• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لڑکپن میں شفیق الرحمٰن کا افسانہ ’’ڈینیوب‘‘ پڑھا تھا، افسانہ کیا تھا ایک خواب انگیز داستان تھی، شفیق الرحمٰن نے ویانا کی رومان پرور فضاؤں کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا کہ دیکھے بغیر اس شہر سے محبت ہو گئی۔ ان دیکھی محبت خطرناک ہوتی ہے، امیدوں پر پوری نہ اترے تو انسان بہت مایوس ہوتا ہے، ایسی ان دیکھی محبت دل میں لئے ہم میونخ سے ویانا پہنچے۔ شہر کو دیکھنے کے بعد میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ اگر دنیا میں روم کی ٹکر کا کوئی دوسرا شہر ہو سکتا ہے تو وہ ویانا ہے۔ روم کی طرح ویانا بھی دو دن یا ایک ہفتے کا شہر نہیں، اِس شہر کو دیکھنے کے لئے دو تین ہفتے چاہئیں، میں تین دن ویانا میں رہا مگر اس بے پناہ خوبصورت شہر کے حسن کی چند جھلکیاں ہی سمیٹ سکا۔ اگر آپ تاریخ کے کسی موضوع پر کتاب لکھ رہے ہیں تو ویانا آجائیں، اگر فن تعمیر پر تحقیق فرما رہے ہیں تو ویانا کی عمارات دیکھ لیں، اگر نفسیات دان بننے کا ارادہ ہے تو سگمنڈ فرائیڈ کا میوزیم حاضر ہے، اگر جرائم سے رغبت ہے تو یہاں میوزیم آف کرمنالوجی کی سیر کیجئے، اگر موسیقی پر ریسرچ کرنے کا ارادہ ہے تو بھی ویانا سے بہتر کوئی جگہ نہیں اور اگر پرانی شادی کو نئی بنانے کا اعادہ کیا ہے تو ویانا کا سفر کریں، شادی تو کیا شادی سے پہلے کے جذبات واپس آجائیں گے۔
ویانا کی عمارات اس شہر کا خاصا ہیں، اِن عمارات کا آرکیٹکچر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، بلند و بالا عمارتوں کی شہر میں اجازت نہیں، سب سے پرشکوہ عمارت پارلیمنٹ کی ہے، جمہوریت کا تصور اِن کے ہاں بھی یونانیوں سے آیا جس کی نشانی کے طور پہ انہوں نے یہاں مجسمہ بھی گاڑ رکھا ہے۔ ایسے مجسمے ہمیں یہاں جا بجا ملتے ہیں، ویانا کے ایک مئیر کا مجسمہ بھی شہر میں نصب ہے، اسے ایک فرشتے کی شکل دی گئی ہے، یہ فرشتہ نما انسان تین سو سال پہلے یہاں کا میئر تھا جب شہر میں ایک ایسی وبا پھیل گئی جس سے پے درپے ہلاکتیں ہونے لگیں اور لوگوں کی بڑی تعداد شہر چھوڑ کر جانے لگی، مئیر نے افراتفری کے اس عالم میں شہر سے جانے سے انکار کردیا اور اُس وبا کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ فرشتہ صفت میئر کے ایک اور کام نے بڑی شہرت پائی جب دو لاکھ ترک فوج نے شہر کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو یہ میئر پوری جوانمردی سے نہ صرف شہر میں موجود رہا بلکہ اپنے شہر اور لوگوں کا دفاع کیا مگر بدقسمتی سے یہ آزادی ملنے سے صرف دو دن پہلے وفات پا گیا۔ انیسویں صدی میں جب یہاں نازی افواج کا قبضہ ہوا تو انہوں نے لوگوں کو یہاں سے اکٹھا کر کے Concentration Campمیں بھیجا اور پھر وہاں انہیں بے دردی سے قتل کر دیا۔ یہ بدترین خوں ریزی بھی اس خوبصورت شہر کی قسمت میں لکھی تھی، یقین نہیں آتا کہ یہ وہی شہر ہے جس میں نازی فوجوں نے مارچ کرکے قبضہ کیا تھا، اُس وقت اس شہر کے کیا مناظر ہوں گے، یہ سوچ کر روح کانپ جاتی ہے لیکن آج کے ویانا کو دیکھ کر کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ یہاں کبھی انسانیت کی بربادی سے بھرپور ایکشن فلم بھی چلی ہو گی۔
دریائے ڈینیوب شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے، کچھ تھکا تھکا سا لگا، بہت غور کرنے پر معلوم ہوا کہ دریا ہے ورنہ میں تو اسے لاہور کی نہر ہی سمجھتا رہا۔ ایک وقت تھا جب یہ خونی دریا کے نام سے مشہور تھا، جس طرح لاہور کی نہر ہر سال ایک بندہ لیتی ہے، یہ دریا ہر سال کئی لوگوں کی جان لے جاتا تھا، یہ بپھرا ہوا دریا تھا لیکن پھر اس پر بند باندھ کر قابو کیا گیا، اب اس کی حیثیت ایک نہر کی ہے، اپنی حدود سے تجاوز کرنے والا دریا اب قانون کے دائرے میں ہے اور اس کے گرد آئین کے باندھے ہوئے مضبوط بند اسے عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ ڈالنے نہیں دیتے۔ ڈینیوب کے کنارے ایک جنگل ہوا کرتا تھا جہاں جھاڑیاں اور خودرو پودے تھے لیکن پھر اسے ایک بہت بڑے باغ میں بدل دیا گیا، اب اس باغ میں میوزک کنسرٹس ہوتے عالیشان تقریبات ہوتی اور اس میں واقع پر شکوہ محل میں بادشاہ نہیں رہتے بلکہ اب یہ گزشتہ پانچ سو برس سے ’بوائز کوائر‘ کے تصرف میں ہے جو یہاں ہر اتوار کو اپنے گانے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پانچ، سات سو سال کی تاریخی عمارت تو یہاں معمول کی بات ہے، چپے چپے پر ایسی عمارتیں موجود ہیں، اکثر ان پر ہلکے سبز رنگ کا گنبد دکھائی دیتا ہے جو قدیم آرکیٹکچر کی نشانی ہے، ایک عجیب سا جاہ وجلال ان عمارتو ں میں جھلکتا ہے، یورپ کا تاریخی ورثہ روم کے بعد اگر کسی شہر میں اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہے تو وہ ویانا ہے۔ Karlsplatzکا علاقہ شہر کی جان ہے، مرکزی اوپرا ہاؤس بھی یہیں ہے اور ارد گرد گرجا گھر، شاپنگ سنٹرز، میوزیم اور تاریخی عمارات ہیں، شہر کے کسی بھی کونے میں جانے والی بس، ٹرین یا ٹرام آپ کو یہاں سے مل جائے گی۔ بیسیوں مقامات میں سے اگر آپ نے کوئی ایک جگہ یہاں سیر کے لئے چننی ہوں تو وہ سینٹ اسٹفین کیتھڈرل کے اردگرد کا علاقہ ہے جہاں ہزارو ں سیاح گھومتے نظر آتے ہیں، پیرس کی شانزے لیزے کی نسبت یہ علاقہ کہیں زیادہ خوبصورت اور بارونق ہے۔ سینٹ اسٹفین چرچ بھی دیکھنے کی چیز ہے، اس کے بلند و بالا مینار پر ایسا باریک کام ہے کہ دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ بارھویں صدی کے ہنر مندوں کا کارنامہ ہے، اسی سے ملتا جلتا Votiveچرچ بھی یہاں سے کچھ پرے واقع ہے فرق یہ ہے کہ اس کے دو مینار ہیں، یہ دونوں گرجا گھر ویانا کا signature viewہیں۔
ویانا میں حاصل سفر سگمنڈ فرائیڈ میوزیم کی سیر تھی۔ بنیادی طور پر یہ میوزیم سگمنڈ فرائیڈ کا اپارٹمنٹ تھا، یہیں پر اس کا کلینک اور آفس تھا جو تقریباً چار سو مربع میٹر کا فلیٹ تھا لیکن اب اسے میوزیم کی شکل دے دی گئی ہے۔ Berggasse 19اس جگہ کا پتا تھا اور باہر ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ نام کی تختی اب بھی لگی ہے،1891سے لے کر 1931تک فرائیڈ اپنے چھ بچوں، سالی اور بیوی کے ساتھ یہاں رہائش پذیر رہا۔ میوزیم میں داخل ہوتے ہی ہمارے ہاتھ میں ایک ٹرانسمیٹر تھما دیا گیا اور بتایا گیا کہ ہر کمرے میں جانے سے پہلے اس کمرے کا نمبر ٹرانسمیٹر پر دبا کر کمنٹری سنیں، اس سہولت سے ہی ہمیں علم ہوا کہ وہ کون سا کمرہ تھا جہاں فرائیڈ مریضوں کا معائنہ کرتا تھا، ان کا نفسیاتی تجزیہ کرتا تھا، ان کو ہپناٹائز کرتا تھا اور لکھنے لکھانے کا کمرہ کون سا تھا۔ میوزیم میں فرائیڈ سے وابستہ تمام چیزیں نہایت احتیاط کے ساتھ محفوظ کی گئی ہیں، فرائیڈ کی میز، کرسی، اس کا صندوق، اس کی کتابیں، ہیٹ، چھڑی، ہینگر، قالین، نوٹس، خطوط، غرض ہر چیز یہاں محفوظ ہے، حتیٰ کہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیسے وہ نیم دراز ہو کر ایک مشکل پوز میں لکھتا تھا اور سگریٹ نوشی کا اس قدر عادی تھا کہ اس کے بغیر لکھنا محال تھا۔ فرائیڈ کے مشہور اقوال بھی یہاں میوزیم کی دیواروں پر درج ہیں اور فرائیڈ کے دوستوں کی تصاویر بھی یہاں محفوظ کی گئی ہیں، ان میں آئن اسٹائن کی تصویر بھی ہے، اس کے علاوہ اس زمانے کے جتنے بھی دانشور اور سائنسدان تھے اور سگمنڈ فرائیڈ کا علمی حلقہ جو اُس وقت اپنے عروج پر تھا، اس کا ریکارڈ میوزیم میں موجود ہے۔ یہ لوگ سیاحوں سے اپنے تاریخی ورثے کی پوری قیمت وصول کرتے ہیں، سو سال پرانی اینٹ کو بھی یوں پیش کرتے ہیں گویا سونے کی اینٹ ہو۔ فرائیڈ کو اپنے زمانے میں ہی عروج مل گیا تھا اور اس کی پریکٹس زوروں پر تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ویانا پر نازی جرمنی کا قبضہ ہوا تو فرائیڈ کو ’’گستاپو‘‘ کودو لاکھ یورو (آج کے حساب سے) دے کر فرار ہونا پڑا اور وہ سیاسی پناہ کے لیے لندن چلا گیا۔ ہر میوزیم کی طرح یہاں بھی ایک سووینئر شاپ موجود ہے جہاں سگمنڈ فرائیڈ پر لکھی گئی کتابوں کی ایک چھوٹی سی کلیکشن موجود ہے، گفٹ شاپ ہے جہاں چھوٹی چھوٹی چیزیں فرائیڈ کے نام کے ساتھ بک رہی ہیں، الغرض سگمنڈ فرائیڈ کی پوری مارکیٹنگ کی گئی ہے کہ اس صدی کے سب سے بڑے نفسیات دان کا کلینک ویانا میں ہے۔ اس گھر کو میوزیم میں تبدیل کرکے جس طرح سگمنڈ فرائیڈ کی ایک ایک چیز محفوظ کی گئی ہے وہ قابل رشک ہے، اپنے عظیم نفسیات دان کو خراج تحسین پیش کرنے کا اس سے عمدہ طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا۔
میں تین دن ویانا میں رہا مگر یوں لگتا ہے جیسے میں نے اس شہر کی سیر نہیں کی بلکہ وہ ایک خواب تھا جو میں نے دیکھا۔ ایک ایسا حسین خواب جسے بار بار دیکھنے کی خواہش ہے۔

تازہ ترین