• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں میری نظر ایک معروف اخبار کی خبر پر پڑی جس کا عنوان ’’اعلیٰ تعلیمی اداروں میں دہشت گردوں کی نئی نسل کی پیداوار‘‘ تھا۔ خبر کے مطابق دہشت گرد صرف بعض روایتی مدرسوں سے نہیں بلکہ اب ملک کے ممتاز تعلیمی اداروں سے بھی جنم لے رہے ہیں جو اس بات کا انحراف ہے کہ دہشت گردی غربت اور جہالت سے جنم لیتی ہے۔ سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشتگردی CTD کے زیر اہتمام کراچی میں ایک سیمینار ’’تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی‘‘ منعقد کیا گیا جس میں 40 پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔ سیمینار میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملک میں نجی اور حکومتی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انتہا پسندی تیزی سے پھیل رہی ہے جو پڑھے لکھے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کررہی ہے۔ کراچی میں سانحہ صفورا کے مرکزی کردار آئی بی اے کے طاہر سائیں اور اُن کی ہمدرد یونیورسٹی کی ٹیچر اہلیہ، سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ نورین لغاری اور سعد عزیز جیسے واقعات اس رجحان کی تائید کرتے ہیں، ان جامعات کے اساتذہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان طلباء کے بعض مدرسوں میں شرکت کرنے کے بعد اُن کے رویئے میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔سیمینار کے اسپیکر حامد نے بتایا کہ ملک کے ممتاز تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ اور گریجویشن کئے ایک طالبعلم جس نے بعد میں کراچی کے معروف اسکول میں تدریس کے پیشے کو اپنایا تھا، انتہا پسندی کی طرف مائل ہوکر وزیرستان گیا جہاں وہ ایک ڈرون حملے میں زخمی ہوکر اب انتہا پسندی کے بحالی سینٹر میں علاج کرارہا ہے۔ CDT کے سربراہ راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ بعض مدرسوں سے جنم لینے والے انتہا پسند زیادہ تر فرقہ واریت سرگرمیوں میں استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جنم لینے والے انتہا پسند گلوبل ایجنڈا رکھتے ہیں اور دنیا میں مسلمانوں کیلئے لڑنا چاہتے ہیں۔ عمر خطاب نے بتایا کہ ڈیفنس، کلفٹن، گلشن، گلستان جوہر، ناظم آباد جیسے پوش علاقوں کے سعد عزیز اور دیگر 19 امیر اور پڑھے لکھے انتہا پسند نوجوان اسلامک اسٹیٹ (IS) اور دیگر گلوبل عسکری گروپس میں شمولیت کا ارادہ رکھتے تھے اور ان کے والدین کو ان کے انتہا پسند رجحان کا علم تھا لیکن انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ نہیں کیا۔ عمر خطاب نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ایک نجی یونیورسٹی کے ٹیچر نے اپنے بیٹے اور قریبی رشتے دار کو دھماکہ کرنے والی اشیاء (IEDs)بنانے کی تربیت دی جو اب پولیس کا اشتہاری ملزم ہے۔ ملک کی ایک ممتاز یونیورسٹی کے سیمینار میں شریک نمائندے نے بتایا کہ نورین لغاری کیس کے بعد طلباء و طالبات کی نگرانی کی جانے لگی ہے اور انہوںنے 6 طالبات کے رویئے میں خاص تبدیلی محسوس کی اور ان طالبات کے والدین کو ان کے انتہا پسند رویئے کے بارے میں مطلع کیا۔
خوشحال گھرانوں کے پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان انتہا پسند تنظیموں کے لئے تھنک ٹینک کا کردار ادا کرتے آرہے ہیں۔ ان طالب علموں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء حتیٰ کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔کور کمانڈر کراچی حملہ کیس میں بھی جب دہشتگردوں کی معاونت کے الزام میں ’’ڈاکٹر برادران‘‘ کو پولیس نے حراست میں لیا تو لوگوں نے اسے روایتی پولیس کارروائی قراردیا لیکن رہائی کے چند سال کے بعد ان میں سے ایک ڈاکٹر بھائی وزیرستان میں مختلف وڈیوزمیں دہشت گردوں کو ٹریننگ دیتے نظر آنے کے بعد امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تو پھر لوگوں کو یقین آیا۔یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ دہشتگرد اور سہولت کار ہمیشہ سے اپنی تنظیموں کیلئے ’’اثاثہ‘‘ ثابت ہوتے آئے ہیں۔ انتہا پسند گروپوں نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اپنا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں کالعدم حزب التحریر سے متاثر نوجوان زیادہ متحرک ہیں۔ یہ لوگ دولت اسلامیہ کے نظریہ کو کافی حد تک صحیح سمجھتے ہیں اور پڑھے لکھے نوجوانوں کا شکار کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں جس کے ذریعے کراچی سے شام تک یہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ یہ گروپ اپنے ہم خیال علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مضبوط تعلقات و روابط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے چند بڑے اور مضبوط گروہ چندے سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے بجائے اغواء برائے تاوان اور بینک ڈکیتیوں کو جائز سمجھتے ہیں۔ آج کے دور میں پاکستان میں جتنے بھی ایسے چھوٹے گروپ کام کررہے ہیں، وہ سب کے سب حکمتِ عملی اور طریقہ کار سے دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ کے قریب نظر آتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں پہنچ کر نوجوانوں کو دوست بناکراپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنا انتہا پسند تنظیموں کا اولین مقصد ہوتا ہے۔ ان تنظیموں نے اس سلسلے میں باقاعدہ طور پراعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین کی مدد سے سوشل میڈیا پربہت سے جعلی اکاؤنٹس بنائے ہوئے ہیں جن سے وہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو پھنسا کر اپنے جال میں لے آتے ہیں اورپھران کی ذہن سازی کرکے اہداف دیئے جاتے ہیں۔ نورین کے مطابق اس کا رابطہ فیس بک پر دہشت گرد محمد علی سے ہواتھا جس نے اس کی ذہن سازی کرکے دولتِ اسلامیہ جیسی تنظیم کے لئے کام کرنے پرتیار کیا۔ مختلف انتہا پسند تنظیمیں اپنے ہمدرد اورہم خیال پڑھے لکھے لوگوں کی مدد سے ہفتہ واراورماہانہ درس و تدریس کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ یہ نشستیں مستقبل کے ’ٹیلنٹ‘ کو ڈھونڈنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔کلین شیو اور پینٹ شرٹ میں یہ لوگ پوش علاقوں میں رہ کراپنی سرگرمیاں خفیہ طور پر جاری رکھتے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے دہشت گرد یا سہولت کار مخلوط محفلوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ ان کی مدد کے لئے اِنہی کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بھی ان میں شامل ہیں جو اپنے اپنے حلقوں میں طالبات پر کام کرتی ہیں۔ سیمینار کے مقررین نے تجاویز دیں کہ جامعات میں طلباء کے علاوہ دیگر غیر متعلقہ لوگوں کا داخلہ ممنوع کیا جائے اور جامعات میں نفسیات دان مقرر کئے جائیں جو طلباء و طالبات کی سرگرمیوں اور ان کے انتہا پسند رویئے کا مطالعہ کریں۔
ماہرین کے مطابق ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مذہب کی طرف مائل ہورہی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے تمام نوجوان انتہا پسند تنظیموں کی صفوں میں شامل ہوکر غیر انسانی سرگرمیوں میں مصروف ہوجائیں لیکن معاشرے میں انتہا پسندانہ سوچ کے حامل افراد کی موجودگی یقیناً باعث تشویش ہوگی۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں، اُن کے دوستوں اور ان کی سرگرمیوں پر خاص نگاہ رکھیں اور ان کے رویئے میں تبدیلی کی فوراً قانون نافذ کر نے والے اداروں کو اطلاع دیں۔ تعلیم یافتہ طبقے کے نوجوانوں کا دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونا بہت ہی تشویشناک امر ہے۔ تعلیمی اداروں میں اگر اس طرح کالعدم تنظیموں کا منظم نیٹ ورک قائم ہوتا چلا گیا تو جلد یہ تدریسی درسگاہیں کسی بارود کے ڈھیر سے کم نہیں ہوں گی کیونکہ کسی جاہل دہشت گرد سے مقابلہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن کسی پڑھے لکھے اور چالاک دہشت گرد کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔

تازہ ترین