• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا کی بطور عالمی طاقت گلوبل کمیونٹی میں ایک منفرد پوزیشن ہے اور اس کی طاقت ور گرفت کوئی راز نہیں ہے۔ پاکستان نے امریکا کے اتحادی کے طور پر دو جنگیں لڑی ہیں اور بہت نقصان اٹھایا ہے۔ پاکستانی ہمیشہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکا نے ہمیں استعمال کیا اور پھر ہماری قربانیوں کو فراموش کردیا۔ عالمی برادری بشمول پاکستان ہر چار برس کے بعد امریکا میں ہونے والے انتخابات کی جانب دیکھتے ہیں۔ صدارتی انتخابی مہم کے آغاز سے حتمی اعلان تک ہم بہت سے اہم پروگرامز دیکھتے ہیں۔ دونوں مخالف جماعتیں انسانی حقوق، دنیا میں امن اور اپنے ہم وطنوں کی خوشحالی پر بات کرتے ہیں، ان کی جماعتوں کے منشور اس طرح کے وعدوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں جیسے تیسری دنیا کے انتخابات ہوتے ہیں۔ جب سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی قومی ایجنڈے کا پرچار کر رہی ہوتی ہیں تو بدقسمتی سے ان کے ملک کے دانشور پس منظر میں اپنا ایجنڈا چلا رہے ہوتے ہیں۔ سی آئی اے، پینٹاگون اور ایف بی آئی دنیا بھر کے گرد اپنا جال بننے میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے اسٹیشن چیفس اپنے متعلقہ مرکزی دفاتر سے ہدایات پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ یقینی طور پر ایجنڈا گندے خفیہ حربوں، سوچی سمجھی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئے امریکی اثر و رسوخ کو وسعت دینا ہوتا ہے، اس سلسلے میں تمام مہارتیں استعمال کی جاتی ہیں تاکہ جس ملک سے متعلق اسے یہ محسوس کرایا جاسکے کہ نہ صرف امریکا عظیم ہے بلکہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے وہ ملک اس کی موجودگی کو بھی محسوس کرے۔ سی آئی اے کے اپریشنز کا فلپ برنٹی فرینکلن ایگی کے انکشافات اور دو سابق سی آئی اے ایجنٹوں کے اعترافات سے اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جن کے ٗضمیر نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ اپنے ادارے کو چھوڑ دیں اور کتاب تحریر کریں جو اٹلی سے شائع ہوئی۔ سی آئی اے کے سابق ایجنٹ فلپ جنہوں نے 1968میں سی آئی اے سے استعفی دے دیا تھا، 1975 ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان تھا، ’’ان سائیڈ دی کمپنی: سی آئی اے ڈائری‘‘۔ فلپ نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ 1960 میں ایکواڈور میں اپنی پہلی بیرون ملک ذمہ داری کے دوران ان کا ابتدائی مشن ایکواڈور اور کیوبا کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنا تھا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے رشوت، ڈارنے دھمکانے، جاسوسی اور جعلسازی کا استعمال کیا۔ ایکواڈور میں اپنے چار سال کے دوران وہ ملک کی سیاست میں دخیل ہوگئے اور ان کے اقدامات نے ایکواڈور کے سیاسی تانے بانے کو تباہ کردیا۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ انہوں نے مونٹی ویڈیو یوراگوئے میں متحدہ عرب جمہوریہ کی مدد کی اور دو کانٹیکٹ مائیکروفون نیچے کمرے کی چھت میں نصب کر دیے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے پوری دنیا میں سی آئی اے کے نیٹ ورک کے موثر ہونے پر روشنی ڈالی ہے اور دعوی کیا کہ کوسٹا ریکا کے صدر جوز، میکسیکو کے صدر (1970-1976)صدر لوئس ایچیویرا اور کولمبیا کے صدر الفانسو لوپیز (1974-1978)سی آئی اے کے ایجنٹ اور مددگار تھے۔ اس وقت کے سوویت یونین اور امریکا کے مابین سرد جنگ کے آغاز پر سی آئی اے نے تسلیم کیا تھا کہ اس نے 1948 کے عام انتخابات میں اٹلی کی وفاق پرست جماعتوں کو ایک ملین ڈالر دیے تھے جبکہ اٹلی کے کمیونسٹ رہنماؤں کو بے توقیر کرنے کے لئے جعلی خطوط بھی شائع کرائے تھے۔ اس کا واحد مقصد اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی کو برسراقتدار آنے سے روکنا تھا کیونکہ ایسا ہوجاتا تو یہ امریکا کے جغرافیائی و سیاسی مقاصد کے خلاف ہوتا۔ سی آئی اے کے ایسے کئی خفیہ آپریشنز کی مکمل تفصیلات پبلک ریکارڈ میں دستیاب ہے۔ مثال کے طور پر ویت نام کی جنگ امریکا کی بدترین مہم جوئی ثابت ہوئی، جس کے نتائج کا مکمل طور پر غلط اندازہ لگایا گیا تھا اور اس کی بنیاد سی آئی اے کی جمع کی گئی ناقص خفیہ معلومات تھیں۔ نتیجے کے طور پر یہ نہ صرف امریکا کے لئے بڑا صدمہ تھا بلکہ ویت نام کے عوام کے لئے بھی مصائب کا باعث بنا، جس میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں سمیت بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی ہوئی؛ جنگ میں پانچ لاکھ سے زائد بے گناہ شہری مارے گئے۔ اس جنگ کا ایک متاثر جو اب بھی حیات ہے وہ کوئی اور نہیں افسانوی شہرت کا حامل سینیٹر جان میک کین ہے اور ان کے جسم اور قلب پر اس جنگ کے گہرے زخم موجود ہیں۔ وہ اس وقت خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ امریکا کی جانب سے مشرق وسطی میں مداخلت کی تاریخ دوسری جنگ عظیم سے ملتی ہے۔ مشرق وسطی کی سیاست میں اپنی برتری کے مقاصد کے تحت امریکا نے پہلے عراقی صدر صدام حسین کو اکسایا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع پر کویت پر چڑھائی کردیں اور پھر اس نے عراقی جارحیت سے کویت کو آزاد کرانے کے لئے میدان میں چھلانگ لگا دی۔ عراق اور کویت کے درمیان کرائی گئی جنگ نے غریب کویتیوں اور دیگر قومیتوں کے لوگوں کو بے گھر کر دیا۔ یہاں سے امریکا مخالف جذبات بڑھنا شروع ہوئے اور مسلسل بڑھ رہے ہیں لیکن سی آئی اے اپنے کام سے کبھی نہیں رکی۔ امریکا کی جانب سے جو حربے اختیار کیے گئے وہ صورتحال کا فائدہ اٹھانے اور مشرق وسطی میں اپنے قدم جمانے کے سوا اور کچھ نہ تھے اور پھر دنیا نے عرب بہار کا آغاز اور کرنل قذافی اور حسنی مبارک کے دور کا المناک اختتام دیکھا۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حوالے سے سی آئی اے کی جانب سے فراہم کی گئی من گھڑت اور جھوٹی خفیہ معلومات کی بنیاد پر امریکا نے ایک مرتبہ پھر عراق کو فوجی چڑھائی کے ذریعے صدام حسن کے ظلم سے ’’آزاد‘‘ کرانے کا فیصلہ کیااور نتیجے کے طور پر عراق پر چڑھائی کردی، صدام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر پھانسی پر چڑھا دیا اور عراقی فوج اور تقریبا ہر ادارے کو ختم کردیا، جس سے ملک میں اختیارات کا خلا پیدا ہوگیا۔ سی آئی اے کی جانب سے من گھڑت اور جھوٹی خفیہ معلومات کی بنیاد پر عراق پر امریکا کی چڑھائی سے قبل یہ مصنف صدام حسین کی جانب سے متحدہ عرب امارات میں اپنے سفیر کے ذریعے بے نظیر بھٹو کے توسط سے امریکا کو مشتبہ مقامات کا معائنہ کرانے کی پیشکش کا عینی گواہ ہے۔ امریکا کی جانب سے ایک اور جنگ شروع کرنے کے نتیجے میں دنیا نے اس دہشت کا مشاہدہ کیا جو کچھ عرا ق اور صدام حسین کے ساتھ ہوا؛ بلاشبہ ایک المناک تاریخ، جس نے ختم نہ ہونے والی جنگ کا سلسلہ پیدا کیا اور اس جنگ نے آئی ایس آئی ایس (داعش) کے لئے راستہ پیدا کیا اور عراق پر اس امریکی حملے نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر شیعہ اور سنیوں کے مابین جنگ بھڑکا دی، یہ فلوجہ سے شروع ہوئی اور پورے ملک میں پھیل گئی۔ عراقی فوج کو ختم کرنے سے جس کی اکثریت سنیوں پر مشتمل تھی، سابق فوجیوں میں طاقت کے بنیادی مرکز سے احساس تنہائی پیدا ہوا جس پر انہوں نے داعش سے وابستگی پیدا کرلی اور اس کے کارکنوں نے اپنی ابتدائی تربیت اردن سے حاصل کی اور یہ کھلا راز ہے کہ کس نے آئی ایس آئی ایس کے ان دہشت گردوں کی تربیت کی اور ان کو رقم فراہم کی۔ میں اس کی تفصیلات کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ اس وقت کی امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کا کانگریس کو بریفنگ دیتے ہوئے تفصیلی بیان امریکا کے خطے کے مخالف منصوبوں کو واضح کرتا ہے، جو ایک اور ناکامی ہے کیونکہ اس طرح کی کوشش کے اثرات قابو سے باہر ہوگئے۔انہوں نے کہا تھا کہ ’’یہاں یہ یاد رکھیے کہ ہم جن لوگوں سے لڑ رہے ہیں انہیں ہم نے 20 برس قبل فنڈز فراہم کیے تھے۔۔۔ چلیں ان مجاہدین کو بھرتی کرتے ہیں۔‘‘، ’’اور بہت اچھا، انہیں مشرق وسطی اور دیگر ممالک سے آنے دیں، انہیں اپنی قسم کا اسلام لانے دیں تاکہ ہم اسلام کے نام پر سوویت یونین کو شکست دے سکیں۔‘‘دنیا نے پہلے مجاہدین پھر طالبان اور پھر القاعدہ کو دیکھا۔ امریکا نے عرب ممالک میں کس طرح عرب بہار کا آغاز کیا اور اسے آگے بڑھایا، اس پر احمد بنسادا کی ایک کتاب ’’Arabesques$‘‘ (عرب میں شورشوں پر امریکی کردار کی تحقیقات) میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کے مصنف نے بہت اچھی طرح وضاحت کی ہے کہ امریکی حکومت کا عرب بہار میں انقلابات کو بھڑکانے، فنڈنگ کرنے اور اسے مربوط کرنے میں کیا کردار تھا۔ عرب بہار نے مشرق وسطی کے سیاسی تانے بانے پر شدید اثرات مرتب کیے۔ سی آئی اے اور موساد کے تربیت یافتہ افراد، تربیت یافتہ مخالفین کے ہاتھوں لیبیا کے کرنل قذافی کے قتل نے ملک میں طاقت کا خلا پیدا کردیا۔ ان کے قتل کے چند ماہ بعد ہی شام میں اسد کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں عسکریت پسندوں میں سے کچھ عسکری گروہوں کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔ شام میں جاری طویل خانہ جنگی امریکا کی کاروائی کی ایک اور کہانی ہے اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح مشرق وسطی بشمول ترکی کو اس جنگ میں کھینچ لیا گیا اور ترکی نے بہت نقصان اٹھانے کے بعد اپنی غلطی کا اندازہ لگایا۔ مشرق وسطی میں پیدا کردہ بھک سے اڑجانے والی جغرافیائی و سیاسی صورتحال نے نہ صرف خطے کے استحکام کو متاثر کیا ہے بلکہ پوری دنیا میں اس کی لہریں محسوس کی گئی ہیں۔ صدام حسین اور کرنل قذافی سے اقتدار چھیننے اور شام میں برسوں سے جاری خانہ جنگی نے پوری دنیا میں دہشت گردوں کو پھلنے پھولنے اور اپنی دہشت گرد سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے بنیادیں فراہم کی ہیں اور یہ تربیت یافتہ دہشت گرد دنیا کے لئے مسلسل درد سر بنے رہیں گے۔ سوویت یونین کو روکنے کے لئے افغانستان میں جنگ کرانا اولین ناکامی تھی اور پھر آخرکار طویل جنگ کے بعد باہر نکلنے کے کسی منصوبے کے بغیر خطے کو چھوڑنا ، جس کی وجہ سے طالبان اور دہشت گردی پیدا ہوئی۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں پھر داخل ہونا ایک اور فاش غلطی تھی، جس کی وجہ سے خطہ اب تک مصائب بھگت رہا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ اس میں مزید کتنا وقت لگے گا، مصائب ختم ہوں گے یا چھوٹے پیمانے کی یہ جنگ پورے خطے بشمول ایران اور مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔مغرب سے آنے والے تازہ ترین اشارے بھی مثبت نہیں ہیں اور اس کی وجہ سے نہ ختم ہونے والی ایسی کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے جس سے تیسری عالمی جنگ شروع ہوجائے۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے امریکا کی جانب سے بنائی گئی غیر دانش مندانہ اور بلا سوچی سمجھی حکمت عملیوں کی وجہ سے دیگر اقوام زخمی ہورہی ہیں۔ عالمی برادری کو ان دھرے معیارات پر سوال کرنے کا حق ہے جن کی وجہ سے دنیا غیر محفوظ جگہ بنتی جارہی ہے۔ دنیا نے امریکی سی آئی اے کی ناکامی کا ایک مرتبہ پھر مشاہدہ کیا ہے جب مشرق وسطی میں غیریقینی جغرافیائی و سیاسی صورتحال کے پیدا کی گئی اور القاعدہ کو شام کے خلاف جنگ میں استعمال کیا گیا۔ دنیا اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی اور چھان بین کے باوجود یہ سمجھنے میں ناکام رہی کہ کس طرح داعش، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں بلٹ پروف گاڑیوں کے بیڑوں کے ساتھ ہتھیار اور گولہ بارود حاصل کرتی ہیں اور اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کرتی ہیں۔ تاہم ایک دن کوئی نہ کوئی اندرونی راز سامنے لے کر آئے گا۔ ہم پاکستانی کبھی یہ فراموش نہیں کر سکتے کہ پاکستانی آمر جنرل ضیاء الحق کے ذریعے خطے میں جنگ شروع کرائی جسے عام طور پر سوویت افغان جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا نتیجہ سی آئی اے کی ایک اور ناکامی کی صورت میں نکلا اور بدقسمتی سے ہر مرتبہ سی آئی اے کی ناکامی کی وجہ سے اس خطے کے رہنے والوں زندگی تکلیف دہ ہوگئی جہاں سی آئی اے کو ناکام ہوئی، اس مرتبہ ا س کا نشانہ بننے والے پاکستان میں فاٹا اور افغانستان کے رہنے والے بنے۔ ہمارا فاٹا اب بھی جل رہا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ سی آئی اے نے اپنی ناکامیاں دیکھنے اور پوری طرح بے نقاب ہوجانے کے بعد اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا۔ دنیا نے نہ صرف عراق بلکہ افغانستان میں بھی بلیک واٹر کا مشاہدہ کیا جو امریکا میں پبلک ریکارڈ کا ایک حصہ ہے۔ سی آئی اے کے لئے پرنس ایرک کا کردار اب کوئی راز نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح کے الجھانے کا عمل پاکستان میں افغانستان کے لئے پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے سپلائی کے لئے ٹرانسپورٹیشن کی آر میں کیا گیا جس میں زمینی اور فضائی دونوں روٹ استعمال کیے گئے۔ امریکیوں نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا اور جنرل پرویز مشرف نے اس طرح کی رعایتوں کے بعد میں پیدا ہونے والے اثرات کا اندازہ کیے بغیر امریکا کو آگے بڑھنے کا اشارہ دے دیا۔ سفارتی دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جہاں کنٹریکٹرز نے سیکڑوں کی تعداد میں سفارتی پاسپورٹ استعمال کیےجسے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ختم کیا اور اسلام آباد ایئرپورٹ سے فری ایگزٹ روک دیا۔ نجی کنٹریکٹرز کے ذریعے اپنے خفیہ آپریشنز کے لئے پاکستان میں سفارتی کور کی آڑ میں کام کرنے والے نام نہاد سفارت کاروں کا طریقہ آخرکار پوری دنیا کو اس وقت پتہ چل گیاجب ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری سے پورا آپریشن بے نقاب ہوگیا جو ایک اور لمبی کہانی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے مابین تعلقات ہمیشہ پرخار رہے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر مرتبہ اپنی وفاداری کے جواب میں پاکستان کو ان ناقص تعلقات سے فائدہ ہونے کے بجائے نقصان اٹھانا پڑا۔ مثال کے طور پر پاکستان نے بڈھ بیڑ میں اپنا فضائی مستقر حمایت کی علامت کے طور پر دیا جسے امریکا نے سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین سے ہمارے تعلقات خراب ہوئے۔ پاکستان اپنے مشرقی حصے کو بچانے کے لئے اپنے دفاع کی خاطر امریکا پر بہت زیادہ انحصار کر رہا تھا، جواب میں بدقسمتی سے امریکا کا ساتواں بحری بیڑا 1971 میں پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے کبھی نہیں پہنچا جبکہ بھارت سرحد کی دوسری جانب سے آگے بڑھتا رہا اس کے ساتھ مکتی باہنی کی بھی بھارت پوری طرح مالی امداد کر رہا تھا اور آخر کار پاکستان کے خلاف بھارتی سازش کو یو این او کی ناک کے نیچے مکمل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ تجربات اور حال ہی میںابھرنے والی جاری صورتحال واضح طور پر بتاتی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکا اور پھر دورہ اسرائیل کے بعد پاکستان کے خلاف کچھ کچھڑی پک رہی ہے۔ امریکا کا پاکستان کے لئے حالیہ اور بہت اصرار سے مشورہ یہ ہے کہ بھارت اور افغانستان جو کچھ پاکستان کے خلاف کرتے رہے ہیںیعنی سرحدوں اور ملک کے اندر موت بانٹتے رہے ہیں، اس کو دیکھے بغیر کابل اور نئی دہلی کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے جائیں۔حقانی نیٹ ورک کے لئے بھی ہمیشہ پاکستان پر دباؤ بڑھا یا جاتا ہے جبکہ حقانی قندھار سے آپریٹ کرتے ہیں جو افغانستان کا حصہ ہے اور مزید یہ کہ پاکستان مخالف پوری دہشت گرد قیادت کو نہ صرف تربیت دے کر اس کی حمایت کی جارہی ہے بلکہ پاکستان میں آپریٹ کرنے کے لئے افغانستان اور بھارت انہیں فنڈز بھی دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں امریکا کس طرح پاکستان کو انعام یا سزا دینے کے لئے اس کی حمایت یا مخالفت کرتا ہے۔ امریکا کا پاکستان سے ہمیشہ معمول کا عام مطالبہ ڈو مور کا رہا ہے، خواہ ہم کچھ ہی کیوں نہ کرلیں یا نتیجے کے طور پر پاکستان کو کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے لیکن دوسری جانب بھارت کے لئے امریکا ہمیشہ مزید کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور اسے خصوصی پسندیدہ قوم کا درجہ دے کر فوجی آلات سے لیس کیا جاتا ہے۔ لہذا پاکستان کے عوام کو امریکا کے اس امتیازی سلوک کو سنجیدگی سے لینا ہوگا بصورت دیگر امریکا کی بے مثال حمایت علاقائی مساوات کو غیر متوازن کر سکتی ہے اور اس سے خطے میں مزید کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے جو عالمی امن کے لئے خطرنا ک ثابت ہوگی کیونکہ اگر جنگ ہوتی ہے تو اتنی بڑی تعداد میں دہشت گرد پیدا ہوں گے جس کی کوئی نظیر نہیں ملے گی اور عالمی امن کے لئے خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔ میں امریکا کے صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اوپر بیان کردہ چند حقائق کے پیش نظر جو مسئلے کی ایک معمولی سی جھلک ہے، دیگر ممالک میں نہ ختم ہونے والی سنگین مداخلت کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔آخر میں ، میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے جے آئی ٹی پر مضمون کو پسند کیا۔ سوالات کی ایک بہت طویل فہرست ہے خاص طور پر جے آئی ٹی کی قانونی حیثیت پر، جس کی میںنے مکمل طور پر وضاحت کی ہے اور میں نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت اس کے کردار کی تشریح کی جائے۔ میں اپنی قانونی ضروریات کے مطابق قانون کو بہتر بنانے کے حق میں ہوں۔ بہتری کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔ آپ میرے مندرجہ ذیل ’’رابطے‘‘ کے ذریعے مزید سوالات کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین