• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی ہاں! اب تو تحریک انصاف کے عمران خان نے بھی بالآخر خود انگلی اٹھا کر نواز شریف سے سوال کر ڈالا ہے کہ وہ کن غیرملکی اشاروں پر اب اسلام آباد سے لاہور کا سفر بذریعہ سڑک کررہے ہیں؟ ہمارے ہاں نظریہ سازش اور غیرملکی اشاروں کے ذکر کا فیشن تو بڑا پرانا ہے۔ جب ہمارا مخالف فریق زور پکڑنے لگے یا پھر قابو سے باہر ہوجائے تو ہم غیرملکی سازش اور حمایت کا ذکر کرکے الزام جڑ دیتے ہیں۔ بسا اوقات ہمارے بعض سیاستدان خود کو غیرملکی سرپرستوں کا حمایت یافتہ قرار دے کر اپنا سیاسی وزن بڑھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ لیکن بدلتے ہوئے عالمی حالات، اکیسویں صدی کے تقاضے، مشرق وسطیٰ اور پاکستان کے اردگرد تیزی سے گھیرائو کی صورت حال، پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور سب سے زیادہ پاکستان کے 40؍سالہ ماضی کے دوران پاکستان کے حوالے سے جو خفیہ امریکی دستاویزات ڈی کلاسفائڈ ہوکرسامنے آئی ہیں اگر ان کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے اور اہم کرداروں کے رول ’’خدمات‘‘ اور نتائج کو سمجھ لیا جائے تو پھر پاکستان میں پھیلائی جانے والی موجودہ افراتفری، پولیٹکل پولارائزیشن، پارلیمنٹ سے بے نیازی اور ڈائیلاگ کی بجائے سیاسی محاذ آرائی کے تناظر میں پاکستان کے خلاف غیرملکی کھیل کہنا مجھے بالکل درست نظر آتا ہے اور جنوبی امریکہ، ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں اپنی عالمی برتری برقرار رکھنے والی قوتیں اس انداز سے مداخلت کرتی ہیں کہ آپس میں متحارب داخلی قوتوں اور کرداروں میں سے کسی کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب کیسے اور کیونکر اپنی ہی قومی سلامتی و ترقی کے خلاف استعمال ہوگیا۔ پاکستان کی مثال ہی لے لیجئے۔ اب تک پاکستان کے بارے میں امریکی اداروں کی جو خفیہ دستاویزات 30؍سال کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد ڈی کلاسفائی ہوکر منظرعام پر آئی ہیں۔ ان کا مطالعہ ہر صاحب علم پاکستانی کے لئے ضروری ہے۔ امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کے وزیر اعظم بننے سے بھی قبل غیرملکی سرپرستوں کے اشاروں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بڈ بیرکے خفیہ فضائی اڈہ کی تعمیر اور خفیہ پروازوں کا پاکستانی قوم کو تب پتہ چلا تھا جب سوویت یونین کے خروشیف نے پشاور کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی امریکی پوٹو طیارہ گرانے کے بعد پاکستان کو دی تھی۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں پی این اے کا عوامی نعرہ ’’نظام مصطفی کا نفاذ‘‘ تھا جمہوریت کی حمایت اور الیکشن میں دھاندلی پر احتجاج تھا لیکن اس تحریک و تبدیلی کے لئے امریکی ڈالرز کی بھرمار اور تبادلہ ریٹ میں کمی اور اب امریکی دستاویزات نے ثابت کردیا کہ ’’نظام مصطفی‘‘ کے مقدس نعرہ کی آڑ میں یہ غیرملکی سازش کیا رنگ لائی تھی۔ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کون کب اور کیسے اور کس کام کے لئے استعمال ہوگیا۔ ضیاء الحق کا مارشل لا، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی، افغان جہاد اور ضیا الحق کی موت سبھی مقامی داخلی سیاست کا حصہ نظر آئے مگر اب وقت گزر جانے کے بعد حقائق آپ کے سامنے ہیں سانحہ مشرقی پاکستان، معاہدہ سیٹو اور سینٹو، پاکستان ایران ترکی کا اسلامی اتحاد کے نام پر معاہدہ اب ان سب کی تاریخ اور خفیہ حقائق سب کے سامنے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں ہم نے افغانستان کے خلاف صرف آٹھ منٹ میں امریکی اتحادی بننے سے لے کر 14؍سال تک جس بے جگری سے امریکی مفادات اور انسداد دہشت گردی کے مقاصد کے لئے خود کو قربان کیا آج اس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح عمران خاں کی چار سالہ تحریک دھرنا، مسلسل محاذ آرائی اور کسی ڈائیلاگ کے بغیر یکطرفہ مطالبات پارلیمنٹ کے ممبر ہونے کے باوجود پارلیمنٹ سے لاتعلقی، طویل دھرنوں سے قومی معیشت اور امیج کو ہونے والے نقصان سے بے پروائی اور موجودہ صورت حال کے بارے میں حقائق، نتائج اور اصل ہاتھ سامنے جب آئیں گے تو پھر قوم کو علم ہوگا کہ اس ’’گیم‘‘ کے کونسے ایکٹر نے کیا رول ادا کیا مگر وقت گزرنے کے بعد ہی غیرملکی سرپرستوں کی جانب سے احساس فتح کے ساتھ حقائق بیان کرنے پر ہی علم ہوگا۔ ہمارے ماضی کی طرح ہماری نئی نسل نتائج بھگتے گی اور نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے نظر آئیں گے یا پھر شہر خموشاں میں قیام پذیر ہوں گے۔ پاکستان میں موجودہ انتشار کسی جمہوری موڑ یا انتخابات پر رکتا نظر نہیں آتا۔ سرحدوں اور دہشت گردی سے لے کر داخلی انتشار، سیاسی و عدالتی محاذ آرائی تک ہر مسئلہ کا حل فوج کو سمجھنا اور توقع رکھنا کوئی درست رویہ نہیں۔ اس پر تمام ذمہ داریاں ڈال کر من مانے انتشار کے گیم کھیلنا ٹھیک نہیں۔ غیرملکی اشاروں پر عمل کرنے والوں کو وقتی مراعات، حکمرانی ضرور مل سکتی ہے مگر وہ آخر میں شاہ ایران، فلپائن کے مارکوس، پاناما کے نوریگا کی ماننداستعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح اپنے ہی غیرملکی سرپرستوں کے ہاتھوں کوڑے کی نذر کردئیے جاتے ہیں۔ بہتر ہے متحارب سیاستداں ڈائیلاگ سے مسائل حل کرلیں۔ ایک دوست نے امریکہ میں ری پبلکن صدر ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان محاذ آرائی، میڈیا سے تصادم اور روس امریکہ تعلقات میں کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کی صورت حال کا جواز پیش کیا۔ عرض ہے کہ امریکہ عالمی سپر پاور اور ایک مضبوط اور منظم سیاسی نظام کا حامل ملک ہے جو ایسی محاذ آرائی اور انتشار کے چار سال باآسانی برداشت کرسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سیاست میں نووارد صدر ہیں جنہیں نظام سنبھالا دے کر سیکھا اور چلا رہا ہے لیکن اس کے باوجود خود ان کی ری پبلکن پارٹی کی قیادت بھی ٹرمپ کے اقدامات اور ٹویٹس سے ناراض ہے۔ ٹرمپ کے موقف اور عمل میں تضادات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر اوباما کی سرکاری تعطیلات پر شدید تنقید کرتے ہوئے ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر بنے تو تعطیلات نہیں لیں گے اور صرف کام کریں گے گالف نہیں کھیل سکیں گے۔ لیکن صدر بننے کے بعد صرف 200 دن کی مدت کے دوران وہ صدر اوباما کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعطیلات لے چکے ہیں 28ویک اینڈز میں سے 13ویک اینڈز سرکاری اخراجات پر اپنی فلوریڈا اور نیوجرسی کی ذاتی جائیداد پر تعطیلات میں گزار چکے۔ اسی طرح واشنگٹن کو سیاسی کرپشن اور اجارہ داری سے نجات دلاکر ٹرانسپرنسی، کفایت شعاری اور تیز رفتار فیصلوں کی صلاحیت دے کر فعال اور عوامی بنانے کا وعدہ اور امریکہ کو فرسٹ اور سب پر مقدم قرار دینے والے ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک اپنے وہائٹ ہائوس سے حقائق اور حساس معاملات کے راز افشا ہونے سے روکنے میں ناکام ہیں۔ ان پراپنی سیاسی حریف ہیلری کلنٹن کو مقدمہ چلاکر جیل بھجوانے کی دھمکی اور دبائو کے واقعات بھی سامنے آئے۔ اوباما ہیلتھ کیئر پروگرام کے خاتمہ کا وعدہ کیا اور امریکی سیاست میں ایجی ٹیشن اور امریکہ میں سیاسی تقسیم کا جارحانہ رنگ بھرا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ کامیاب بزنس مین ضرور ہیں مگر سیاست میں غیرآزمائے ہوئے ہیں اور صدر بن کر امریکی معیشت و سیاست کو درست کردیں گے مگر اب وہائٹ ہائوس کے مکین صدر ٹرمپ کا عالم یہ ہے کہ وہ صرف 200دن کی صدارت میں اپنے کئی اہم ترین مشیروں اور وزیروں کو ’’فائر‘‘ کرکے گھر بھیج چکے ہیں۔ اور کسی پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ صرف اپنے خاندان کے دو بیٹوں ایک بیٹی اور داماد کے علاوہ کسی پر اعتماد نہیں۔ ذاتی کاروبار کی ڈیلز اور ترقی کا کام جاری ہے۔ ملکی سیاست اور عالمی تعلقات پر اثر ڈالنے والے امریکی میڈیا کے ساتھ محاذ آرائی بلکہ ایک جنگ جاری ہے۔ اٹارنی جنرل وہائٹ ہائوس کی خبریں ’’لیک‘‘ کرنے والوں اور صحافیوں کے خلاف نئے سخت قانون بناکر امریکہ میں آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش میں ہیں۔ روس سے تعلقات کے بارے میں سخت آزمائش اور تنقید کا شکار ہیں۔ جی ہاں کسی دوسرے شعبے میں کامیاب اور سیاست میں نووارد ڈونلڈ ٹرمپ مضبوط امریکہ میں ابھی تک یہ کارکردگی دکھا رہا ہے۔ پاکستان میں سیاسی اقتدار کے لئے غیرملکی اشاروں اور سرپرستوں کے تابعدار ڈونلڈ ٹرمپ کے وعدوں، عمل اور مشکلات سے سبق حاصل کریں۔

تازہ ترین