• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنی نصیب میں، ’’کیا راج کرے گی خلقِ خدا؟ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو؟‘‘۔ کل جس کا ڈر تھا، آج ہو چکا۔ وائے نصیب، وطنی سیاسی عدم استحکام کا مستحکم آغاز ہی تو ہے۔ سالوں سے لکھ رہا ہوں۔ افراتفری، انارکی، باہمی تصادم پاکستان کی ترقی کا راستہ معدوم اور قوم کو تقسیم رکھے گا۔ جو کام فرقہ واریت، قومیتی افراط وتفریظ نہ کر سکی، PTIاور PMLNباہمی ٹکرائو اور تصادم نے کر دکھایا۔ 20کروڑ عوام اور اشرافیہ تو 62/63کے پل صراط سے بآسانی گزر چکی، مفلوک الحال وزیراعظم نااہل قرار پائے۔ خدشہ، نظام کی نااہلی منسلک رہے گی۔ کیا نواز شریف کی ’’گھر واپسی‘‘ کا سفر گیم چینجر ہو سکتا ہے؟ عمران خان کو یقین دلاتا ہوں، ’’نواز شریف کا واپسی سفر‘‘، جمہوریت ڈی ریل نہیں ہو گی، مستحکم کر جائے گا۔ اگر سول نافرمانی، جلائو گھیرائو، لاک ڈائون جمہوریت ڈی ریل نہ کر پائے تو عوام کے اندر سے گزرتے ’’واپسی کے سفر‘‘ نے تریاق ثابت ہونا ہے۔ فرموداتِ عمران، ’’ہمارا کام الزام لگانا، بے گناہی ثابت کرنا نواز شریف کی ذمہ داری، آخری خبر، ’’جس نے میرے پر الزام لگائے بارِ ثبوت اسی پر‘‘ ’’نواز شریف نااہل ہو گا، گارنٹی دیتا ہوں عوام میں جا کر دکھائے لعن طعن اور ملامت رہے گی‘‘، یوٹرن، اُدھر نواز شریف نے بلف کال کیا اِدھر تلملاہٹ دیدنی، ’’نواز شریف عوام میں کیوں جا رہے ہیں، سپریم کورٹ اور فوج کے خلاف کس کے اشارے پر سازش کر رہے ہیں‘‘۔
عمران خان کی زندگی مجموعہ تضادات بن چکی۔ مختصر سیاسی زندگی کا تجزیہ کریں، دو خصوصیات آج طرہ امتیاز ہیں، بیک وقت اسٹیبلشمنٹ اور بین الاقوامی ایجنسیوں کا مہرہ بننے کی اہلیت اور یوٹرن کی صلاحیت۔ بدقسمتی کہ پچھلے کئی سالوں سے جھوٹ نے ایسی آماجگاہ بنائی کہ سچ دربدر ہو چکا۔ عمران خان کی شخصیت کے روپ بہروپ سے کماحقہ واقف، ذاتی زندگی کو ’’نوگو‘‘ بنا رکھا ہے۔ سیاسی حکمت عملی، نظریاتی تضادات، مفاداتی سیاست پر تجزیہ کرنا، سیاسی زائچہ بنانا پیشہ بن چکا ہے۔ بمطابق استطاعت کھل کر اظہار خیال کرتا ہوں۔
عائشہ گلالئی سے غرض نہیں، داستان پیچ وخم پر فقط ایک تبصرہ، عائشہ گلالئی کو میدان میں اتارنے والے وہی مہربان ہی تو ہیں، جنہوں نے پاناما لیکس کے اوپر عمران خان کو طرح مصرع سے نوازا۔ جس حکمت عملی نے نواز شریف کو بلندیوں سے گرایا، اسی حکمت عملی کے تحت عمران خان کی کمزور اخلاقی و سیاسی حیثیت نے راکھ کا ڈھیر بننا ہے۔
’’نواز شریف کا جی ٹی روڈ کا سفر‘‘، فیصلہ سیاسی زندگی کے فیصلوں میں سرفہرست رہے گا، تاریخ رقم ہونے کو ہے۔ 10ہزار ریال، ’’ناوصول شدہ‘‘ تنخواہ اثاثہ قرار پائی،تادمِ زندگی زیرِ بحث دیکھتا ہوں۔ پونے دو کروڑ ووٹ یقیناً نواز شریف کا وہ اثاثہ جو اداروں کی نظروں سے اوجھل رہا، نواز شریف بھلا اپنے اثاثے کو کیوں نہ پھرولیں؟ وگرنہ عاقبت نااندیشی کہلائے گا۔ سسٹم کو لپیٹنے کے خدشات اور خطرات سے نبٹنے، مزاحمت کرنے کی، اس سے بہتر کوئی دوسری حکمت عملی ہو ہی نہیں سکتی۔ نواز شریف کو یہ ثابت کرنا ہے کہ عوامی قوت پشت پر موجود ہے، فیصلے پر عوام ناراض ہیں۔ بخیریت لاہور پہنچنے کی صورت میں اگلے ہفتے پشاور جانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ امابعد دو ہفتے بعد شاید ملتان۔ ابھی سے مخالفین کا دل دہل رہا ہے، چند ہفتے بعد حرکت قلب بند ہونے کی نوید ملنی ہے۔ نواز شریف کی ہلچل نے ہلچل مچانی ہے۔ خاطر جمع ہلچل نے مخالف مقدمات کی ترسیل و ترتیب میں بھی تیزی و تندی لانی ہے۔ شریف فیملی پر کوئی ایسا کیس نہیں کہ پھانسی مل سکے۔ نااہلی یا زیادہ سے زیادہ جیل دونوں صورتوں نے سازشیوں کی، نیندیں مزید حرام کرنی ہیں۔
شیخ رشید کو نوجوانی سے جانتا ہوں، اوائل عمر سے دروغ گوئی اور سستی شہرت کے حصول نے اخلاق اپاہج کر رکھا ہے۔ دو دن پہلے نجی ٹی وی پروگرام میں حسب معمول خُبثِ درون دکھایا تو جھوٹ کے پُل باندھ گئے۔ جی ٹی روڈ پر نواز شریف کے سفر کا سہرا مجیب الرحمٰن شامی، رانا جواد، امتیاز عالم اور ناچیز کے سر باندھنے کی تگ و دو میں حسب عادت بہتان لگانا نہ بھولے۔ ’’ان چار افراد نے نواز شریف کو گھیرائو، جلائو پر اکسایا‘‘۔ اپنی تو گواہی نقدپیش ہے، خدا کو حاضر ناظر جان کر اقرار کرتا ہوں کہ شیخ رشید کی طرح نہیں ہوں۔ آدھی رات میں مقصد براری کی لطافت، شیخ صاحب کی شاید پرانی عادت ہے، آج بھی جان نہیں چھڑا پائے۔ فیصلہ آنے سے پہلے بھی اپنے کالموں اور تجزیوں میں میری یہی رائے تھی کہ نواز شریف کو جی ٹی روڈ سے ہی آنا ہو گا۔ بروز ہفتہ نواز شریف نے جب میڈیا ہائوسز کے سینئر متعلقین اور ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے درجنوں میڈیا حضرات کو مدعو کیا تو مجھے دعوت ایک گھنٹہ پہلے ملی۔ سوئے اتفاق ڈاکٹر طاہر امین کی بیمار پرسی کے سلسلے میں اسلام آباد موجود تھا، شرکت کو اعزاز جانا۔ پچھلے 35سالوں میں میاں نواز شریف سے شاید میرا چوتھا آمنا سامنا تھا۔ آغاز میٹنگ میں نواز شریف نے بذریعہ موٹر وے لاہور جانے کے پروگرام کی تفصیل و فوائد بتائے۔ مزید بتایا ’’سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل ہوگا گو تسلیم کرنے میں تحفظات ہیں کہ انصاف نہیں ملا مزید بھرپور سیاست کروں گا، خلق خدا کے پاس جائوں گا‘‘۔ لاہور واپسی براستہ موٹر وے کے تصور سے ہی مجھے چڑ تھی، تن کر کہا کہ آپ موٹر وے سے لاہور جاکر اپنی سیاست اور لوگوں کی تمنائوں کو نقصان پہنچائیں گے، جی ٹی روڈ کے علاوہ جو روٹ بھی لیا، سیاسی طور پر غیر موثر رہے گا۔ بعد ازاں رانا جواد، امتیاز عالم، مجیب الرحمان شامی اور کئی دیگر اصحاب نے بھی جی ٹی روڈ کے حق میں رائے دی۔ امتیاز عالم نے یہ ضرور کہا کہ ’’میاں صاحب! آپ کو جونیجو کی طرز، صراحت کردہ شرائط پر سیاست کو استوار نہیں کرنا، مزاحمت کرنی ہے تب ہی سسٹم بچ پائے گا‘‘۔ امتیاز عالم کی کسی بات میں بھی لاقانونیت کا شائبہ نہ تھا۔ اپنی اپنی سیاسی سمجھ بوجھ کے مطابق سیاسی حکمت عملی بارے تجاویز دی گئیں۔ اس سے پہلے مسلم لیگ پارٹی مری میں لمبی بحث اور غور و خوض کے بعد طے کر چکی تھی کہ میاں صاحب بروز اتوار بذریعہ موٹر وے لاہور پہنچیں گے۔ بظاہر تبدیلی مشکل، پارٹی سرجوڑ کر دوبارہ غور و غوض، بالآخر پروگرام تبدیل ہوا۔ شیخ صاحب! جی ٹی روڈ سفر کی اتنی ہی داستان، جناب نے زیب داستان کے لئے سفید جھوٹ کیوں بولا؟ گھیرائو، جلائو، مارو مر جائو کا اشارۃً کنایۃً ذکر کہیں بھی نہیں تھا۔ گھیرائو، جلائو، لاک ڈائون، مارو مر جائو تب کرتے ہیں جب عوامی حمایت کا فقدان ہوتا۔ راولپنڈی تا لاہور، جی ٹی روڈ کے گردو نواح سب جگہ مسلم لیگ (ن) کے پاس ساری نشستیں (35/40)، مسلم لیگ کا اعتماد دیدنی ہے۔ خوشی ہے کہ جی ٹی روڈ پر ہماری تجویز کو پذیرائی ملی۔
شیخ صاحب ایک ہی سانس میں کئی اور جھوٹ اور تضادات مستحکم کر گئے۔ الزام لگایا کہ’’نواز شریف کا مشن فوج کو اقتدار میں لانا ہے‘‘۔ جھوٹ کے بھلا پائوں کہاں؟ دل کی بات ساتھ جوڑ دی، جنرل باجوہ کو جنرل ضیاءالحق کا پرتو بتایا۔ مزید کہا کہ نواز شریف نے سمجھنے میں غلطی کی۔ یاد رہے کہ شیخ صاحب کا مطلب 1977کا مارشل لاء اور بھٹو صاحب کا جنرل ضیاءالحق کو سمجھنے میں غلطی کی طرف تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اور باقی ججوں کے بارے میں بھی ایسا تاثر دیا شاید سپریم کورٹ کسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہو۔ عمران خان بھی ہمیشہ سپریم کورٹ بارے اپنے ایسے ہی اعتماد پر اتراتے رہتے ہیں۔ نواز شریف کو گاڈ فادر اور سیسلی مافیا جیسی تشبیہ بھی شاید اس زعم میں ممد و معاون ہے۔شیخ صاحب کئی بار بھرے مجمعوں میں فرما چکے ہیں کہ ’’نواز شریف نے ججوں کو 5بلین روپے رشوت پیش کی‘‘۔ احمد نورانی کا ایک جج کو ٹیلیفون کال کرنا، جنگ جیو کو توہین عدالت کا نوٹس مل چکا۔ پانچ بلین روپے کی آفر، جو معزز ججوں نے یقیناً رد کی ہو گی، عدالت کا نوٹس نہ لینا، تعجب ہے۔ نواز شریف کو توہین عدالت پر نااہل قرار نہ دینا؟ اچنبھے کی بات ہے، یقیناً اس پر ’’ناوصولی تنخواہ‘‘ سے زیادہ سہل تھا، نااہل ٹھہرانا۔ اگر شیخ رشید جھوٹا ہے جو یقیناً جھوٹا ہے تو شیخ رشید کو جیل کا راستہ نہ دکھانا، سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
سسٹم کو ڈی ریل کرنے کے لئے اب شیخ رشید کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ کچھ ہفتے پہلے ایک اہم قریبی شخصیت نے بے تکلفی میں بتایا کہ ’’نواز شریف کا مع سسٹم جانا بن گیا‘‘، دل دہل گیا۔ چند دن پہلے جنرل مشرف نے بھی یہی کچھ کہا۔ طاہر القادری نے قدم رنجہ فرماتے ہی، ’’گو شہباز گو‘‘ کا نعرہ دے کر پنجاب میں سیاسی انتشار کو آخری شکل دینے کا برملا اعتراف کیا ہے۔ آئین شکن رحجانات، خدشات، تفکرات کو بالآخر پاکستان کے عوام کے اتحاد نے ناکام بنا ناہے۔ جی ٹی روڈ کے ذریعے رابطہ عوام راست اور تاریخی قدم ہے۔ نواز شریف کو شہادت گاہ سیاست میں قدم رکھنا ہے۔ یہ حقیقت کہ میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی غلطیوں سے عبارت ہے اب تلافی کا وقت آن پہنچا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب نادیدہ قوتیں انگڑائی لیتی ہیں تو نظام درہم برہم رہتاہے جبکہ عدالتیں متزلزل اور سرنگوں ہو جاتی ہیں۔ کیا نادانی، ریاستی نظام کو نشانہ بنا چکی؟ یقین راسخ پاکستان کے عوام کا اتحاد، بے رحم، مفاداتی سازشوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔ جی ٹی روڈ کا 3روزہ سفر، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے زیادہ بیداریِ عوام ہے۔ جی ٹی روڈ کا قافلہ، ریاست کو سیاسی انتشار، افراتفری و عدم استحکام سے نکالنے کا واحد تریاقی نسخہ رہے گا۔ 6دہائیوں سے زیادہ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر، گو سوچے سمجھے بغیر ’’پاک سر زمین کے نظام‘‘ کا راگ الاپتے ہیں۔ تحت الشعور میں کبھی یہ بات داخل نہ ہو پائی کہ’’کشور حسین شاد باد‘‘ کے نظام کے ثمرات ’’قوت اخوت عوام‘‘ میں ہیں۔ بات حتمی کہ پاک سر زمین کا استحکام، ’’ قوت اخوت عوام‘‘ سے جڑا ہے۔ اگر جی ٹی روڈ کے عوام باہر نکلے تو سازشوں نے یقینی طور پر دم توڑنا ہے۔ سازشی دم دبا کر بھاگیں گے جبکہ اداروں کو بھی طاقت ملے گی۔ ’’قوم، ملک، سلطنت پائندہ تابندہ باد‘‘ کو یقینی بنانا ہے تو راستہ ایک ہی، ’’قوتِ اخوتِ عوام‘‘۔

تازہ ترین