• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا ہی ہونا چاہئے!
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے:ایسے پُر امن پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہو گا۔ یہ بیان ایک ایسا آوازۂ حق ہے جس میں ہی سب کا بھلا سب کی خیر ہےاور یہ کہ مستند ہے جنرل باجوہ کا فرمایا ہوا، اب تو فیصلے پر تجزیئے، بحثیں، گلے شکوے بند ہو جانے چاہئیں، کیونکہ جب قانون سے کوئی بالاتر نہیں تو پھر تر دامن کو سوکھنے ڈال دینا چاہئے، چہ جائیکہ دامن عدل تر کرنے کی کوشش کی جائے، اب میدان کھلا اور حد نظر تک صاف ہے، مزید بھی کشادہ ہو گا، اس لئے 2018ء کے انتخابات کے لئے تیاری شروع کر دینا چاہئے، قوم بھی اپنے اذہان کو تیار کرے اور 70سالہ غلط نوازی کو بھلا کر خوب غور و خوض کر لیں کہ اس کےووٹ کا مستحق کون ہے، جان نثاران مصطفیٰ ﷺ یعنی پاکستان تمام بالغ افراد سید الکونین خاتم الانبیاء ﷺ کے اس قول پر گہری نظر ڈالیں کہ ’’وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں، جو طاقتور کیلئے الگ اور کمزور کیلئے جداگانہ قانون بناتی ہیں‘‘ ظاہر ہے قانون تو قانون ساز ادارے بناتے ہیں اب یہ قوم کا فرض ہے کہ وہ انتخاب کیلئے ایسے افراد کو سامنے لائیں جن کے پاس تقویٰ کی طاقت ہو علم سے دامن خالی نہ ہو، دولت اور کروفر سے متاثر ہو کر یا ذات برادری، دوستی اور ہیرو ور شپ کے جنون میں آ کر دو قانون بنانے والوں کو اپنے اوپر مسلط نہ کرے، اللہ تعالیٰ کا شکر کہ فوج کے ادارے نے ہمیں اندر باہر سے تحفظ فراہم کر رکھا ہے، آج عدلیہ جس قدر آزاد اور طاقتور ہے کبھی نہ تھی، فوج اکیلی نہیں ہر پاکستانی بھی بے تیغ سپاہی ہے اور پاکستان کی خاطر لڑنے کو تیار، اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو سارے وسائل اور نعمتوں سے نوازا ہے، تقسیم درست نہیں، وسائل بروئے کار نہیں لائے جاتے اب بھی اگر ہم نے قومی بلوغت کا مظاہرہ نہ کیا تو خدا نہ کرے لاعلاج اسٹیج پر پہنچ جائیں گے، بُری باتیں دوسروں کے عیب چننے اور انتقامی جذبے رکھنے سے دور رہیں، اچھائی بہتری کی بات تلاش کریں اسی کو عام کریں یہ پاک سرزمین ہے مڈ ہائوس نہیں کہ جسے دیکھو دوسرے پر کیچڑ اچھال رہا ہے، کردار کشی کے بجائے کردار سازی کریں، اور ہر فرد اپنی ذات کی اصلاح سے آغاز کرے۔
زبان کی درستگی، اعمال کی درستگی
اگر آپ اپنی زبان درست نہیں کر سکتے، خود درست ہو سکتے ہیں نہ دوسروں کو درست کر سکتے ہیں، زبان کی غلطی دو قسم کی ہوتی ہے، ایک برا بولنا دوسرے غلط الفاظ، جملے، فقرے، تراکیب اور روز مرے سے ناواقفیت کی بنیاد پر مثلاً خود کُش کو خود کَش کہنا، ایسے افراد خود کشیوں یعنی خود کو گھسیٹنے کے مرتکب ہو جاتے ہیں، اور ایسا کرتے ہی رہتے ہیں، ہم توجہ دلانا چاہتے ہیں بدزبانی سے پرہیز کی جانب، یہ بات غلط ہے کہ خوش زبانی و خوش اخلاقی بھی دھوکہ ہے، کہ سچا آدمی تلخ نوا ہوتا ہے، اندر کا حسن زبان سے ظاہر ہوتا ہے، اگر کوئی منافق خوش بیانی سے کام لے تو وہ غیر مضر ہو جاتا ہے کیونکہ اچھا بولنا، بری نیت کے باوجود اچھا اثر مرتب کرتا ہے، اسی لئے کتاب حکمت قرآن کریم میں اللہ جل جلالہ نے فرمایا لوگوں سے خوبصورت الفاظ میں بات کرو، بُری زبان کسی کے اچھائی پھیلانے کے مشن کو بھی برباد کر دیتی ہے، جب کوئی لیڈر اسٹیج پر کہے کہ تمام اقوامیں ایسی ہی ہوتی ہے، تو اسکولوں کی تعلیم بھی ناکام ہو جائے گی، جب کہیں گے شروعات ہے، تو واحد، جمع اور جمع واحد ہو جائے گا، لفظ غلط کے لام پر زبر نہ ڈالنا بھی غَلط ہے، اینکرز سے معافی کے ساتھ میرا کئی دفعہ دل چاہتا ہے ان کے لئے اصلاحِ تلفظ اکیڈمی کھولوں، کم از کم ہمیں اپنی قومی زبان تو درست بولنا چاہئے، بھلے ہم انگریزی میرا صاحبہ والی بولیں اب یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ ہم ابھی اس عہد سے نہیں نکلے جب اردو ہماری قومی زبان نہ تھی، اب پاکستان بنے 70برس ہونے کو ہیں اور قومی زبان اردو بننے کی بھی 70ویں سالگرہ آنے والی ہے، اب تو ہر پاکستانی کو اردو کی زلفیں الجھانے کے بجائے سلجھانا چاہئیں، کیا کبھی کسی اللہ کے نبی نے غلط زبان بولی؟ لیڈر، ریفارمر، حکمران، سیاستدان اور میڈیا کی کم از کم ادائیگی درست ہو گی تو قوم سلجھ جائے گی، ہم دلائل دیں تو بات لمبی ہو جائے گی، بس سچی اور اچھی بات مان ہی لی جائے یہی بہتر ہے۔
مستحکم اور کمزور ادارے
عوام جب اپنا ووٹ دے کر کسی ’’عقل کل‘‘ کو منتخب کر لیتے ہیں تو یہ اس فردِ واحد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نیچے چلنے والے اداروں کو دیکھے کہ کس میں کمزوری ہے، بالعموم یہ ادارے کمزور نہیں ہوتے انہیں کمزور بنایا جاتا ہے، تاکہ ان کو داغدار بنا کر اپنی فلاح کے لئے راستے کی رکاوٹ دو رکر دی جائے، یہ پریکٹس آج ہی کی نہیں جب سے یہ وطن اپنے قائد سے بچھڑا ہے۔ یہ زور شور سے جاری رہی ہے، ہمارا معاشرہ ابھی اتنی صلاحیت بیداری نہیں رکھتا کہ بروقت کسی بھی ادارے کو تباہ کرنے کا نوٹس لے سکے، اور مطالبہ کرے کہ ہم نے ووٹ اس بربادی کے لئے نہیں اپنی خوشحالی و ترقی کے لئے دیا۔ یہی وہ سپریم طاقت ہے جس سے کرپٹ حکمراںڈرتا ہے، مگر شومئی قسمت کہ پورے معاشرے کو بدعنوانی کرنے سہنے کا عادی بنا دیا گیا ہے، اگر قصۂ زمین بر زمین ہی ختم کیا جاتا تو یہاں بھی جس کا داغ نظر آ جاتا از خود گھر جاتا، دو ادارے عدلیہ اور فوج ایسے ہیں کہ جن پر اب اعتماد کیا جا سکتا ہے، اور وہ ہی سب سے اونچی شاخ پر بیٹھے زاغ و زغن کو کٹہرے میں لا کر اس کا حساب چکتا کرسکتے ہیں، عدلیہ عدل کرے اوراس کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کرپٹ کیا گیا معاشرہ اور کرپٹ کرنے والے حکمراںگرفت میں نہ لائے جا سکیں، جب عوام، حکمرانوں کے لئے ان کی شان و شوکت کی خاطر ایک آواز پر جمع ہو جاتے ہیں نعرے لگاتے اور داغدار حکمرانوں کی شان بڑھاتے ہیں تو گویا وہ ان کو کرپشن کا این او سی دے دیتے ہیں، یاد رکھا جائے کہ قوم ہی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ چرواہے کو بھیڑیا نہ بننے دے ورنہ وہ سارا ریوڑ ہڑپ کر جائے گا۔ یہی وہ جمہوری قوت ہے جس کا ہم راگ الاپتے ہیں مگر ہم عوام اس سے کام نہیں لیتے، غلامانہ ذہنیت، خوف جنم دیتی ہے اور خوف قوم کو کبھی ظلم کے خلاف اٹھنے نہیں دیتا، ہم تاریخ ماضی اور غلط کو صحیح ثابت کرنے کی بحث میں الجھا دیئے جاتے ہیں، دانشمند وہ ہے جو نیکی کی نقل نہیں اتارتا اپنے سامنے کی برائی کے خلاف جنگ لڑتا ہے، اور اس طرح اس کی بھی تاریخ بنتی ہے، یہ بیدار و با ہوش فرد اس قدر موثر ہوتا ہے کہ اکیلا سینکڑوں کا قبلہ درست کر سکتا ہے۔ جب ہم کسی کو کوٹ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اندر کوئی جوہر نہیں، اور کمزور کیلئے قدرت کے پاس صرف مرگ مفاجات ہے۔

تازہ ترین