پر ختم کروانے کے بارے میں کہا کہ وہ ترکی ہونے کے ناتےاس مسئلے کو حل کروانے تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ انہوں نے اسرائیل سے بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بحران کو طول دینے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا اور اسلامی ممالک کو اسرائیل کے رویے کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے فوری طور پر ان پابندیوں کو ختم کرنے کیلئے حرکت میں آنے کی اپیل کی۔ ترکی کے مختلف شہروں میں مسجدِ اقصیٰ کوکھولنے کے لئے گزشتہ کئی ہفتوں سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور شاید اس سلسلے میں سب سے زیادہ مظاہرے ترکی ہی میں کیے گئے ہیں۔
اب ذرا مسجدِ اقصیٰ کی اہمیت پر بھی ایک نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مساجد کی جانب سفر کرنا باعثِ برکت ہے جن میں مسجدِ حرام، مسجدِ اقصیٰ اورمسجد نبوی شامل ہیں۔ بیت المقدس یا القدس فلسطین کے عین وسط میں واقع ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک انتہائی مقدس ہے یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجدِ اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ بیت المقدس سے مراد مبارک گھر یا ایسا گھر جس کے ذریعےگناہوں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ بیت المقدس یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سليمان علیہ السلام (961ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لئے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ یہی شہر حضرت عیسٰی کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلی قبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔ 620ء میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئےاور پھر معراج آسمانی کے لئے تشریف لے گئے۔
2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔ 1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نےسولہ جنگوں کے بعد بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین کوعربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی القدس اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لئےاسے ’’دیوار گریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بھی بنا رکھا ہے۔ مسجدِ اقصیٰ القدس کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔

تازہ ترین