• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان لوگوں کی عقلوں پر ماتم کرنا چاہئے جو کہتے ہیں کہ ’’ہم نے سوچا تھا ہیروں کی بوریاں نکلیں گی لیکن اندر سے اقامہ نکلا‘‘ کوئی انہیں سمجھائے، جہالت کے سرچشمو! کھرب پتیوں کےاقامے دراصل ہیروں کی بوریاں بلکہ ہیروں کی کانیں ہی ہوتی ہیں۔ غریب آدمی دو وقت کی روٹی کمانے جبکہ دونوں ہاتھوں سے ملکی دولت لوٹنے والے یہ دولت چھپانے کےلئے اقامے لیتے ہیں لیکن کیا کریں کہ متلوں اور مودیوں کےمتروں اور محبوبوں کو سمجھانے کے باوجود یہ بات سمجھ نہیں آئے گی اور آئے گی بھی تو ابوجہل کی طرح مانیں گے نہیں کیونکہ اگر گاڈ فادرز جاتے ہیں تو ان کے مختلف بینی فشریز اور طفیلئے بھی قصہ ٔ پارینہ ہو جائیں گے جو کسی طرح بھی ان کے وارے میں نہیں۔ یہ مافیا چیفس کے لئے نہیں، اپنے ذاتی سروائیول کے لئے چیخ رہےہیں لیکن میخ در میخ ان کی غلیظ کھوپڑیوں میں ٹھکتی چلی جائے گی۔ ان میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے کیونکہ انہیں اپنا ’’اجتماعی تابوت‘‘ تیار ہوتا دکھائی دے رہا ہے..... اس تاریخی تابوت میں آخری کیل ٹھکنے اور گہرا دفن ہونے تک عوام کو ان کی چیخوں کو برداشت کرنا ہوگا۔ میرا ذاتی ردعمل بہت دلچسپ اور مختلف ہے۔ مجھے ان کی چیخیں بہت ’’سریلی‘‘لگتی ہیں۔ میں نے ہمیشہ میوزک کو انجوائے کیا ہے۔ عورتوں میں ام کلثوم، مادام گوگوش، نورجہاں، روشن آرا بیگم، زبیدہ خانم، رونا لیلیٰ، لتامنگیشکر، آشا، گیتا دت، شمشاد بیگم وغیرہ آج بھی میری کمزوریاں ہیں۔ مردوں میں کے۔ ایل سہگل، مکیش، رفیع صاحب، منا ڈے، ہیمنت کمار، سلیم رضا، منیر حسین، احمد رشدی، مہدی حسن، طلعت محمود، ایس۔ بی جان، شرافت علی، نصرت فتح وغیرہ کی آوازیں میرے لئے تھراپی سے کم نہیں، اسی طرح کچھ انگریزی سنگرز..... بہت سے نام میں اختصار کی وجہ سے نہیں لکھ رہا..... ان تمام عظیم گائیکوں کی سریلی، مدھر آوازیں ایک طرف ..... ان کی چیخیں دوسری طرف اور میرے نزدیک یہ ’’چیخیں‘‘ دنیاکے تمام ترگائیکوں کے تمام تر سریلے پن پر بھاری ہیں۔ سو میری اپنے قارئین سے اپیل ہے کہ ان کی چیخوں کو انجوائے کرناسیکھیں۔ ان پیشہ ور چیخوں کی چیخیں اس ملک کے محروم مظلوم عوام کے لئے اتنی سریلی ہیں کہ تان سین، بیجو باورا اور باز بہادر بھی صدقے واری جارہے ہوں گے۔کیسے کیسے چمگادڑ اور چمگادڑیں دور دور کی کوڑیاں لا رہےہیں تو بوقت ضرورت ایک آدھ دانہ چکھائوں گاکہ کیسے برادر عزیز توفیق بٹ نے کئی سال پہلے ڈیوس روڈ کی سائیڈ لین میں گھر خریدا۔ توفیق بٹ صاحب کے بزرگوں نے وہاں محفل میلاد رکھی کہ حب الوطنی، اسلام پسندی کاایک چیئرمین چیمپئن وہاں کسی کو لے کر پہنچ گیا۔ بٹ صاحب نے معذرت کرلی۔ وہ دن جائے آج کا آئے توفیق بٹ سے بگڑے ہوئے ہیں اور وہ بھی صرف بٹ ہی نہیں، جٹ بھی ہے۔ ضرورت پڑی تو ماڈل ٹائون اے بلاک کی مسجد تک بھی جانا ہوگا جہاں میری بے شمار دوستیاں ہیں۔کیسا کیسا بے غیرت اور بکائو ’’دھاڑ‘‘ رہا ہے۔ لوگو! کیا واقعی ہم نہیں جانتے کہ کون کتنا بے غیرت ہے؟ ایک اور سجا سجایا غیرت مند شرعی لیڈر کہتا ہے ’’اسٹیبلشمنٹ پہلے کرپشن پر اُکساتی پھر پھنساتی ہے‘‘ تو دُرفٹے منہ، دُرفٹے منہ، دُرفٹے منہ ایسے سیاستدانوں اور جمہوریت کے علمبرداروں پر جو اتنی آسانی سے جال میں پھنس جاتےہیں۔یہ ہوتے ہی گندے، غلیظ، ناپاک، ایفوڈرین، کمیشن، کک بیک ورنہ کسی کادماغ خراب ہے کہ کروڑوں روپیہ خرچ کر کے اسمبلی میں پہنچ کر صرف ’’قانون سازی‘‘ کرے؟ کیا یہ سب کےسب ’’ایدھی‘‘ ہیں اور اگر ہیں تو اس ملک پر اس قدر غربت، جہالت، غلاظت، بے انصافی، لوٹ مار، بربادی، قرضوں کا دور دورہ کیوں ہے؟میراتو سیاسی ایمان تھا اور ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ، اس ملک کے لئے بوسہ ہائے مرگ اور ملامت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ عوام نے دونوں کو بار بار اقتدار دیا لیکن خود عوام کو ایک بار بھی ان کے ہاتھوں خیر نصیب نہیں ہوئی۔ ان دونوں نے آج تک صرف ایک سچ بولا اور وہ اس وقت جب ان دونوں نے ایک دوسرے کو سرعام کرپٹ قرار دیا لیکن اس بات کا کریڈٹ بہرحال پیپلزپارٹی کو جاتا ہے کہ یہ سیاستدانوں کی پارٹی ہے، پہلوانوں کی نہیں۔ انہوں نے پھانسیاں، قتل، کوڑے، جیلیں بھگتیں، ان کےبے شمارغریب ورکرز نے جلاوطنیاں کاٹیں، خاندان بربادکرائے لیکن ملک کے اساسی اداروں کے خلاف مہم جوئی کبھی نہیں کی جبکہ پہلا فیصلہ خلاف آتے ہی پہلوان میدان میں اتر آئے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہ لوگ افواج پاکستان اور عدلیہ کے خلاف منظم مہم کا آغاز کرچکے ہیں۔ ان کے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنخواہ دار وفادار ملک سے وفا کو بالائے طاق رکھ کر ایک خاندان کا حق نمک ادا کرتے ہوئے بھول رہے ہیں کہ عوام یہ سلسلہ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کریں گے۔ چند ہفتوں کے اندر اندر بہت کچھ باہر آجائے گا تو ان کے پاس آئیں بائیں شائیں کی گنجائش بھی باقی نہ رہے گی۔مخصوص قوتوں کےاٹوٹ اتحادی مولانا فضل الرحمٰن نے تو کمال ہی کردیا جب کہا ’’اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں سے کرپشن کراتی اور پھر پکڑ بھی لیتی ہے۔‘‘ صدقے جائوں اس ملّا دوپیازہ قسم کی مضحکہ خیز منطق کے کہ سیاستدان نہ ہوئے دودھ پیتے معصوم نادان بچے ہوگئے جنہیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچایا جاسکتا ہے اور ان للوئوں پھتوئوں سے کچھ بھی کرایا جاسکتا ہے حالانکہ کون نہیں جانتاکہ سیاستدان ہمارے معاشرہ کاسب سے جھوٹا، مکار، عیار، شاطر، خودغرض اور وفا و حیا فروش حصہ ہیں جو اصولاً سیاستدان ہیں ہی نہیں۔ یہ وہ مہم جو دیہاڑی باز ہیں جنہوں نے سیاست کے ماسک پہن کر اس لفظ سے ہی عوام کو متنفر کردیا ہے۔ تھانیدار اور پٹوار کے ذریعہ نوٹ بذریعہ ووٹ بٹورنے والی یہ وہ کلاس ہے جو الیکشن جیتنے کے بعد اپنے حلقوں کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتی۔ رول آف لا کے دشمن، میرٹ کی موت کے فرشتے، سیاست کو تجارت و صنعت سمجھنے والے..... بیشک مستثنیات موجود لیکن اکثریت کن کی ہے؟ پراپرٹی ڈیلروں اور کمیشن ایجنٹوں کی ورنہ ملک معراج خالد، نواب زادہ نصراللہ، معراج محمد خان، خورشید حسن میر، کوثر نیازی، ملک قاسم، ڈاکٹر مبشر حسن، مختار رانا، مصطفیٰ کھر، حنیف رامے، غلام حیدر وائیں، جماعت اسلامی کے اکابرین اور بہت سے دوسرے محترم قائدین ڈالروں میں ارب پتی کیوں نہ ہوئے؟ جینوئن سیاستدانوں میں سے کتنوں کی بیش قیمت جائیدادیں بیرون ملک ہیں؟ اسکندر مرزا، سہروردی جیسی نسلوں کی تو کلاس ہی اور تھی جبکہ ’’حاضر سروس قائدین‘‘ نے تواخلاقیات و اقتصادیات کے جنازے ہی نکال دیئے۔پاکستان نے آگے جانا ہے تو اس کلچر کہ ریوریس کرنا ہوگا اور اس کلچر کو ریورس کرنا ہے تو اس قبیلہ سے نجات حاصل کرنا ہوگی جس نے سیاست کا قبلہ ہی تبدیل کر رکھا ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو اصلی قومی ترانہ یہاں سے شروع ہوگا۔ ’’دُکھاں دی روٹی، سُولاں دا سالن، آہیں دا بالن بال نی‘‘نوٹ..... چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ چوہدری نثار علی خان جیسے باعزت آدمی کے ذاتی حلقہ میں جلسہ کے دوران عوام نے والہانہ انداز میں ’’گونوازگو‘‘ کے نعرے لگادیئے۔

تازہ ترین