• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی قوم کے لئے اتنا بڑا جھٹکا تھا کہ اس پر بحث و تمحیص کے ان گنت دروازے کھل گئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) حالت صدمہ سے نکلنے کے لئے اظہار قوت، عوامی حمایت اور احتجاج کی حکمت عملی وضع کررہی ہے جبکہ حزب مخالف بذات خود اندیشوں میں گھری بیانات جاری کرنے میں مصروف ہے۔ کچھ قارئین نے یاددلایا کہ تم نے دو سال قبل یہ لکھا تھا کہ اب قانون قدرت حرکت میں آئے گا اور پاکستانی سیاست کے تالاب کو صاف کیا جائے گا، لوٹ مار کا حساب لیا جائے گا ا ور بےرحم احتساب کی زد بڑوں بڑوں پہ پڑے گی۔ یقیناً لکھا ہوگا کیونکہ میں یہ بات کئی بار لکھ چکا ہوں کہ جب دنیاوی ادارے اپنی بے بسی کا نمونہ بن جائیں تو پھر قانون قدرت حرکت میں آتا ہے اور دہائیوں کے کارناموں کا حساب لیتا ہے۔ دل کہتا ہے کہ مملکت خداداد میں اب صفائی کا عمل جاری رہے گا اور جس رب کی رضا سے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا وہی اس کی صفائی بھی کرے گا ورنہ ماضی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو خدا کی پناہ۔ یاد کرکے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہوں۔ کیا کرۂ ارض پہ کوئی ایسا ملک ہوگا، اگر ہے تو خدا را نشاندہی کرو ........کہ اس کے منتخب صدر مملکت کے عدالتوں سے فیصلہ شدہ مبینہ چھ کروڑ ڈالر سوئٹرز لینڈ میں پڑے ہوں۔ یہ مبینہ رشوت بروزن کمیشن کمائی کی گئی ہو اور وہ شخص صدر بن کر اپنی لوٹی ہوئی رقم کو بچانے کے لئے اپنا ہی وزیر اعظم قربان کردے۔ فرانس کی آبدوزوں میں اس کی مبینہ چوری ثابت شدہ ہو، عالمی میڈیا اس کی مبینہ دولت کے انباروں کے ذکر سے بھرا پڑا ہو اور وہ اپنے ملک میں تمام عدالتوں سے بری ہوجائے۔ اب وہی شخص اپنی پارٹی کے ساتھ سیاست میں متحرک ہو کر عہدوں پر نظریں جمائے بیٹھا ہو۔ پاکستان کے علاوہ کوئی اور ایسا ملک موجود ہے تو مثال دیجئے۔
میاں نواز شریف مقدر کے سکندر ہیں۔ اقتدار سے رخصتی کی ہیٹ ٹرک مکمل کرچکے۔ پہلے صدارتی اقدام بذریعہ58(2)Bکا نشانہ بنے، پھر فوج سے تصادم کا شکار ہوئے اور اب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے آئین کی شق63/62کا نشانہ بن کر محروم اقتدار ہوئے۔ مطلب یہ کہ پارلیمنٹ کے سوا وہ ہر اعلیٰ ترین ادارے کے ہاتھوں نکالے گئے۔ پارلیمنٹ میں بلاشبہ انہیں مضبوط اکثریت حاصل ہے جو1999میں بھی تھی اور پھر ان کی بڑی تعداد مسلم لیگ(ق) اور دوسرے سیاسی خانوں میں بٹ گئی۔ وہ فوج کا کارنامہ تھا اب کے ایسا بہت کم ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ صرف انصاف کی محافظ ہے، سیاست اور اقتدار سازی سے اس کا تعلق نہیں۔ ہمارا ایک مائنڈ سیٹ بن چکا ہے جسے ہر محروم اقتدار گروہ تقویت دیتا ہے اور اپنی ناکامیوں، نالائقیوںاور اعمال کا بوجھ ان کے خانے میں ڈال دیتا ہے۔کوئی شک نہیں کہ ہماری فوج سیاست میں ملوث رہی ہے، حکومتیں بدلتی اور بناتی رہی ہے لیکن یقین رکھیئے کہ موجودہ صورتحال میں فوج سیاست سے بالکل الگ تھلگ ہے، عدلیہ مکمل طور پر آزاد اور نڈر ہے اس لئے فیصلے آئین کے مطابق ہورہے ہیں جو ظاہر ہے کہ متاثرہ گروہوں کو ناگوار محسوس ہوں گے اور مسلم لیگ (ن) کے لئے ناقابل قبول ہیں۔ اختلاف رائے اور فیصلے کے دامن میں کیڑے ڈالنا آپ کا حق ہے کیونکہ قانونی موشگافیوں کا سمندر لامحدود ہوتا ہے لیکن خدارا عدالتی فیصلوں کے دامن پر سیاسی محرکات کے پیوند لگا کر اسے داغدار نہ کریں۔ عدلیہ کے تقدس کو اپنے ایجنڈوں کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ واہ ایک محترمہ کا دھواں دار جھاگ اڑاتا اعلان کہ ہم فیصلے سے ہیرے و جواہرات نکلنے کی امید رکھتے تھے لیکن اندر سے اقامہ نکل آیا۔ اتنی سادہ وہ بھی نہیں کہ انہیں اقامہ کی حقیقت معلوم نہ ہو اور یہ بھی علم نہ ہو کہ ہیرے جواہرات کے ساتھ جعلی ڈاکومنٹس والے کیسز نیب کے سپرد برائے تحقیق کئے جاچکے ہیں۔ جب قلم یا زبان کے ساتھ پیٹ اور مفادات لگ جائیں تو سچ بولنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ سچ بخشش کا راستہ ہے اور جھوٹ قبر کے ا نگارے لیکن انسان وقتی مفادات کے سحر میں مبتلا ہو کر انجام بھول جاتا ہے۔ پاناما ایک ماہ سے زیادہ ہر فورم پر موضوع بحث بنارہا۔ کسے علم نہیں کہ لاتعداد چیزوں کی نہ وضاحت کی جاسکی، نہ ثبوت مہیا ہوئے اور نہ ہی خاندان کے بیان کردہ تضادات کو ایک نقطے پر یکجا کیا جاسکا۔ تفصیل میں کیا جائوں، ذاتی تعلقات اپنی جگہ، سچ اپنی جگہ۔ تعلقات دنیا کا اثاثہ ہیں اور سچ آخرت کا توشہ ہے۔ ذاتی حوالے سے میں میاں برادران کی دل سے عزت کرتا ہوں، ان سے ایک تعلق رکھتا ہوں لیکن سچ یہ ہے کہ وہ لنڈن فلیٹس سے لے کر دبئی، جدہ تک اور قطری افسانوی خط تک کوئی قابل قبول وضاحت نہیں دے سکے۔ کہتے ہیں حدیبیہ پیپر ملز محترم اسحاق ڈار کا اعترافی بیان اور منی لانڈرنگ کا کچا چھٹا.......یہ سب ٹائم بم ہیں۔ کیا یہ فوج نے ایجاد کئے اور عدلیہ نے گھڑے ہیں۔ یہ سب کاروباری معاملات ہیں جو انہوں نے خودسرانجام دئیے ہیں۔
آج کل ایک لابی اس پروپیگنڈے میں مصروف ہے کہ نیب کو بھیجے گئے مقدمات کی نگرانی سپریم کورٹ کے جج کے حوالے کیوں کی گئی ہے؟ کیا ان لوگوں کو علم نہیں کہ بدقسمتی سے ہمارے حکومتی ادارے ایسے وفاداروں ا ور نمک خواروں سے بھر دئیے گئے ہیں جن سے آزادانہ انکوائری کی توقع ہی عبث ہے۔ جج کی نگرانی کا مقصد محض انصاف کا حصول ہے۔ کیا آپ انصاف نہیں چاہتے ؟ جب بینک آف پنجاب، این آئی سی ایل، حج سیکنڈل اور ای او بی آئی کی انکوائریوں میں سپریم کورٹ نے نگرانی کے لئے جج مقرر کئے تھے تو آپ حصول انصاف کے لئے خوش تھے۔ کیا انصاف کے حصول میں سپریم کورٹ مکمل طور پر آزاد نہیں اور کوئی بھی اقدام کرنے کی مجاز نہیں؟ پھر اب واویلا کیوں؟ فی الحال اس موضوع کو یہیں پر ختم کرتا ہوں۔
دل کہتا ہے کہ جب سرکاری ادارے احتساب کے حوالے سے ناکام ہوچکے ہیں اور ان کا سارا فوکس صرف تجارتی تنظیموں پر ہے۔ وہ کسی صورت بھی طاقتور سیاستدانوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے جبکہ ملک میں کئی دہائیوں سے لوٹ مار کا بے رحم سلسلہ جاری ہے، ملک سے وسائل کو لوٹ کر بیرون ملک مختلف صورتوں میں دولت کے انبار لگادئیے ہیں اور لٹیروں کو باقاعدہ سرکاری سرپرستی حاصل ہے تو بہرحال اب قانون قدرت حرکت میں آئے گا۔ اعلیٰ سطح پر کرپشن کے تالاب کی صفائی کا عمل شروع ہوگا۔ اسے فوج کے کھاتے میں ڈالیں نہ عدلیہ کے فیصلوں کے ساتھ محرکات وابستہ کریں۔ یہ خدائی فیصلہ ہے جو اپنا راستہ خود بنائے گا۔ کالم ختم کرنے سے پہلے ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ کے کالم’’سوئس بینک اکائونٹس تک رسائی روکنا‘‘ کی داد دینا چاہتا ہوں جس میں حکومتی بدنیتی کا پول کھولا گیا ہے۔حکومت تسلیم کرچکی کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کا دو سو ارب ڈالر کے قریب کالا دھن پڑا ہے جسے واپس لانے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ حکومت نے اپنے پسندیدہ حضرات کو اپنا کالا دھن سوئس بینکوں سے دوسری جگہوں پر منتقل کرنے کے لئے کس طرح ایف بی آر کی ٹیم کو سوئٹز ر لینڈ جانے سے روک کر وقت اور موقع مہیا کیا اسے ڈاکٹر صاحب نے بڑے منطقی انداز میں ا یکسپوز کیا ہے۔ یہ ہے تاجرانہ دوستی کا ایک چھوٹا سا واقعہ!!

تازہ ترین