• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت کئی طرح کے اندرونی بحرانوں اور بیرونی خطرات سے دو چار ہے۔ داخلی محاذ پر دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی کہ ملک کو سیاسی عدم استحکام نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ اقتصادی ترقی کی شرح بہتر ہونے لگی تھی کہ پانامہ لیکس سامنے آگیا جس کی بنا پر ایک منتخب وزیراعظم کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور تحقیقی اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت کی قبل از وقت تبدیلی کے اثرات معیشت پر بھی پڑیں گے جس سے شرح نمو رک سکتی ہے۔ سٹاک مارکیٹ پہلے ہی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو چکی ہے۔ روپے کی قدر گر رہی ہے۔ سیاسی انتشار بڑھ رہا ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اس حوالے سے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان خود نشاندہی کر چکے ہیں کہ ملک ایسے خطرے سے دوچار ہے جس کا علم صرف انہیں، سابق وزیراعظم نواز شریف اور دو فوجی شخصیات کو ہے۔ انہوں نے اس خطرے کی وضاحت نہیں کی لیکن اہل نظر اس کے ڈانڈے ملکی سلامتی سے جوڑنے میں حق بجانب ہوں گے کیونکہ ہمارے ارد گرد کے حالات روز بروز بگڑ رہے ہیں۔ کشمیر کی کنٹرول لائن پر بھارت کی جارحانہ سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے، پچھلے ایک سال میں بھارتی فوج سیز فائر کی 319خلاف ورزیاں کر چکی ہے جس سے آزاد کشمیر کے درجنوں شہری شہید ہو گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے نہتے کشمیری عوام پر ظلم کی انتہا کردی ہے۔ پیر کو سرچ آپریشن کی آڑ میں ضلع کپواڑہ اور پلوامہ میں مزید چھ کشمیری شہید کردیئے گئے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھارت کھلے بندوں افغان سرزمین استعمال کر رہا ہے اور امریکہ بھی پاکستان سے جو تھوڑی بہت ہمدردی رکھتا تھا اس سے بڑی حد تک دست کش ہو چکا ہے۔ سی پیک کا منصوبہ ناکام بنانے کے لیے بھارت کی خفیہ ایجنسیاں پوری طرح سرگرم ہیں اور انہیں افغانستان کی ایجنسی این ایس ڈی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان میں حکومت، اداروں اور عوام کی سطح پر مکمل اتحاد و یک جہتی اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں وزیر دفاع خرم دستگیر کا یہ اعلان کہ اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ملکی دفاع کو مضبوط تر بنانے کی غرض سے تمام وسائل استعمال کئے جائیں گے، بہت حوصلہ افزا اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ادھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کور کمانڈرز کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ملکی سلامتی و دفاع کے لیے پاک فوج کا عزم بے مثال ہے، نیز یہ کہ فوج آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ملکی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہے گی، ملک کے استحکام کے حوالے سے قوم کے لیے نہایت مثبت پیغام ہے۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں ملکی و علاقائی سلامتی کی صورت حال، افغانستان میں بدامنی، لائن آف کنٹرول پر بھارتی اشتعال انگیزیوں اور اپریشن ردالفساد کے علاوہ آپریشن خیبر فور پر پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور آرمی چیف نے امید ظاہر کی کہ مسلح افواج کی کوششوں کے نتیجے میں ملک جلد امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا۔ آرمی چیف کی جانب سے آئین و قانون کی عملداری کے لیے تمام ملکی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم نہایت خوش آئند ہے۔ بلاشبہ آئین ملک کی بقا خوشحالی اور استحکام کا ضامن ہے اور عوام کی منتخب پارلیمنٹ پاکستان کے داخلی و خارجی استحکام اور قانون کی حکمرانی کی علامت ہے اور آئین کی پاسداری بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ موجودہ ملکی صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پارلیمنٹ اور ملک کے تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنانا چاہئے۔ سیاسی گرما گرمی کے موجودہ ماحول میں سیاسی پارٹیوں اور قومی قائدین کو بھی آئینی قانونی اوراخلاقی حدود کا سختی سے خیال رکھنا چاہئے اور قومی مفاد میں عوام کو انتشار اور افتراق سے بچنے اور اتحاد و اتفاق کا راستہ دکھانا چاہئے۔

تازہ ترین