• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف بھرپور سیاسی جنگ کے لئے تیار ہیں۔اپنی نااہلی کے فیصلے کو عوام کی عدالت میں لیجانے کا حتمی فیصلہ کرچکے ہیں۔نوازشریف ہر سازش کا مقابلہ عوامی طاقت سے کرنا چاہتے ہیں۔ان کے تمام اقدامات مستقبل کی سیاسی حکمت عملی کے مطابق ہیں۔جی ٹی روڈ پر نہتے نواز شریف کی واپسی مخصوص قوتوں کے لئے ایک پیغام ہے۔اسکرپٹ لکھنے والے اور منتخب وزیراعظم کو رخصتی کا پروانہ تھمانے والے سب کچھ کرسکتے ہیںمگر سیاستدان کو عوام سے دور نہیں کرسکتے۔نوازشریف عوامی عدالت میں نااہل ہوئے ہیں یا نہیں،اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں ان کے اسلام آباد سے لاہور سفر کے دوران ہوجائے گا۔اگر عوام نے نوازشریف کو اہل قرار دے دیا اور تمام فیصلے مسترد کردئیے تو پھر حالات تناؤ کی طرف جائیں گے اور اس کے قوی امکانات موجود ہیں۔حساس اداروں کے پاس اطلاعات ہیں کہ نوازشریف کی لاہور آمد پر عوام کا جم غفیر امڈ آئے گا۔اگر ایسا ہوا تو پھر اس جے آئی ٹی اور اسکرپٹ رائٹرز کا کیا ہوگا۔نوازشریف کی سیاسی زندگی تقریبا37سال ہے۔میرا کچھ لوگوںسے سوال ہے کہ ایسا کونسا فطری طریقہ ہے جس سے آپ نوازشریف کو 37دنوں میں مٹا سکتے ہیں۔طے شدہ اصول ہے کہ جس چیز کو جتنا عرصہ بننے میں لگتا ہے کم از کم اس کو مٹانے کے لئے چوتھائی عرصہ تو دیں۔آپ نے بھرپور آپریشن کرکے ایم کیو ایم کو مٹانے کی کوشش کی مگر جس وقت کراچی آپریشن اپنی بلندی پر تھا ایم کیو ایم نے این اے 246سے تقریبا96ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے۔وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ ایم کیو ایم کے حامی یا پھر کراچی آپریشن کے مخالف ہیں ۔نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے۔دراصل لوگ ایسے طریقہ کار کے خلاف ہیں۔اگر ایم کیو ایم کے تخریب کار گروپوں کے خلاف کارروائی کی جاتی اور سیاسی طور پر اسے بالکل نہ چھیڑا جاتا تو پھر ایسا ردعمل بھی سامنے نہ آتا۔آج نوازشریف کے معاملے میں بھی ایسا ہے۔ایسا ہر گز نہیں ہے کہ عوام کرپشن کےحامی اور احتساب کے مخالف ہیں۔ مگر عوام کو اس مخصوص طریقہ کار سے اختلاف ہے۔اگر کسی بھی سیاسی رہنما کا احتساب کیا جارہا ہے تو پھر آپ اس عمل کی باگ ڈور کیوں سنبھال لیتے ہیں۔آج وقت ہے کہ کچھ تلخ حقائق عوام کے سامنے کھول کر رکھے جائیں۔
نوازشریف کا احتساب پانامہ لیکس کو جواز بنا کر شروع کیا گیا۔بات چلتی چلتی سپریم کورٹ آف پاکستان تک پہنچ گئی۔20کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم کو گاڈ فادر کے لقب کے ساتھ معاملہ جے آئی ٹی کو بھجوادیا گیا۔یہاں سے معاملے کی خرابی کا آغاز ہوتا ہے۔جے آئی ٹی میں تفتیش کے لئے ایف آئی اے،نیب ،ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بنک کے علاوہ عسکری حساس اداروں کے نمائندے شامل کرنے کا حکم دیا گیا۔قارئین کی معلومات کے لئے عرض کرتا چلوں کہ دہشت گردی کی تحقیقات کے لئے بننے والی جے آئی ٹی میں حساس اداروں کو اس لئے شامل کیا جاتا ہے ،تاکہ دہشت گردوں کے مکمل نیٹ ورک کا سراغ لگانے میں سویلین قانون نافذکرنے والے اداروں کی مدد کرسکیں۔مگر کسی بھی مالیاتی کرپشن کی تحقیقات میں حساس اداروں کو شامل کرنا کسی بھی معجزے سے کم نہیں تھا۔پاکستان کے عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ نوازشریف سول عسکری اختیارات کے حوالے سے ایک مخصوص موقف رکھتے ہیں۔ڈان لیکس سمیت متعدد معاملات میں انہوں نے سویلین بالادستی کے لئے ایک اسٹینڈ لیا تھا۔ٹوئٹس کی واپسی کے بعد ان کے اور اداروں کے درمیان سرد جنگ سے ہر صاحب الرائے واقف ہے۔ان لوگوںکے سامنے اس شخص کا احتساب رکھ دیاگیا ،جس کے کبھی بھی ان سے تعلقات مثالی نہیں رہے۔انتہائی افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ایک شخص کو ہاتھ پاؤں باندھ کر اکھاڑے میں پھینک دیا گیا۔
آج نوازشریف کے بندھے ہاتھ پاؤں کھل چکے ہیں۔قانون دان بھٹو کے عدالتی فیصلے کو تاریخ کا بدترین فیصلہ قرار دیتے ہیں مگر آج کے حالات و واقعات کو جب تاریخ دان تحریر کرے گا تو بھٹو کے ساتھ ہونے والی زیادتی بھی معمولی محسوس ہونے لگے گی۔بھٹو کے کیس میں ایک سیاسی رہنما کو قتل کرکے اس کی سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کردیا گیا مگر نوازشریف کے معاملے میں پہلے 99میں اس کی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی گئی،جہاں سے قدرت نے اس کو بچا لیا اور اب اس کی سیاست کو قتل کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔نوازشریف کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے جمہوریت کے داعی پوری طرح آگاہ ہیں۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایک سویلین وزیراعظم کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے گئے ہیں تو پھر جنرل(ر) مشرف،ریٹائرڈ ججز سمیت جن جن پر بھی الزامات ہیں ان کے لئے ایسی ہی جے آئی ٹی بنوائی جائے اور مکمل تحقیقات ہوں ۔تاکہ عوام کو یقین ہوجائے کہ نوازشریف کیس میں جو معیار مقرر ہوئے تھے وہ اب سب پر لاگو ہونگے۔مگر شایدایسا کبھی نہیں ہوگا۔کیونکہ ہمارے ہاں انصاف کے معیار مختلف ہیں۔
نوازشریف کی حالیہ نااہلی نے عام انتخابات سے ایک سال قبل مسلم لیگ ن کو اپنی خامیوں پر قابو پانے کا موقع دے دیا ہے۔عوام سے جو رابطہ چار سال سے ٹوٹا ہوا تھا ،اب مسلسل ایک سال جاری رہے گا۔اپنے وزیراعظم اور اپنے وزیراعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں نوازشریف بہت مضبوط ہونگے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ وزارت عظمیٰ سے برطرف ہونے کے بعد نوازشریف کمزور ہے مگر میری رائے ہے کہ نہتا نوازشریف مسلم لیگیوں کے لئے بہت مضبوط ہوگا اور آج وہ ہر وار کا بہتر جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔

تازہ ترین