• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

28 جولائی کو کچھ لوگ (ن۔لیگ) یوم تاریک کہہ رہے ہیں اور کچھ لوگ (تحریک انصاف) یوم نجات کہہ رہے ہیں۔ قوم کو نہ ہی تاریکی اور نہ ہی نجات سے کچھ غرض ہے وہی شیخ سعدیؒ والی بات ہے کہ:
ما را چہ اَزیں قصّہ کہ گائو آمد و خر رفت
یعنی ہمیں اس سے کیا غرض کہ بیل آیا اور گدھا چلا گیا گویا کسی کے آنے جانے سے بے پروائی کا اظہار مقصود ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ نواز رہے یا جائے عمران آئے یا نہ آئے غریب عوام کو رتی برابر فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اور وہ لوگ جو بہت خوش ہورہے ہیں ان کو بھی کچھ نہ ملے گا۔
عوام میں ایک تاثر پیدا ہوگیا تھا کہ نواز شریف کی گردن میں اور ان کی کچن کیبنٹ والوں کی گردن میں سریا آگیا ہے اور تکبّر اور غرور نے جنم لے لیا ہے۔ مجھے خود اس کا تجربہ ہے کہ ان میں ایک صاحب جو کسی زمانے میں ہمارے گھٹنے پکڑتے تھےخود ساختہ پروفیسر و ڈاکٹر بن گئے۔ میں نے ان کو ایک اعلیٰ یونیورسٹی کا پروپوزل بنا کر بھیجا کہ ملک تعلیم و سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کرے، میرا ڈرائیور ان کے گھر دے کر آیا مگر کئی ماہ گزر گئے تین چار الفاظ کی ایس ایم ایس یا ایک منٹ کی فون کال نہیں آئی۔ جب ایک روز یہ مجھے جہاز میں ملےتو میں نے شکایت کی تو بولےکہ ا نہیں وہ پروپوزل نہیں ملا۔ میں نے دو دن بعد پھر ڈرائیور کے ہاتھ ایک کاپی وزیروں کی کالونی میں ان کو بھجوادی۔ اس بات کو بھی چار ماہ ہوگئے ہیں اور وصولیابی کا ایک لفظ ِشکرانہ نہیں آیا۔ اس کے مقابلےمیں اگر آپ مغربی ممالک کے کسی بڑے سے بڑے پروفیسر، وزیر کو بھی خط لکھیں تو جواب ضرور آتا ہے عموماً وہ خود دستخط کرتے ہیں ورنہ ان کا سیکریٹری ضرور جواب دیتا ہے۔ بدقسمتی سے نواز شریف نے ایسے ہی نااہل لوگوں کی بھیڑ جمع کررکھی تھی۔ قرض لے لے کر ملک کو مقروض کردیا اور سوائے سڑکیں، پل، فلائی اوور بنانے کے کچھ نہیں۔ ایک صنعت نہیں لگائی کہ بیروزگاروں کو رزق حلال کمانے کا ذریعہ بنتی۔ ایک اعلیٰ یونیورسٹی نہیں بنائی کہ ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم و معلومات حاصل کرکے ملک کی خدمت کرتے۔ میں اور میرے سینئر ساتھی باہر کے پڑھے ہوئے تھے، تجربہ کار تھے، خوداعتمادی تھی جس کی وجہ سے ہم نے ملک کو ایٹمی قوّت بنا کر ناممکن کو ممکن بنادیا۔دیکھئے پاناما کیس نے پورے ملک کو یرغمال بنالیا تھا، دن بھر تھیٹر لگا رہتا تھا سپریم کورٹ کے احاطےمیں بھی اور JIT (متحدہ انویسٹی گیشن ٹیم) کے دفتر کے سامنے بھی۔ وفاقی وزرا دن بھر پوری قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ عزّت مآب ججوں کو بھی قانون پڑھانے کے وہم میں مبتلا تھے۔نواز شریف نے وفاداری کو معیار بنایا تعلیم و قابلیت کو معیار نہیں بنا یا۔ ملک میں لاتعداد اعلیٰ تعلیمیافتہ اور تجربہ کار ماہرین ہیں مگر ان کو کام کرنے کے مواقع اور سہولتیں نہیںدیں۔
پاناما کا پنڈورا باکس ہمارے مشہور انویسٹی گیشن صحافی جناب عمر چیمہ نے کھولا تھا اور اس میں بہت سے مالدار لوگوں کے نام تھے اور جائیدادیں تھیں۔ پاکستان کے بھی اہل اقتدار اس سے مُستفید ہورہے تھے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے نواز شریف اور ان کے گھر والوں کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دیدی، پانچ ججوں کی بنچ میں سے دو نے ان کو مجرم قرار دیا اور ناہل ہونے کا فیصلہ دیا۔ تین ججوں نے کہا کہ ایک JIT بنائی جائے اور وہ مکمل تحقیق کرکے چند ہفتوں میں رپورٹ پیش کرے۔ نواز اور ان کے ساتھی JIT والوں کے پیچھے پڑ گئے۔ آفرین ہے کہ JIT ممبران کسی دبائو یا خوف میں نہ آئے اور اپنا کام نیک نیتی اور تندہی سے کیا اور مقررہ وقت میں تفتیشی رپورٹ سپریم کورٹ کو دیدی۔ معزز جج صاحبان نے ایک ہفتہ مختلف پارٹیوں کے وکلاء کی باتیں سنیں، جرح کی اور چند دن سوچ بچار کے بعد ایک نہایت دوررس فیصلہ سنا دیا۔ نواز شریف کو زندگی بھر کے لئے نااہل قرار دیدیا اور نیب کو حکم دیا کہ وہ ان کے اہل خانہ کے خلاف ایکشن لے، مقدمہ چلائے۔ وہ تمام ساتھی جو دن بھر ہماری زندگی اجیرن کررہے تھے وہ حلوہ پوری کھا کر چلے گئے۔ وہ اب نئے وزیر اعظم کا انتظار کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ کا متفقہ فیصلہ آتے ہی تمام نیم حکیم، نیم وکلاسپریم کورٹ کے فیصلے پر سخت تنقید کرنے لگے، گویا یہ طفل مکتب ان تجربہ کار جیّد ججوں سے بہتر قانون داں ہیں۔ ان کے ساتھی عجیب عجیب طرح کی منطقیں پیش کررہے ہیں، سعد رفیق صاحب وجہ پوچھ رہے ہیں کہ وزرااعظم کیوںگھر بھیج دیے جاتے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ یا تو وہ ڈکٹیٹروں کی گاڑی میں بیٹھ کر آتے ہیں اور ڈکٹیٹر ان سے غلط کام کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور نا کرنے پر گھر بھیج دیئے جاتے ہیں یا جمہوری دور میں وہ بدعنوانی میں حدیں عبور کرجاتے ہیں۔ میاں صاحب کچھ بھی کہیں اور ان کے ساتھی کچھ بھی کہیں عوام کی اکثریت کو یقین ہے کہ انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے بد عنوانی کی ہے۔ یہ جو نتیجہ نکلا ہے اس کو آپ مکافات عمل کہہ سکتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ جتنی ڈیلزہیں ان میں دال میں بہت کچھ کالا ہے۔ میاں صاحب کو چاہئے کہ اب وہ ن۔لیگ کے صدر بن کر اتفاق فونڈری چلائیں اورقوم کو اپنی تجارتی پیشہ ورانہ قابلیت دکھائیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے ساتھی ان کے سامنے منہ نہ کھول سکے سوائے چودھری نثار علی خان کے۔ وہ منہ پھٹ ہیں اور صحیح بات کرنے سے نہیں ڈرتے۔
میاں صاحب کو اب احساس ہوگیا ہوگا کہ ان کے ساتھیوں کی روزانہ پریس کانفرنسیں ان کو لے ڈوبی ہیں۔ عدلیہ ایسی باتوں سے متاثر نہیں ہوتی ہے۔ جج صاحبان صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر فیصلہ میرٹ پر ہی ہوتا ہے۔
میاں صاحب کے پاس شاید ایک موقع اور ہے اور وہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد نئی فل بنچ کے سامنے ریلیف حاصل کرنے کی درخواست دیں اور التجا کریں کہ نااہلی کو پوری عمر کے بجائے 5 سال کردیا جائے۔مجھے بھی میاں صاحب سے بڑی شکایت ہے ان کو اچھی طرح علم ہے کے ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد یہ ایک صا حب کو لے کر مینار پاکستان پہنچ گئے اور ان کو چڑھانے کی بڑی کوشش کی ۔ یہ بات قومی تعصب کا کھلا مظاہرہ تھا۔ یہ برداشت نہ کرسکے کہ ایک محب وطن نے یہ کام ملک کی محبت میں بغیر کسی معاوضہ اورلالچ کے کیا تھا۔ الیکشن کی مہم میں انھوں نے کہوٹہ میں کہا کہ یہ مجھے صدر بنائینگے اور ان کی بیگم نے پنڈی میں یہی کہا مگر بعد میں مکر گئے، مجھے نہ صدارت اور نہ ہی وزارت منظور تھی۔ مشرف نے مجھے سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر کی پیشکش کی تھی میں نے انکار کردیا تھا اور ڈاکٹر عطاء الرحمن کا نام تجویز کردیا تھا۔ بعد میں میاں صاحب نے لوگوں سے کہا کہ میں سینیٹر بننے کی کوشش کررہا تھا انھوں نے انکار کیا تو میں ناراض ہوگیا۔ میاں صاحب اگر میں ایم این اے یا سینیٹر بننا چاہتا تو کراچی سے بلامقابلہ بن سکتا تھا مجھے پیشکش تھی میں نے شکریہ کے ساتھ انکار کردیا تھا۔
میاں صاحب نے ایک آمر، ڈکٹیٹر اور غدّار کو آرام سے باہر جانے دیا اور دستور کی خلاف ورزی کی لیکن ان کو ایک دن بھی یہ خیال نہ آیا کہ اُسی غدّار وطن کی لگائی ہوئی پابندیوں کا میں آج بھی شکار ہوں، نام نہاد آزادی شہری کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس عمر میں بھی اور ملک کو ناقابل تسخیر دفاع مہیا کرنے کے باجود مجھ پر ناقابل قبول پابندیاں ہیں۔
(نوٹ) مجھے یہ سوال پریشان کررہا ہے کہ اگر نواز شریف کو بلائے اور سنے بغیر سپریم کورٹ فیصلہ کہہ سکتی ہے تو پھر مشرف کو کیوں سزا نہ دی اور جیل نہ بھیجا؟

تازہ ترین