• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ تمام اقوام ان تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کیلئے حکمت عملی وضع کر رہی ہیں اور ان کی سیاسی قیادت نیا وژن دے رہی ہے لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے ، جہاںسیاست دانوں کو دنیا میں ہونے والی اس کایا پلٹ کا احساس اور ادراک ہے اور نہ ہی کسی کے پاس آئندہ کا لائحہ عمل ہے ۔ تبدیلی کی اس لہر میں پاکستان پر کیا گزرے گی ، اس کے بارے میں سوچ کر خوف ہوتا ہے ۔
عالمی اور علاقائی سطح پر نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ امریکہ ، یورپ ، ایشیا ، افریقا اور لاطینی امریکہ خاص طور پر ان تبدیلیوں کی زد میں ہیں ۔ نئے اتحاد بن رہے ہیں اور پرانے اتحاد ٹوٹ رہے ہیں ۔ ایشیامیں سب سے زیادہ ان تبدیلیوں کے اثرات مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ممالک پر مرتب ہوں گے اور پاکستان اس زلزلے کا مرکز ہے لیکن تاریخ کے اس اہم مرحلے پر پاکستان میں موجود سیاسی قیادت کوئی کردار ادا کرنے یا کوئی وژن دینے کی اہلیت سے محروم ہو رہی ہے ۔ گذشتہ ڈیڑھ دو سالوں سے پاکستان کی سیاست پاناما کیس میں الجھی ہوئی ہے ۔ پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا کے کچھ ممالک میں ان سیاست دانوں اور حکمرانوں نے اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا تھا ، جن کے نام پاناما اسکینڈل میں آئے تھے ۔ انہوں نے اپنے ملک کی سیاست کو نہیں الجھایا اور حالات ٹھیک کر لئے ۔ ہمارے ہاں پاناما کیس عدالت میں لے جانے کیلئے احتجاجی دھرنے ہوئے ۔ پھر کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے باہر عدالتیں لگائی گئیں اور ایک دوسرے کے خلاف بدترین الزامات عائد کئے گئے ۔ اس سے سیاست کو گندہ کرنے کا ایک نیا اور شرمناک عہد شروع ہوا ۔ عدالتوں اور اداروں پر تنقید ہوئی ۔ عدالتوں کے فیصلوں کو متنازع بنایا گیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو عدالت سے نااہل قرار دیا گیا اور انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹنا پڑا لیکن انھوں نے ریاستی اداروں سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کو اس فیصلے سے زیادہ بڑا نقصان پاناما کیس کی کارروائی کے دوران ہوا کیونکہ ان کی دولت اور اثاثوں کے بارے میں پوری دنیا میں سوالات پیدا ہوئے اور ان کی عالمی سطح پر ساکھ بہت متاثر ہوئی ۔ اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس بدلتی ہوئی دنیا میں ایک اہم پاکستانی سیاسی رہنما کا مستقبل میں متوقع قائدانہ کردار نظر نہیں آ رہا ۔
اس صورت حال میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا سیاسی قد بہت بلند ہو گیا تھا اور عالمی و علاقائی سطح پر بھی ان کی پذیرائی ہو رہی تھی لیکن ان کی اپنی سیاسی جماعت کی خاتون رہنما اور رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے ان پر جو الزامات عائد کئے ہیں ، اس سے ان کی سیاسی ساکھ بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔ اس معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایک خاتون کے معاملے پر جو سیاست کی جا رہی ہے ، وہ ہماری معاشرتی اور اخلاقی روایات کی نفی ہے ۔ کسی خاتون کو ہراساں کرنا یقیناً ناپسندیدہ اور قابل مذمت عمل ہے لیکن اس معاملے کو اچھالنا بھی کسی طرح پسندیدہ فعل نہیں ہے ۔ پاکستان کی سیاست کا یہ خوش آئندہ اور روشن پہلو ہے کہ خواتین باہر نکلی ہیں اور انہوں نے سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیا ہے ۔اس میں خواتین کو کثیر تعداد میں نکلنے پر عمران خان نے بڑی محنت کی اور زیادہ تر خواتین تحریکِ انصاف کے پروگرام سے متاثر ہو ئی تھیں اسی لئے عمران خان پر خاتون سے کیمپین کرائی گئی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں اور قدامت پسند لوگوں کی کوشش ہے کہ خواتین کوپھر واپس پیچھے بھیج دیا جائے۔ وہ مردوں کے شانہ بشانہ عوام کے بنیادی حقوق کیلئے لڑ رہی ہیں ۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ قوم پرست اور مذہبی جماعتوں میں بھی خواتین اہم کردار ادا کر رہی ہیں ۔ اگر اس طرح کے واقعات کے نتیجے میں خواتین سیاست سے باہر چلی گئیں تو ملک کی خدمت نہیں ہو گی اور سیاست مزید خراب ہو گی ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا یہ ہے کہ عائشہ گلالئی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) والے ان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ۔ ان کی پارٹی کے دیگر رہنما بھی یہی موقف اختیار کر رہے ہیں ۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی مہم کا حوالہ دیتے ہیں ، جس میں شہید بی بی سے متعلق قابل اعتراض پمفلٹ شائع کرکے جہازوں کے ذریعہ پھینکے گئے تھے ۔ تحریک انصاف کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کے خلاف اس طرح کی مہم چلاتی ہے ۔ سپریم کورٹ سے میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد عائشہ گلا لئی کے ذریعہ یہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف عدالتوں سے کوئی فیصلہ آ سکتا ہے۔ عائشہ گلالئی کے معاملے کا کیا انجام ہوتا ہے ، یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس معاملے میں عمران خان کا سیاسی ٹرائل ہو گا ۔ قومی اسمبلی میں ایک تحریک منظور کر لی گئی ہے ، جس میں سفارش کی گئی ہے کہ ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے ، جو عمران خان کے خلاف عائشہ گلالئی کے الزامات کی تحقیقات کرے ۔ میاں محمد نواز شریف کی سیاسی ساکھ خراب ہونے کے بعد عمران خان کی سیاسی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے عالمی اور علاقائی سطح پر اپنی حیثیت تسلیم کرائی اور انہوںنے خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا بھی کیا ہے لیکن ان کے قریبی ساتھیوں پر مقدمات ، ان کے ساتھیوں کی گرفتاری اور خود آصف علی زرداری کا زیادہ عرصہ بیرون ملک قیام اس امر کی دلالت کر رہے ہیں کہ انکے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تعلقات میں سب ٹھیک نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں پاکستان میں ایک نئی سیاسی قیادت ابھر رہی ہے تاہم پاکستان کو فوری طور پر ایک ایسے سیاسی قائد کی ضرورت ہے ، جو علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے سونامی سے پاکستان کو نکال سکے ۔
نئے منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا بین الاقوامی ’’ ایکسپوژر ‘‘ زیادہ نہیں ہے ۔ وہ اگرچہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ہدایات پر چلیں گے لیکن فرنٹ پر ایک قد آور ، تجربہ کار اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سیاسی لیڈر کوئی نہیں ہو گا ۔ اگرچہ نئی وفاقی کابینہ میں باقاعدہ وزیر خارجہ بھی شامل ہیں لیکن وزارت خارجہ کا قلمدان خواجہ آصف کو دیا گیا ہے ۔ اب لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے تو بہتر تھا ، جب پاکستان کا باقاعدہ وزیر خارجہ نہیں تھا ۔ خواجہ آصف کی اہلیت پر کسی کو شبہ نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خواجہ آصف وزیر دفاع رہنے کے باوجود پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر نہ بنا سکے ۔ عام تاثر یہ ہے کہ انہیں وزیر خارجہ بنا کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی خارجہ پالیسی پر ایک ایسا شخص عمل درآمد کرے گا ، جس سے کچھ قوتیں ناراضی کا اظہار کرتی رہی ہیں ۔ موجودہ بین الاقوامی صورت حال میں پاکستان کی سویلین اور نان سویلین اداروں میں کسی قسم کی عدم ہم آہنگی ملک کے مفاد میں نہیں ہو گی ۔ موجودہ حکومت علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پیش آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کوئی واضح حکمت عملی نہیں بنا سکی ہے ۔ بھارت نے ہمارے خلاف اپنی سازشوں میں اضافہ کر دیا ہے ۔ کشمیر میں صورت حال دن بدن گمبھیر ہو رہی ہے ۔ امریکہ اس خطے میں پاکستان مخالف ملکوں کے ساتھ مضبوط اسٹرٹیجک پارٹنر شپ قائم کر رہا ہے ۔ پاکستان کیلئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں ۔ پاکستان چین اور روس کے ساتھ مل کر ایک نیا بلاک بنانے اور اس خطے میں نئی صف بندی میں اپنا کردار ادا کرنے کی جو منصوبہ بندی کر رہا ہے ، اس کیلئے نہ تو تیاری ہے اور نہ ہی سیاسی قیادت ہے اور یہی بات سب سے زیادہ تشویش ناک ہے ۔
ایسے حالات میں سیاست مزید گندی ہو رہی ہے اور بعض لوگوں کے الفاظ میں سیاست گالی بن گئی ہے ۔ سیاست دان اسکے ذمہ دار ہیں ۔ یہ سلسلہ ابھی رکتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے اور عالمی تبدیلیوں کی فالٹ لائن کا مرکز پاکستان خدانخواستہ کسی بھی بڑے جھٹکے سے دوچار ہو سکتا ہے ۔ سیاسی قیادت کے پاس کوئی وژن بھی نہیں ہے اور وہ خود کو خراب بھی کر رہی ہے ۔ کبھی ہم نے سوچا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ؟

تازہ ترین