• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہ ِ رواں، ماہ ِ آزادی ہے۔ 7عشروں میں پاکستان دھچکے، دھکے کھاتا، گرتا اٹھتا، پھسلتا سنبھلتا، بار بار تنزلی میں جاتا پھر ترقی کرتا، 70واں یوم آزادی منانے کو ہے۔ ایسے میں قوم دو واضح سرگرم سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہے۔ ایک جانب ملک سےبے انتہا کرپشن کی بیخ کنی، دھماچوکڑی میں تبدیل ہوجانے والی گورننس متنازع و مشکوک انتخابات کے نتائج سے تشکیل پاتی۔ شاہانہ جمہوریت کے محافظ ہیں، دوسری جانب ’’آئین کے مکمل اور قانون کے یکساں نفاذ‘‘کے زوردار حامی، اسٹیٹس کو، کو اکھاڑ پھینکنے کےدرپے۔ یہ صورتحال گزشتہ سال اپریل میں پاناما پیپرز میں ان تلخ حقائق کی بے نقابی سے پیدا ہوئی جن تک رسائی ہمارے ریاستی نظام کے ذریعے ممکن تھی نہ حکمران خاندان کے سیاسی حریف ان تک پہنچ کرسکتے تھے۔ اب عدالتی فیصلے کے بعد ہر دومیں گھمسان کا رَن پڑا ہوا ہے۔ حق گوئی اور دروغ گوئی دونوں اپنی انتہا پر، باوجودیکہ شرمناک حقائق مکمل آشکارہیں۔ تاہم عشرہ 70کے آغاز پر عوامی طاقت پکڑنے والے دائیں اور بائیں بازو کے ملک گیر سیاسی دھڑے شکست و ریخت کاشکار ہیں۔ ویسے بھی ان کی نمود اورپرورش بھی ہوئی تو پاک سرزمین پر، لیکن بیج کھاد عالمی سرد جنگ کے کماندار فراہم کرتے رہے۔ شاخسانہ ہماری تاریخ اور سب کے سامنے ہے۔
نئی سیاسی تقسیم سچ اور جھوٹ کے حوالے سے ہے۔ جی ہاں، خواہ کتنی حیران کن ہے بالکل اسی حوالے سے ہے۔ قومی سیاسی منظر پر سیاسی شناخت کی دو علامتیں اتنی واضح ہوئی ہیں کہ اب چھپے نہ چھپیں۔ ایک طرف آئین و قانون کی بالادستی اور احتساب کی حامل جمہوریت کی منزل تک پہنچ کے لئے قانونی و سیاسی جدوجہد کارواں دواں قافلہ ہے، تو دوسری جانب جائز و ناجائز سرکاری نوازشات و مراعات سے لیس، عدالتی فیصلے سے مضروب اسٹیٹس کو کے روایتی حربوں اورحملوں کا ماہر بریگیڈ۔ سچ نے بالآخر پاناما کا پلّہ پکڑے اسٹیٹس کو، کو قانون کے شکنجے میں جکڑ دیا ہے، جب اس نے پوری قوم کو عشروں سے کرپشن اور تھانہ کچہری کلچر سے بے بس کیا ہوا ہے۔ اب کچھ صورت یوں ہے:
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا نہیں
سچ آئین قانون کے دائرے سے ہی اپنی بالادستی کے لئے نبردآزما ہے اور سود و سودا، مکر و فن بے حد و حساب سر چڑھ رہاہے۔ قومی اسمبلی میں انتقال اقتدارکا پہلا مرحلہ جیسے طے ہوا، یوں لگا پارلیمانی روایات دفن اور سابقہ حکومت کے ساتھ اس کے تقدس کا انتقال بھی ہو گیا۔ نئے وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی اپنی تقریر میں یہی تاثر دیتے رہے کہ ’’یہ انتقال اقتدار نہیں، جو کچھ ہے امر مجبوری ہے‘‘ حالانکہ انہیں معزول وزیراعظم جناب نواز شریف نے بقلم خود نامزدکیا تھا۔ یہ کتنا آئینی و قانونی تھااورکتنا نہیں، لیکن نئے وزیراعظم کی وفا تومسلمہ اور کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے ، لیکن وہ اور اب ان کے اراکین کابینہ ااپنے انداز ِ بیان سے نادم تاثر دے رہے ہیں کہ جناب خاقان عباسی اصلی وزیراعظم نہیں، یوں خودانہیں بھی نہیں یقین آرہا کہ وہ واقعی ویراعظم بن چکے ہیں حالانکہ اس کا حلف بھی اٹھا چکے۔ اب یہ یقین نہ کرنا اور بدستور اپنی وفا کو بھی سیمنٹ لگاتے رہنا، کیا آئین اور اٹھائے حلف سے وفا ہوگی؟ اس سوال کاوہ صحیح جواب جانتے ہیں ماشاء اللہ تعلیم یافتہ ہیں۔ خیر سے کتنی بار ایوان میں عوام کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کرچکے۔ جواب صحیح معلوم ہے تو پھر خود ی فیصلہ کریں کہ آئین و قانون کے مطابق انہوں نےبطو ر وزیراعظم کیسے چلنا ہے؟ سب سے پہلے وہ یقین کریں کہ اب وہ ہی وزیراعظم ہیں۔ اپنی وزیر اطلاعات کی اس غلط اطلاع پر کنفیوز نہ ہوں۔ جوگزشتہ رات اپنی ٹی وی ٹاک میں معزول وزیراعظم کو ہی وزیراعظم کہہ کر پوری قوم کو غلط مطلع کئے جارہی تھیں۔
ایک طرف قوم کو ریاستی امور سے مطلع کرنےوالی وزیر صاحبہ حلف اٹھانے کے چند گھنٹے کے بعد جیو جیسے سب سے بڑے ملکی ٹی وی چینل کے منجھے ہوئے اینکرپرسن جناب طلعت حسین کے حیرانیہ استفسار پر معزول وزیراعظم کو ہی بلاجھجک وزیراعظم کہتی رہیں۔ حالانکہ پورا پاکستان گھنٹوں میں جان گیا کہ وہ اب عباسی وزارت کی رکن کابینہ ہیں۔ ماشاء اللہ، ماشاء اللہ۔
اطلاعات کی وزیر صاحبہ کا یہ اون ایئر باکمال ابلاغ تو مانا کہ اسٹیٹس کو کی سیاسی تربیت کے جبر کا اثر ہے، شہری آزادیوں کے کچھ بڑے بڑے چیمپئن بھی آئین کی زندہ حقیقتوں سے انحراف کے پابند ہیں۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر کو اب کون بتائے، اگر وہ ماہر قانون ہو کر خود ہی نہ سمجھیں کہ قانون کی وہ تشریح جو وہ اپنی پریس کانفرنس میں کریں کبھی نہیں مانی جائے گی۔ یہ آئینی حق فقط عدلیہ کا ہے۔ آپ فیصلے پر تبصرہ اور اس کا تجزیہ کرکے نکتہ چینی کی گنجائش تو نکال سکتی ہیں عدلیہ کے پانچ جج صاحبان کی متفقہ تشریح کو چیلنج کے انداز میں للکار نہیں سکتیں۔ ماہر قانون محترمہ نے پریس کانفرنس میں اپنا سیاسی رنگ دکھاتے ہوئے عدلیہ پر طنز کیا ہے ’’اب تک دو دفعہ گاڈ فادر نکالے جاچکےہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ سویلین گاڈ فادر کتنے لاچار اور مجبور ہوتے ہیں۔ کاش آپ مافیاز کے خلاف فیصلے دے سکتے۔ مجھے کسی مافیا کے خلاف ایک فیصلہ دکھادیں‘‘ محترمہ نے قانون کی اپنی ہی تشریح کرتے آرٹیکل 184/3میں ترمیم اور آرٹیکل 62-63کو آئین کے مطابق بنایا جائے۔ بیچارے 22اراکین اسمبلی (بمطابق میڈیا) الیکشن کمیشن میں اپنی بی اے کی ڈگری اور ننھے سے کسی معصوم جھوٹ یا چھپ چھپائی پر مس ڈیکلریشن کے جرم میں 62-63کی زد میں آ کر اپنی منتخب نشست سے محروم ہوگئے۔ کاش آپ ان کے لئے بھی 62-63کو ہدف تنقید بنائیں لیکن نہیں کہ وہ شاید دوسرے تیسرے درجے کے منتخب اراکین اسمبلی تھے؟ جی تمام اراکین اسمبلی کی ایک ہی حیثیت نہیں ہوتی؟ یہ غوغا اب ہی کیوں مچ رہا ہے؟ اور یہ جو ہمارے حکمران پاکستان سے باہر اتنے مشکوک کاروبار برسوں سے کر رہے ہیں، یہ جو اقامہ اسکینڈل ہے جو عرب شہزادوں کی ان پر اس قدر مہربانیاں ہیں اور جو پاناما یعنی اوقیانوس کے بھی آخری کنارے پر کمپنیاں بنائی گئی ہیں، جو وزراء کی مشکوک اقامہ کمپنیاں اور نوکریاں یک دم آشکارہوئیں، یہ جو اربوں کے تحفے کمسن بچے ماں باپ کو دیتے اور آگے وہ کہیں سے کہیں خفیہ منتقل ہوتے رہے، محترمہ بتائیں اس سب کو آپ کی زبان میں کیا کہتے ہیں؟ یہ دھندا ہے، غلط کاروبار ہے، یہ اتنا بڑا نیٹ ورک جس کو سچا ثابت کرنےکے لئے الٹی سیدھی غیرقانونی دستاویزات بنانی پڑتی ہیں، یہ کروڑوں ڈالر پونڈز بغیر ریکارڈ کے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ آخر انہیں کیا کہتے ہیں؟ یہ مافیا نہیں؟ قوم تو اسے اسی زاویہ نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ اس پر ایک عدالتی فیصلہ آنا چاہئے۔ یہ پروپیگنڈہ نہیں قانون کی عدالت نے فیصلہ نہیں دیا؟ کون کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایسے دھندے میں ملوث ہے تو اسے قانون کی گرفت میں نہ لایا جائے۔ آپ کےپاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو آپ عدالت میں جائیں۔ حکومت کے پاس ہے تو وہ لائے جس کے پاس ہے وہ لائے۔ کسی کو کوئی سرخاب کا پر نہیں لگا۔ قانون میں گنجائش نہیں تو قانون سازی کریں۔ اب تو حکومت بھی اس معاملے میں خاصی دلیر ہے۔ احتساب سب کا۔ یہ قوم کے دل کی آواز ہے اور حقیقی جمہوریت کی جانب اور اسٹیٹس کو کے مقابل سماجی انصاف کی ضمانت۔ آپ کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے اسٹیبلشمنٹ کی بو آ رہی ہے۔ ہمیں یہ تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہو رہا ہے اور آپ کی کانفرنس سے اسٹیٹس کو کا بھبھکا سا اٹھتا لگا۔ رہی آرٹیکل 62-63یہ فقط عوام کی نمائندگی کا حق حاصل کرنے کے لئے مطلوب پارلیمانی فرائض کی ادائیگی سے متعلق اور ایک منتخب نمائندے کے طور ایمان اور شفاف اور کسی خلاف قانون دھندے میں ملوث نہ ہونےکا یقین ہے۔ اس کی مزید اورمخصوص تشریح تو قانون میں ہوسکتی ہے۔ اس کو ہدف کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم بطور قوم اس دیدہ دلیری کے مرتکب ہوں کہ ہم سچے اور امانتدار نہیں ہوسکتے اور ہمارے نمائندے صداقت اور امانت کے پابند کیسے ہوسکتے ہیں؟ لہٰذا عوامی نمائندگی کا ہم کوئی معیار مقرر کرنے کے قابل نہیں۔ یہ سوچ لیا جائے کہ آئین سے ایسا کوئی اخراج آگ سے کھیلنے کے مترادف تو نہیں ہوگا؟ یہ تیاری حقیقت میں اسٹیٹس کو کے چراغ آخر شب ہونے کا پتا دے رہی ہے۔

تازہ ترین