• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں محمد نواز شریف کو 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نااہل قرار دے دیا ہے۔ یہ تیسری بار ہوا ہے کہ اُن سے حکومت واپس لے لی گئی، پہلے ایک صدر نے 58-2B کا استعمال کرکے پھر ایک ڈکٹیٹر نے زبردستی اُن کو بے دخل کیا اور اب سپریم کورٹ نے اُن کو نااہل قرار دےدیا، اُن کےنااہل ہونے کا اندازہ ہمیں پہلے سے تھا، چنانچہ جنوری 2016ء کو ایک انگریزی مضمون میں اس کا ذکر کردیا تھا، ہمیں تو یہ بات یاد نہ تھی البتہ سابق سکریٹری جنرل وزارت خارجہ نے مجھے فون کرکے اِس کی اطلاع دی اور اس مضمون کی کاپی بھی مانگی۔ اب میرا خیال ہے کہ عمران خان بھی نااہل قرار پائیں گے، اُن کے معاملات بہت الجھے ہوئے ہیں، اُن کی پکڑ کافی سخت ہوگی، وہ جو کام کررہے ہیں، اگرچہ وہ بڑا معتبر اور مقدس دکھائی دے رہا ہے کہ وہ ملک کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتے ہیں مگر مجموعی طور پر وہ پاکستان میں اشتعال پیدا کرتے نظر آتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ نظام بدلنا چاہتے ہیں، ہے تو یہ بات بہت متاثرکن لیکن اُن کے پاس سوائے نعروں کے کچھ نہیں، نظام کو اگر بدلنا ہے تو اُن کے پاس متبادل نظام ہونا چاہئے، وہ اُن کے پاس ہے نہیں، اس کا مطلب ہے کہ اُن کی ساری کوشش و جدوجہد انتشار پر جا کر منتج ہوگی، جو کسی قوم کے لئے سم قاتل ہے۔ مشہور زمانہ یونانی فلسفی ارسطو نے انتشار پر آمریت کو ترجیح دی ہے کہ اس میں بھی کوئی نظم ہوتا ہے اور لوگوں کی جان و مال محفوظ ہوتی ہے، اس لئے کوئی بھی محب وطن ملک کوانتشار کا شکار نہیں ہونے دے گا اور نہ ہم اور نہ ہی ہمارے قبیل کے دوسرے لوگ ۔ جبـ’ ہم‘ کہتے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کو تباہی کی سمت جانے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ایک گروپ عوام سے جڑا رہا اور پاکستان مخالف عناصر کے خلاف ڈٹا رہا، چنانچہ جب جنرل پرویز مشرف نے فاٹا میں آپریشن شروع کیا تو عوام ان کے ساتھ کھڑے تھے، جب پوچھا گیا تو جواب دیا کہ آپ اپنا کام کریں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں، نتیجہ بہتر نکلے گا، جب اندرون سندھ تحریک چلی تو سینہ سپر ہوئے اور جب کراچی میں دہشت گردی شروع ہوئی تو ہم نے اِس کی نشاندہی کی اور ایک نام نہاد قائد کے ناپاک مقاصد کو منظرعام پر لائے، 22 دسمبر 2016ء کو اُن کی زبان سے وہ الفاظ ادا ہوگئے جن کا ذکر انہوں نے جولائی 1988ء میں کیا تھا تاہم اُن کے ناپاک عزائم کے سامنے ڈٹے رہے۔ بڑے بڑے نامور ایڈیٹر سرنگوں ہوگئے، بڑے بڑے دانشور سر جھکائے بیٹھے رہتے تھے مگر ہماری ثابت قدمی میں فرق نہیں آیا اور اس پُرآشوب دور میں وہ حضرت بھی ہم سے دور رہے، حملہ آور نہ ہوئے کہ کہیں ہمارا کہا سچ ثابت ہوجائے، اگرچہ اپنی بات کو سچ کرانے کے لئے ہم اُس کے علاقوں میں تن تنہا جاتے تھے یہ خیال کرکے کہ ایک قربانی سے ہزاروں افراد کی جان بچ جائے اور پاکستان کے خلاف سازش یکدم بے نقاب ہوجائے مگر اُن کے پیچھے جو غیرملکی فنکار تھے وہ اِس بات کو جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے اُن کا راستہ وقت سے پہلے رک جائے گا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے اعلان کے بعد اُن کا صبر جواب دے گیا، تدبر اور حکمت عملی کو بھی خیرباد کہا اور اُن کو سرعام منظر پر لانے کا فیصلہ کیا مگر کراچی کے عوام نے اُن کو ناکام بنایا۔
نواز شریف صاحب نااہل تو ضرور ہوئے مگر وہ اب بے تاج بادشاہ ہیں جس کا ذکر ہم نے اپنے 17 جولائی 2017ء کے کالم میں کردیا تھا کہ وہ نااہل ہوئے بھی تو اصل حکمراں وہی ہوں گے مگر ساتھ ساتھ وہ یہاں کچھ غلطیاں کررہے ہیں، یہ کہ وہ تصادم کی پالیسی پر گامزن ہیں جیسا کہ طلال چوہدری، اور مشاہد اللہ کو وزیر بنانا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صحیح سمت پر نہیں چل رہے جو اُن کے لئے نقصان دہ ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے سے مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت کے بعد مجھ سے پوچھا کہ اب وہ کیا کریں تو میں نے اُن سے کہا تھا کہ وہ سیاست چھوڑ کر اپنے بچوں کی پرورش کریں، انہوں نے جواباً کہا تھا کہ مچھلی پانی سے کتنے عرصے باہر رہ سکتی ہے، پھر ہماری ملاقات 12 جولائی 2007ء کو رحمان ملک کے گھر واقع لندن میں ہوئی۔انہوں نے مجھ سے مشورہ مانگا، میں نے کہا تھا کہ امریکہ سے جو وعدے وعید آپ کر چکی ہیں، وہ پورے نہیں کرسکیں گی اور بھی ملکی و غیرملکی طاقتیں روبہ عمل ہیں، جب 18 اکتوبر 2008ء کو کراچی میں دھماکہ ہوا تو بھی میں اُن سے ملنے نہیں گیا کہ میرا علم اور تجربہ کہتا تھا کہ یہ شروعات ہے اور چند ہی دن گزریں گے کہ کچھ اور ہوگا۔ اسی طرح میں میاں محمد نواز شریف کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی بے قراری کو قرار دیں، جوش کو ہوش میں بدلیں، دل کو فراغ کریں اور وسیع النظری سے معاملات کا جائزہ لیں۔ میں جانتا ہوں کہ مفت کے مشورے کی کوئی قدر نہیں مگر ایک آدمی کی حیثیت سے اور پاکستان کی بقا و سا لمیت کے حوالے سے اپنا فرض ادا کرنا ضروری ہے۔ اُن خوش کن لمحات کے حوالے سے جب آپ نے پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد جس خوشدلی اور جس حب الوطنی کا مظاہرہ کیا تھا وہ سب کے لئے قابل قدر ہے۔ ایٹمی طاقت بننے میں ذوالفقار علی بھٹو کی جان گئی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں مقید ہوئے اور آپ قید ہوئے مگر اللہ نے آپ کو بچا لیا ورنہ تاج والا سر بچتا نہیں ہے، میری گزارش کی وجہ آپ کے لئے کم اور پاکستان کے لئے زیادہ ہے کہ پاکستان کسی صورت عدم استحکام کا شکار نہ ہو، اِس کے لئے ضروری ہے کہ آپ محاذ آرائی سے اپنے آپ کو دور رکھیں اور لوگوں کے حمایت میں بولنے کو وزیر بنانے کا پیمانہ نہ بنائیں۔ جہاں تک شاہد خاقان عباسی کا معاملہ ہے وہ تو درست ہے کہ وہ اس وقت آپ کے ساتھ تھے جب جنرل پرویز مشرف نے آپ کو ہٹایا تھا اور غلط ہٹایا تھا، اس وقت عباسی صاحب پی آئی اے کے چیئرمین تھے وہ قید کر دیئے گئے تھے ۔ معاملات اتنے آسان نہیں ہیں، عالمی طاقتیں سازشیں کررہی ہیں، آپ کے اور ملک کے اداروں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ اُن کے ہرکارے آپ کو غصہ بھی دلا رہے ہیں اور ساتھ دینے کا وعدہ بھی کررہے ہیں مگر آپ کو وہ کرنا چاہئے جو آپ کے اور ملک کے مفاد میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں گے تو میری بات آپ کو اچھی لگے گی اور معاملات آپ کے حق میں ہوجائیں گے عین ممکن ہے سرخرو بھی ہوجائیں۔

تازہ ترین