• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے بعض قومی رویے خطرناک، قابل توجہ اور قابل اصلاح ہیں مگر اصلاح کون کرے؟اصلاح معاشرتی، اصلاحی تحریکیں، تعلیمی ادارے اور لیڈر شپ کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ تمام ادارے گمراہ ہو چکے ہیں۔مولوی کا وعظ بے اثر اور عصر حاضر کے تقاضوں سے یکسر تہی دامن ہوتا ہے جبکہ ممتاز علماء سیاست کی دلدل میں پھنس کر اپنے الفاظ کی تاثیر بھی کھو چکے ہیں اور معاشرتی قیادت کا کردار بھی فراموش کر چکے ہیں۔ کبھی علماء کے گھرانے علم وادب، فقہ، حدیث، تفسیر کے خزانے اور روشن مینار ہوتے تھے آج سیاست کی حرص نے انہیں جہالت کدےبنارکھا ہے۔تاریخ پڑھتا ہوں تو معاشرے میں ذہنی و فکری اصلاح اور ذہن سازی کی بے لوث تحریکوں کا احوال ملتا ہے۔ ہمارے ملک میں قیام پاکستان کے بعد چند برسوں کے لئے جماعت اسلامی نے یہ بیڑہ اٹھا یا تھا یہ عظیم خدمت اپنے ذمہ لی تھی اور دس بارہ برسوں میں نوجوانوں کی ایسی نظریاتی کھیپ تیار کر دی تھی جو ذہنی، قلبی اور عملی طور پر مسلمان تھی اور جن کی اکثریت نہ صرف پاک دامنی کی عملی مثال تھی بلکہ خدمت کے جذبے سے بھی سرشار تھی۔ پھر جماعت سیاست کی راہ پر چل کھڑی ہوئی۔ شروع شروع میں طلبہ نے سیاست سے یا تو دامن آلودہ نہ کیا یا پھر صرف اصولی سیاست کی جو دہشت گردی اور ڈنڈہ گردی سے پاک تھی آہستہ آہستہ سب دیواریں ٹوٹ گئیں، اخلاقیات صرف خوشنما نعرہ بن کر رہ گیا اور لڑا ئی مارکٹائی ہر روز کا معمول بن گیا۔ ہماری معصوم نگاہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ جیسی شرفاء کی جماعت کو قبضہ گروپ میں بدلتے اور ڈھلتے دیکھا۔ یہ ایک سانحہ تھا جو برپا ہوا اور جس پر لکھنے کو بہت جی چاہتا ہے کیونکہ میں نے سرکاری ملازمت کے دوران بے شمار ایماندار اور ’’جذبہ دار ‘‘ نوجوان دیکھے، ان سے ہر طرح پالا پڑا اور کریدا تو پتہ چلا ان کی اکثریت کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سےتھا جس نے ان کی ذہنی تربیت ایمانداری،رزق حلال، فرائض کی سرانجام دہی اور خدمت کے خطوط پر کی تھی۔ اب وہ فصل خزاں رسیدہ ہو چکی ماں کی گود کبھی اخلاقی و ذہنی تربیت کا گہوارہ ہوتی تھی۔ موجودہ نظام زندگی اور مائوں کی ان فرائض سے چشم پوشی کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اسکول اور تعلیمی ادارے درسگاہوں کی بجائے ٹیوشن سنٹر اور تجارتی مراکز بن چکے ہیں۔ استاد طلبہ کی ذہنی تربیت اور اصلاح کی بجائے پیسے کمانے کی مشین بن چکا ہے اور خود استاد کا دامن ہر قسم کی اخلاقی قدروں، علم کی تشنگی اور تربیت کی خواہش سے خالی ہو چکا ہے۔ یہ ہے وہ معاشرتی منظر نامہ جو ہماری نگاہوں کے سامنے ایک خوفناک حقیقت بن کر موجود ہے اور جس کی سزا ہم اور ہماری آئندہ نسلیں بھگتیں گی۔بات دور نکل گئی آج ہرگز پاکستانی معاشرے کے اخلاقی بحران پر لکھنے کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ اس موضوع پر لکھنے کے لئے ان معاشروں کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے جن میں نظم وضبط، قانون کی پابندی، انسانی خدمت، رواداری اور اعلیٰ تعلیمی معیار موجود ہے اور کیوں ہے؟ ان کی قیادت اہل، رائے دہندگان ذہنی و سیاسی حوالے سے پختہ اور قومی ادارے اتنے مضبوط اور EFFICIENTہیں کہ بڑے سے بڑا جھٹکا برداشت کر جاتے ہیں۔ فی الحال اتنا ہی کافی ہے!!
یہ تو سبھی مانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں انصاف نصیب والوں اور خوش قسمت حضرات کو ہی ملتا ہے اور اکثر اتنی تاخیر سے ملتا ہے کہ بے معنی ہو چکا ہوتا ہے۔ انصاف کے قحط نے قوم کی نگاہیں سپریم کورٹ پر لگا دی ہیں۔ انصاف کا ہر طلب گار سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کی اپیل کرتا ہے لیکن افسوس کہ ہم انصاف کے اس اعلیٰ ترین اور واحد ادارے کو بھی اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔اور امید کی اس آخری شمع کو بھی بجھانے کے لئے پھونکیں مار رہے ہیں۔ انصاف کا تقدس اور اعتماد سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔جب انصاف کا ادارہ اپنا تقدس، اعتبار اور وقار کھو دے اور اس پر طرف داری اور ایک پلڑا بھاری رکھنے کا الزام چپکا دیا جائے تو وہ عوامی نظروں میں مشکوک ہو جاتا ہے اور اس کے تقدس اور انصاف میں دراڑیں راہ بنانی شروع کر دیتی ہیں۔ آج کل اسی طرح کی ایک مہم ہماری آنکھوں کے سامنے جاری و ساری ہے جو آزادی اظہار کا فائدہ اٹھا کر اپنا اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے۔
سیاسی گراوٹ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کی ڈاکٹر فردوس اعوان نے کشمالہ طارق کے حوالےسے وزیر دفاع خواجہ آصف پر الزام لگایا تو جواباً عائشہ گلالئی کو میدان میں اتار دیا گیا۔ تحریک پاکستان کے نازک دور میں ایک جذباتی کارکن وائس رائے مائونٹ بیٹن کی خوبرو بیگم ایڈوائنا کی نہرو سے عشقیہ خط و کتابت کی کاپیاں لیکر قائداعظم کے پاس پہنچے اور تجویز دی کہ اسے پریس کو ریلیز کر دیا جائے تاکہ برطانوی حکومت اور کانگریس قیادت دبائو میں آ جائے۔ قائد اعظم نے اسے سختی سے منع کیا، اخلاقی گراوٹ کی مہم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ذاتیات کو سیاست سے پاک رکھنے کی تلقین کی۔قائد اعظم پر اب تک کوئی دو سو سے زیادہ کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں اکثریت بین الاقوامی سطح کے تسلیم شدہ مورخین اور سوانح نگاروں کا کارنامہ ہیں۔ تمام غیر ملکی لکھاری قائداعظم کی عظمت کردار، امانت و دیانت، اصول پرستی اور سچائی کی نہ صرف شہادت دیتے ہیں بلکہ داد بھی دیتے ہیں اور پاکستانی قوم کو ایسی قیادت نصیب ہونے پر خوش قسمت بھی سمجھتے ہیں۔ قائد اعظم جیسا خوبرو، باوقار اور نامور انسان جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لاکھوں خواتین مشتاق ہوں لیکن اس کا دامن کردار ہر قسم کے دھبے سے پاک ہو یہ ایک کرامت نہیں تو او ر کیا ہے ؟ موجودہ بڑے قائدین میں سے ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جس کی دعوت عشق کی داستان کسی گورےصحافی نے اپنی کتاب میں شامل نہ کی ہو۔ قائد اعظم ایک سال گورنر جنرل رہے اپنی ذات پر سرکاری خزانے سے اس قدر کم خرچ کیا کہ خلفائے راشدین کے پیرو کار لگے۔ سفارش، رشوت، اقرباء پروری، شان و شوکت سے نفرت اور جمہوری اقدار سے وابستگی، سادگی اور قانون کی حکمرانی کی بے شمار ذاتی مثالیں قائم ہیں جنہیں آج کے قائدین پڑھ کر شرمائیں اور گھبرائیں۔ نظم وضبط کو ہر حال میں قائم رکھا اور اخلاقی قدروں پر نقصان کے خطرے کے باوجود آنچ نہ آنے دی۔ جب ایسے عظیم لیڈر کے بارے میں ہمارے نیم جاہل سیاست دان اپنے دامن کی آلودگی کو چھپانے کے لئے یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ آئین کی شقوں 63-62پر تو قائد اعظم بھی پورے نہیں اترتے تھے تو جی چاہتا ہے کہ ان کی زبان ...لوں۔ ناشکرو اور نیم جاہلو کیوں قوم کو اپنے رول ماڈلوں سے محروم کرکے کرپٹ سیاست دانوں کی جی حضوری کرتے ہو۔
درد دل اپنی راہ بناتا ہے ہر بار بات دور نکل جاتی ہے اور اصلی موضوع پیچھے رہ جاتا ہے۔ انصاف کے موجودہ قحط کے دور میں نہ عائشہ احد کو انصاف ملا نہ عائشہ گلا لئی کے الزامات کا اصل سامنے آئے گا۔ مجھے مظفر گڑھ کی غریب لیکن پڑھی لکھی بچی آمنہ یاد آتی ہے جسے بھائی کے ساتھ سفر کے دوران بااثر خاندانوں کے نوجوانوں نے اس کے بھائی کو درخت کے ساتھ باندھ کر بے آبرو کیا۔
غریب و بے سہارا کو انصاف نہ ملا تو اس نے خودسوزی کر لی۔ مظفر گڑھ کی سونیا کے ساتھ بھی یہی ہوا اس نے بھی تھانے کے سامنے خود سوزی کر لی۔ خادم اعلیٰ لاکھوں روپے قومی خزانے سے خرچ کرکے آمنہ کے گھر پہنچے۔ اس کی غریب ماں کی ہتھیلی پر پانچ لاکھ کا چیک رکھا اور تصویریں بنوا کر لوٹ آئے۔ بعدازاں بااثر لوگوں نے گن پوائنٹ پر گواہ بھی بٹھا دیئے، پرچے میں بھی نقائص شامل کروا دیئے اور والدین کو زندگی کے لالے پڑ گئے۔ انصاف روتا رہ گیا کسی مجرم کا بھی کچھ نہ بگڑا، پولیس کہتی ہے عدالتیں مجرم چھوڑ دیتی ہیں۔عدالتیں کہتی ہیں پولیس رپورٹ اور کارکردگی ناقص ہوتی ہے مظلوموں کے سروں پر ہاتھ رکھنے والے خادم اعلیٰ نے اب تک طویل دور حکمرانی میں اس نظام کی اصلاح کے لئے کیا کیا ہے؟کیا محض چیک تھما دینا اس مسئلے کا علاج ہے؟ نچلی عدالتوں سے مایوس ہو کر لوگ سپریم کورٹ کی طرف انصاف کے لئے دیکھتے ہیں بلاشبہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو جس طرح نااہل قرار دیا ہے وہ بظاہر کمزور لگتا ہے لیکن اس فیصلے کو ان تمام الزامات کی روشنی میں دیکھئے جو نیب کو برائےتفتیش بھجوائے جا چکے ہیں جن میں جعلی ڈاکومنٹس کا بھی ذکر ہے اور جنہیں میڈیا کئی ہفتے اچھال کر ہائپ پیدا کرتا رہا۔ حکومتی ادارے وفاداروں اور نمک خواروں سے بھرے پڑے ہیں اس لئے نگرانی کسی جج کے سپرد کرنا انصاف کے حصول کا تقاضا تھا اور تقاضا ہے۔ سپریم کورٹ کو انصاف دینے کے لئے ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو اپنی پسند کی بنیاد پر تنقید و تنقیص کا نشانہ بنانا امید کی آخری شمع کو بجھانا ہے۔ اس میں فوج کا ہاتھ ڈھونڈنا بدنیتی اور ہمارا مائنڈ سیٹ ہے ان رویوں کی اصلاح وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔

تازہ ترین