• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ بات بلاشبہ انتہائی امید افزاہے کہ ہم ایک ایسے پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا۔جنرل باجوہ نے گزشتہ روز وادی راجگال کے دورے کے موقع پر افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ پاک فوج دہشت گردی اور عسکریت پسندی کیخلاف کامیابیاں حاصل کرکے قوم کی توقعات پر پورا اتری ہے اور اب ہم قوم کی بھرپور تائید کے ساتھ ایک ایسے پاکستان کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں جہاںقانون کی بالادستی ہر چیز پر مقدم ہوگی،ملک کے ہر حصے میں ریاست کی مکمل عمل داری ہوگی اور ہر پاکستانی چاہے وہ شہری علاقے میں رہتا ہو یا قبائلی علاقے میں ملک کی ترقی میں اپنا مثبت اور حقیقی کردار ادا کرسکے گا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسانی معاشرہ بے چینی اور بدامنی کا شکار اسی صورت میں ہوتا ہے جب اس کے طاقتور عناصر ملک کے آئین اور قانون سے بالاتر ہوں اور ان کا اطلاق صرف معاشرے کے کمزور طبقات تک محدود رہے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے محروم اور مظلوم طبقے بے اطمینانی کا شکار ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اس حوالے بہت واضح ہیں ۔ ایک حدیث نبویؐ کے مطابق وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں جو قانون کا نفاذ صرف اپنے کمزوروں پر کرتی ہیں اور طاقتوروں کو چھوڑ دیتی ہیں۔چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ معاشرے کفر سے نہیں بے انصافی اور ظلم سے تباہ ہوتے ہیں۔ اور ظلم فی الاصل یہی ہے کہ ایک ہی جیسے جرم پر کمزور تو سزا پائیں مگر طاقتور قانون کے شکنجے میں نہ کسے جائیں۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان نے شدید مشکلات سے دوچار رہنے کے باوجود ستر سال مکمل کرلیے ہیں جبکہ حصول آزادی کے بعد بھارتی قیادت اور متعدد عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ یہ ملک چھ مہینے بھی نہیںچلے گا۔چار سال پہلے تک جب ہماری معیشت بدترین زبوں حالی کا شکار تھی ، ملک بھر میں دہشت گرد دندناتے پھررہے تھے اورخود کش حملے روز کا معمول تھے تو بین الاقوامی مبصرین کی یہ قیاس آرائیاں مسلسل سامنے آتی رہتی تھیں کی یہ ملک چند ماہ میں دیوالیہ ہو جائیگا اورعلیحدگی کی تحریکوں کے نتیجے میں دو چار سال کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ختم ہوجائیگا۔ لیکن خدا کے فضل سے بہتر حکومتی پالیسیوں کے باعث ملک معاشی طور پر مستحکم ہوا اور سیاسی و عسکری قیادت کی مشترکہ حکمت عملی کے نتیجے میں دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ۔ تاہم معاشرے کے تمام طبقات پر قانون کے یکساں اطلاق کی منزل ابھی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔عدلیہ کے فیصلے کے نتیجے میں نااہل قرار پاکر برطرف کیے گئے سابق وزیر اعظم کا یہ سوال بہرحال جواب طلب ہے کہ کیا کوئی عدالت آئین شکنی اور قتل و غارت کے مقدمات میں ملوث نیز آئینی و جمہوری نظام کے مقابلے میں آمریت کو برملا بہتر قرار دینے اور آئین مملکت کو نظر انداز کرنے کو جائز ٹھہرانے والے ملک کے سابق ڈکٹیٹر جنرل مشرف کو سزا دے گی؟ سیاستدانوں کا احتساب تو اس ملک میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے لیکن ملک کے دستور کو پامال کرنے، اپنے غیر منصفانہ اقدامات سے علیحدگی کی تحریکوں اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے اوراپنے اقتدار کیلئے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عالمی طاقتوں کی تابعداری کرنے والے آمروں کو کسی عدالت سے آج تک ان کے جرائم کی سزا نہیں ملی۔جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک وہ پاکستان وجود میں نہیں آسکتا جس میں کمزور اور طاقتور سب پر قانون کا یکساں اطلاق ہونے کے سبب مکمل امن وامان، استحکام اور خوشحالی ہو۔ اس کیلئے ایک ایسے بے لاگ اور ہمہ گیر نظام احتساب کی تشکیل اور نفاذ لازمی ہے جس کا دائرہ اختیار پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج اور میڈیا سمیت قومی زندگی کے ہر شعبے کے افراد تک وسیع ہو اور جس کے تحت سب پر آئین اور قانون کا یکساں اطلاق کیا جاسکے کیونکہ قانون کی بالادستی ہی قومی سلامتی کی حقیقی ضامن ہوتی ہے۔

تازہ ترین