• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر کی تقسیم کے موقع پر ہونے والی ہجرت انسانی تاریخ کی بڑی ہجرتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی تقسیم تھی جس کے دوران لاکھوں انسانوں کا خون بہایا گیا۔ انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جب مسلم اکثریتی علاقوں کو ملا کر پاکستان جبکہ بقیہ علاقوں کو ہندوستان میں شامل کرنے کا فیصلہ سنایا تو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم پریشانی کے عالم میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے پاس تشریف لائے اور ان سے کہنے لگے کہ سر ریڈکلف مسلمانوں سے زیادتی کر رہا ہے اور وائسرائے کے کہنے پر تقسیم کے عمل میں بددیانتی کر رہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے جذباتی ہونے کے بجائے ریڈکلف سے بات کی مگر ریڈکلف کا متعصبانہ رویہ بدلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اسی طرح ایک دن تحریک پاکستان کے اہم رہنما بابائے قوم کے پاس آئے اور ان کے ہاتھ میں کچھ خطوط تھے۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح سے کہا کہ یہ خطوط نہرو اور مسز لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے درمیان معاشقے کے ہیں۔ اگر ان خطوط کو ہندوستان کے تمام اخبارات میں شائع کرا دیا جائے تو وائسرائے دباؤ میں آجائے گا اور تقسیم میں ہونے والی زیادتی رک جائے گی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے وہ خطوط لئے اور سائیڈ پر رکھ کر کہنے لگے کہ سیاست میں ذاتی کردار کشی نہیں کرنی چاہئے، مگر انسان کا کردار بہتے سمندر میں خون کے قطرے کی مانند واضح اور شفاف ہونا چاہئے، بیشک ایک پتلی لکیر ہی کیوں نہ ہو۔ قائداعظم محمد علی جناح کے ذاتی کردار کا یہ عالم تھا کہ ناقدین آپ کے سامنے کھڑے ہونے سے گھبراتے تھے۔ قائداعظم کا کردار ہی تھا کہ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران خواتین کی بڑی تعداد آگے آگے ہوتی تھی مگر کسی کو جرأت نہیں تھی کہ کسی عورت کو بری نگاہ سے دیکھ سکے۔کیونکہ دنیا بھر کا طے شدہ اصول ہے کہ پارٹی رہنما اور کارکنان ہمیشہ لیڈر کے مروجہ اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔انگریز اسٹیبلشمنٹ نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح بابائے قوم کا کوئی اسکینڈل یا کردار کے حوالے سے کوئی خبر سامنے لے آئیں۔مگر قائداعظم محمد علی جناح کے مضبوط کردار نے ان کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔
آج پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے رہنما پر سنگین الزام لگایا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے تحریک انصاف کی کسی خاتون کی عزت محفوظ نہیں ہے۔یہ ایک ایسی بات ہے کہ اس کوسننے کے بعد زمین سوچتی ہوگی کہ میں اپنے جذبات کا اظہار پھٹ کرکروں اور آسماں سوچتا ہوگا کہ میں نیچے آگروں۔کوئی تیسرا فریق عمران خان نیازی پر الزام لگاتا تو شاید اس کی کوئی خاص اہمیت نہ ہوتی مگر ہم مشرقی لوگ ہیں۔ہماری مضبوط اخلاقی روایات اور اقدار ہیں۔ جس خاتون نے ان کے کردار پر روشنی ڈالی ہے وہ ایک پختون ہے۔پختوں بہنوں اور بھائیوں کی غیرت سے ہر پاکستانی واقف ہے۔ہمارے معاشرے میں کبھی بھی کوئی عورت اپنے آپ کو اتنے بڑے الزام میں شامل نہیں کرتی۔اگر عائشہ گلالئی نے براہ راست عمران خان پر ایک سنگین الزام لگایا ہے تو اس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ جب آپ خود کو ایک جماعت کا سربراہ اور لیڈر کہتے ہیں اور وزیراعظم بننے کے خواہش مند بھی ہیں تو پھر آپ کروڑوں بچیوں، ماؤں اور بہنوں کے عزت کے محافظ ہوتے ہیں۔اگر قوم کے محافظ سے ہی خطرہ لاحق ہو جائے تو پھر قدرت کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے۔آج آپ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے،لیکن جب آپ ملک کے حکمراں ہونگے تو آپ کسی کو بھی کوئی بھی حکم نامہ صادر کرسکتے ہیں۔عائشہ گلالئی نے جو باتیں کی ہیں،وہ بہت خوفناک ہیں۔اسی قسم کی باتوں کی تصدیق جاوید ہاشمی صاحب نے بھی کی ہے اور اگر ان سب کو نکال بھی دیا جائے تو صرف اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ سنگین الزامات صرف ان پر ہی کیوں لگتے ہیں۔جب کچھ ہوتا ہے تو بات کی جاتی ہے۔سوئے ہوئے بچے کا منہ کبھی کوئی نہیں چومتا۔تالی بجتی ہے تو آواز آتی ہے۔ لیڈر جیسے منصب پر فائز ہونے کے لئے اپنے نفس پر قابو پانا پڑتا ہے۔لیکن جب لیڈر خود ایسے معیار مقررکریں گے تو پھر پارٹی کے دیگر افراد کا کیا ہوگا۔اللہ سے ہمیشہ دعا ہوتی ہے کہ انسان خطاؤں کا پتلا ہے،بڑی بڑی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔مگر رب تمام عیبوں پر پردے ڈالے رکھے۔عین ممکن ہے کہ کسی اور انسان میں بھی کردار کی یہ کمزوریاں ہوں لیکن اگر قدرت نے عمران خان کے عیب سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے تو پھر ایسا شخص قوم کا لیڈر نہیں بن سکتا۔عائشہ گلالئی کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ نوازشریف مضبوط کردار کا حامل خاندانی شخص ہے۔نوازشریف پر ہر قسم کا الزام لگایا جاسکتا ہے مگر کردار پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔جب لیڈرکا ایسا کردار ہوتا ہے تو قوم اپنی بچیوں کی عزت کو محفوظ سمجھتی ہے۔عادتیں کردار کا پتہ دیتی ہیں،ورنہ ماتھے پر کسی کے کچھ لکھا نہیں ہوتا۔
آج عمران خان کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے الزامات انہی پر کیوں لگتے ہیں۔اگر بار بار ان کے کردار پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو انہیں اپنا احتساب خود بھی کرنا چاہئے۔عقلمند انسان کسی الزام یا غلطی کو مورد الزام دوسروں کو نہیں ٹھہراتا بلکہ اس پر یہ غور کرتا ہے کہ میرا قصور کہاں پر ہے۔ جس طرح کے الزامات ان پر لگائے جا رہے ہیں تو یہ ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔لیڈر بننے کا خواب دیکھنا تو بہت آسان ہے مگر اس کے لئے نفس پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔آج آپ کو جواب دینا چاہئے کہ ایک ہی طرح کے الزامات آپ پر ہی بار بار کیوں لگتے ہیں۔ کیونکہ یہ قوم بہت بے رحم ہےیہ مالی کرپشن تو شاید درگزر کردے مگر اخلاقی کرپشن کو کسی صورت برداشت نہیں کرسکتی اور بدقسمتی سے آپ پر تو مالی اور اخلاقی دونوں طرح کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں۔آج آپ کو ان کا جواب دینا ہوگا۔
جھوٹ بولا ہے تو اس پر قائم بھی رہو ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے

تازہ ترین