• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تخلیق کار بھی عجیب مخلوق ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں ماضی، حال اور مستقبل سب ایک ہو جاتے ہیں۔ ان کی تخلیق کسی زمانے یا کسی مکان کی پابند نہیں رہتی۔ اب منیر نیازی کو ہی لے لیجئے۔ اس کا یہ شعر ہمیں آج کل بہت یاد آ رہا ہے۔ یہ شعر کب کہا گیا تھا؟ کیوں کہا گیا تھا؟ فلم کے لئے کہا گیا تھا یا تخلیقی وفور میں کہا گیا تھا؟ ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن آج کل ہماری جو صورت حال ہے اس پر یہ شعر پورا صادق آتا ہے۔
کیسے کیسے لوگ ہمارے دل کو جلانے آ جاتے ہیں
اپنے اپنے غم کے فسانے ہمیں سنانے آ جاتے ہیں
ابھی پاناما کا ہنگامہ دم لینے نہ پایا تھا کہ عائشہ گلالئی ہماری نیندیں اڑانے آ گئیں۔ اب ہم کس کی بات مانیں؟ گلالئی اپنا رونا روتی ہیں تو ہمیں ان سے ہمدردی ہو جاتی ہے۔ عمران خاں کے متوالے جب اپنی بات کرتے ہیں تو ہم ڈھلمل ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ابھی عائشہ گلالئی کی کہانی کسی خاتمے کے قریب نہیں پہنچی تھی کہ بیچ میں کچھ اور خواتین بھی اپنے دکھڑے سنانے آ پہنچیں۔ اب تو لگتا ہے کہ مقابلہ ہو گیا ہے کہ کس کی خواتین زیادہ مظلوم ہیں۔ ویسے ہماری خواتین ہیں تو مظلوم۔ کسی نے کیا اچھی بات کی ہے کہ یہ خواتین جن کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے ہمارے یہاں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں اقلیت میں ہیں۔ صرف گلالئی کی بات ہی کر لیجئے۔ ادھر اس نے اپنا دکھڑا رویا اور ادھر سوشل میڈیا پر اس کے خلاف وہ طوفان بدتمیزی اٹھایا گیا کہ خدا کی پناہ۔ اس کی بہن تک کو معاف نہیں کیا گیا۔ وہ غریب تو اسکواش کے کھیل میں پاکستان کا نام روشن کر رہی ہے۔ اور ہماری طرح وہ بھی آج کل کینیڈا میں ہے۔ آپ کو اس کا لباس یاد آ گیا لیکن اس شورا شوری میں کم سے کم یہ تو ہوا کہ ہمیں معلوم ہو گیا کہ ماریا تور پکئی صرف اسکواش کی اچھی کھلاڑی ہی نہیں ہے بلکہ بہت اچھی مقرر بھی ہے۔ ہم سب کو سلیم صافی کا احسان مند ہونا چاہئے کہ انہوں نے پاکستان کی ایک انتہائی باصلاحیت لڑکی کو ہم سے متعارف کرا دیا۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ لڑکی اسکواش میں کیا کارنامے انجام دیتی ہے لیکن اس کی جو تقریر سلیم صافی نے ہمیں سنوائی اسے دیکھ کر اور سن کر ہم تو مسحور ہو گئے۔ سبحان اللہ ایسے نابغۂ رو زگار بچے بھی ہماری قوم میں موجود ہیں؟ کیا طلاقت لسانی ہے۔ نہایت مہارت کے ساتھ اس لڑکی نے اپنی زندگی پر روشنی ڈالی۔ اور پھر اس نے ہماری سیاسی اور سماجی صورت حال کا جو تجزیہ کیا، ہم تو اس کی تقریر سن رہے تھے اور عش عش کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ ہماری پختون برادری میں ایک ملالہ ہی نہیں ہے بلکہ اور بھی لڑکیاں ہیں جو دنیا بھر میں اپنے ملک اور اپنی قوم کا نام روشن کر رہی ہیں۔ ملالہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے فاونڈیشن بنائی ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ دنیا بھر کی لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کام کر رہی ہے۔ اب ماریا تور پکئی نے بھی فائونڈیشن بنا لی ہے۔ اور وہ بھی اپنے طور پر خدمت کر رہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ پختونخوا میں تور پکئی لڑکیوں کا بہت ہی پسندیدہ نام ہے۔ ملالہ کی ماں کا نام بھی تور پکئی ہے۔
اب ہمارے ٹی وی چینلز کو عائشہ گلالئی کا پیچھا چھوڑ دینا چاہئے۔ اس کے انٹرویو اور اس سے بات چیت بہت ہو گئی۔ اب پارلیمنٹ کی کمیٹی کو اپنا کام کر نے دیجئے۔ ٹیلی وژن والوں کے اپنے قول کے مطابق اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ لیکن یہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی تو اس وقت ہو گا جب عمران خاں ایسا ہو نے دیں گے۔ انہوں نے تو اس کمیٹی پر ہی اعتراض کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس کمیٹی میں حکومت کے تیرہ اور حزب اختلاف کے آٹھ ارکان کیوں ہیں؟ یہ ارکان برابر برابر کیوں نہیں ہیں؟ ان کا اعتراض تو یہ ہے۔ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ یہ کمیٹی ہے یا پوری پارلیمنٹ؟ اتنی لمبی چوڑی کمیٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ زیادہ سے زیادہ دس بارہ ارکان کی کمیٹی بنالی جاتی۔ گلالئی اپنے ثبوت پیش کرتی اور عمران خاں اپنے ثبوت؟ معاملہ طے ہو جاتا۔ اب اتنی بھاری بھرکم کمیٹی میں تو شہد کی مکھیاں ہی بھن بھنا رہی ہوں گی۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا کہ کس نے کیا کہا۔ خیر، یہ جھگڑا جلد طے ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی کھوئی ہوئی نیندیں بھی تو پوری کرنا ہیں لیکن ابھی ابھی ہمیں خیال آیا کہ کہ کیا عمران خاں اس کمیٹی کے سامنے پیش ہو جائیں گے؟ وہ تو پارلیمنٹ کو ہی نہیں مانتے۔ پارلیمنٹ سے تنخواہ تو بلاناغہ وصول کرتے ہیں مگر اسمبلی کے اجلاس میں تشریف لانا اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر وہ اپنے امیدوار کو ووٹ ڈالنے بھی تشریف نہیں لائے۔ اصل میں وہ اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے دوسرے حقیر فقیر ارکان کے مقابلے میں اتنا بلند اور اتنا اعلیٰ سمجھتے ہیں کہ ان کے درمیاں بیٹھنا بھی انہیں گوارا نہیں ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہیں یا نہیں۔ ابھی تو ان کی طرف سے کمیٹی کے ارکان کی تعداد پر ہی اعتراض جاری ہے۔ یہ کالم چھپنے تک کیا ہو گا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ہماری نیندیں اڑانے کے لئے ہی میاں نواز شریف نے اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کے راستے لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور عمران خاں اور ان کے متوالوں نے اس پر بھی شور مچانا شروع کر دیا ہے۔ بھائی، عدالت نے نواز شریف کو وزیراعظم بننے سے نا اہل قرار دیا ہے، جلسے جلوس کے ذریعے اپنے عوام تک جانے سے تو نہیں روکا۔ یہ ان کا آئینی اور قانونی حق ہے کہ وہ جس طرح چاہیں لاہور تک جائیں۔ اب اگر وہ اپنی تقریروں میں کوئی ایسی بات کرتے ہیں جو عدالت یا مقتدر حلقوں کو ناگوار گزرے تو عدالت جانے یا وہ مقتدر حلقے۔ یوں بھی عدالت کا فیصلہ آ جانے کے بعد اس پر بات چیت کرنا سب کا حق ہے۔ اور ہاں، ہماری نیندیں اڑانے کو ابھی نیب کا دروازہ بھی تو کھلا ہے۔ نیب میں ریفرنس دائر ہوں گے۔ پھر یہ سارا معاملہ احتساب عدالت میں جائے گا۔ عشق کے امتحان ابھی ختم نہیں ہوئے۔ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ اسی لئے آج کل ہم منیر نیازی کے شعر کے ساتھ ہندوستان کے منفرد شاعر فرحت احساس کا یہ شعر بھی پڑھتے رہتے ہیں۔
میں رونا چاہتا ہوں، خوب رونا چاہتا ہوں میں
اور اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں میں

تازہ ترین