• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل تو چاہتا ہے کہ قومی سیاست پر کچھ نہ لکھوں کیونکہ سیاستدانوں نے ایک دوسر ےکو نیچا دکھانے کے شوق میں پوری سیاست کو گندا کردیا ہے۔ آج ہماری سیاست کا ’’چہرہ‘‘ قابلِ رشک نہیں رہا بلکہ قابلِ ترس بن گیا ہے۔ اسی لئے میں آج احتجاجاً سیاست پر کم لکھوں گا اگرچہ میاں نواز شریف کی ریلی کے چرچے ہیں، وہ ڈی چوک، فیض آباد، مری روڈ، راولپنڈی پھر جی ٹی روڈ سے لاہور جائیں گے۔ پہلے وہ اتوار کو جارہے تھے، اب وہ بدھ کو یعنی کل جائیں گے،کوئی دس مقامات پر نوازشریف کا خطاب ہے، پتا نہیں وہ کس کے خلاف تقریریں کریں گے؟ ماضی میں جتنے بھی مارچ ہوئے ہیں وہ حکومتوں کے خلاف تھے۔ اس میں محترمہ بینظیربھٹو شہید کا لانگ مارچ، بھٹو صاحب کے خلاف تحریکِ نظام مصطفیٰﷺ، ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک، میاں نواز شریف کا ٹرین مارچ، ایم آر ڈی اور اے آر ڈی جیسے اتحاد، اسی طرح قومی اتحاد اور آخرمیں عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری کے دھرنے، جماعت اسلامی کی مختلف تحریکیں، یہ سب کچھ حکومتوںکےخلاف تھا۔ میاں نواز شریف پتا نہیں کس کے خلاف بات کریں گے؟ کس کے خلاف تحریک چلائیں گے؟ کیونکہ پنجاب، مرکز، بلوچستان، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں میاں صاحب کی اپنی حکومتیں ہیں۔ میاں نواز شریف نے جی ٹی روڈ اور بدھ کا انتخاب کیوں کیا؟ میرے پیارے دوست چوہدری شہباز حسین (سابق وفاقی وزیر) کہتے ہیں ’’اگر جی ٹی روڈ پردس منٹ بریک لگا لیں تو پیچھے گاڑیوں کا ہجوم بن جاتا ہے۔ دور تک لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں‘‘ بدھ سے متعلق شاہ صاحب روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں ’’بدھ سیاسی لحاظ سے اتوار سے اچھا ہے۔ بدھ کو تمام اسکول ٹیچرز، محکمہ مال کے اہلکار، خاص طور پر پٹواری حاضر ہوتے ہیں، باقی آپ سمجھدار ہیں‘‘
ویسے تو آج کل مسلم لیگ(ن) کے مختلف رہنمائوں کے بیانات اورتقریریں دیکھ کر مجھے وہ مشرقی عورتیں یاد آجاتی ہیں جو شوہر کا نام نہیں لیتیں بلکہ شوہر کے بارے میں عام طور پر کہتی ہیں ’’وہ گئے ہوئے ہیں، وہ آئے نہیں، انہوں نے آنا تھا، انہوں نے کہا تھا وغیرہ وغیرہ‘‘ خالصتاً مشرقی عورتوں کی طرح مسلم لیگ (ن)کے رہنما کہتے ہیں ’’عوام ووٹ سے حکومت بناتے ہیں، وہ باہر نکال دیتے ہیں، وہ سازش کررہے ہیں، دھرنے کے پیچھے وہ ہیں، یہ سب کچھ انہوں نے کیا ہے، وہ چلنے نہیں دیتے، وغیرہ وغیرہ‘‘
میاں صاحب کو چاہئے کہ وہ دورانِ سفر دو کتابیں اپنے ساتھ رکھیں۔ دونوںکتابیں اسلام آباد کے معروف صحافیوں کی ہیں۔ ایک کتاب مرحوم اظہر سہیل کی ہے۔ اس کتاب کا نام ہے ’’ایجنسیوں کی حکومت‘‘ اس کے ساتھ دوسری کتاب بھی رکھیں ’’زندگی کے سفر میں‘‘ طاہر مغل کی کتاب ہے۔ طاہر مغل کی کتاب بھی خفیہ کرداروں کے حوالے سے اہم ہے۔ اگر کتاب پڑھنا مشکل لگے تو طاہر مغل کو سفر میں ساتھ بٹھایا جاسکتا ہے تاکہ کلامِ شاعر بزبان شاعر سنا جاسکے۔ مجھے اس مرحلے پر اسلم گورداسپوری کی ایک غزل بھی یاد آ رہی ہے جو میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے لگا ہوں۔ اگر میاں نواز شریف سیاسی شاعری سننا چاہیں تو وہ لاہور جا کر اسلم گورداسپوری سے سن لیں۔ جالبؔ کا کلام آج کل میاں صاحب کے بھائی نہیں سنائیں گے۔ فی الحال اسلم گورداسپوری کی تازہ غزل؎
پھرتے ہیں اپنےآپ میں ہم کیا بنے ہوئے
سارے جہاں کا ہم ہیں تماشا بنے ہوئے
جس خطۂ زمیں کا کوئی باغباں نہ ہو
دیکھے ہیں مرغزار بھی صحرا بنے ہوئے
افسوس جتنے عقل کے اندھے یہاں پہ ہیں
وہ قوم کے ہیں دیدۂ بینا بنے ہوئے
بچتا ہے کس طرح تیرا بیمار دیکھئے
سب لوگ ہیں یہاں پہ مسیحا بنے ہوئے
کس درجہ اس زمیں پہ تھا لوگوں میں اختلاط
اک دوسرے کا جب تھے سہارا بنے ہوئے
حد سے زیادہ چاہئے رِندوں کو احتیاط
شیشے کے ہیں یہ ساغر و مینا بنے ہوئے
کیا جانئے کہ لوگ سمجھتے ہیں ہم کو کیا
اپنی طرف سے ہم تو ہیں اچھا بنے ہوئے
وہ جن کی بے وفائی سے برباد ہم ہوئے
وہ ہم سے ہیں وفا کا تقاضا بنے ہوئے
کچھ حادثے تھے جن سے ہوئی زندگی تمام
کچھ سانحے تھے خونِ تمنا بنے ہوئے
تم آج ان کا راستہ روکو گے کس طرح
صدیوں کے ہیں زمیں پہ یہ دریا بنے ہوئے
اسلمؔ یہ دنیا آج تو پیدا نہیں ہوئی
صدیاں گزر گئی ہیں یہ دنیا بنے ہوئے
سمجھداروں کے لئے اسلم گورداسپوری کی اس غزل میں کئی اسباق ہیں، کوئی ایک سبق نہیں۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ صولت رضا اپنی کتاب ’’غیرفوجی کالم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 10ستمبر 2007کو جب جلاوطنی سے نواز شریف لوٹے تو جہاز میں دو شیر تھے یعنی نواز شریف کے ساتھ مصطفیٰ کھر بھی تھے۔ مصطفیٰ کھر کو دیکھ کر ہی اشتہارات میں درج مصرع سمجھ آیا یعنی؎
کس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہا ہے
صولت رضا اپنی یادگار تحریر میںیوں رقمطراز ہیں ’’اسلام آباد ایئرپورٹ سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر 28برس پہلے ایک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ ان کے حامی آج بھی ایک نعرہ ضرور لگاتے ہیں ’’بھٹو ساڈا شیر اے، باقی ہیر پھیر اے‘‘ لیکن جب ان کے شیر کو ’’درجہ ٔ شہادت‘‘ پر فائز کیا جارہا تھا تو سب حامیوں کو سانپ سونگھ گیا۔ یہ سانپ ہر سیاسی جماعت میں چھوڑے جاتے ہیں۔ جماعت کے سربراہ کی آستین میں پرورش پاتے ہیں اوربوقت ضرورت سونگھانے اور ڈنک مارنے کے کام آتے ہیں۔ 10ستمبر 2007کا منظرنامہ 5اپریل 1979سے مختلف نہیں تھا۔ اب پی پی کے جیالے تماشائی تھے اور چند گنے چنے لیگی متوالے ’’شیرآیا، شیر آیا‘‘ کی آوازیں لگا کر رَن کے کانپنے کا انتظار کر رہے تھے‘‘ صورتحال کو سمجھنے کے لئے یہ ایک پرانا واقعہ ہی کافی ہے اور سمجھدار تو صرف اشارے کے منتظر ہوتے ہیں کہ ؎
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

تازہ ترین