• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات طے ہے کہ عدالتی فیصلے نے عمران خان کو سرخرو کردیا ہے۔ انصاف کی تحریک نے کامیابی کی وادی میں پہلا قدم رکھ دیا ہے۔ امید کے چراغ روشن ہو گئے ہیں۔ تبدیلی کی شاخِ تمنا سے غنچوں کے چٹخنے کی آواز سنائی دی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے رستے میں موسم ِ بہار کو روک رکھا تھا انہیں رستہ سے اٹھا دیا گیا ہے۔ پتھرائے ہوئے وقت میں ذرا سی حرکت ہوئی ہے۔ زمین و آسماں کی گردشیں تھوڑی سی تیز ہوئی ہیں۔ جمے ہوئے دریا میں برف ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہی ہے۔ بصارتوں میں ذرا سی بینائی لوٹ آئی ہیں۔ سماعتوں کو سنائی دینے لگا ہے۔ سکوت میں چیخ نمودار ہوئی ہے۔ خوابوں سے بھری آنکھیں تعبیروں کی طرف متوجہ ہوئی ہیں۔ مردہ منظروں میں زندگی چونک اٹھی ہے۔ اڑتی ہوئی راکھ کا غبار زمین پر بیٹھ رہا۔ خودکش دھماکوں سے تباہ شدہ معاشرہ پھر سے سبزہورہا ہے۔ قبروں پر روئیدگی اُگ رہی ہے۔ موت کے کتبے ٹوٹتے جارہے ہیں۔ میں امید کے پرندوں کی پھڑپھڑاہٹیں سُن رہا ہوں۔ تپتی ہوئی ریت پر لہلہاتی ہوئی فصلیں دیکھ رہا ہوں۔ جمہوریت پتلی تماشے سے نکل کرلوگوں میں جا رہی ہے۔ میرے نزدیک اِس صبح کی پہلی شعاع کا کریڈٹ صرف ایک شخص کوجاتا ہے۔
وہی جس نے مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں آس کا چراغ جلایا۔ اللہ تعالیٰ اُس کے راستے ہمیشہ روشنیوں اور خوشبوئوں سے منور رکھے۔ میرے خیال میں اُ س شخص کا نام عمران خان ہے۔ کسی اور کے خیال میں کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔
صبح کے اِس متوالے پر شبِ تاریک کے رکھوالے بڑے عرصہ سےحملہ آور ہیں۔ شب خون مارنے کا عمل ہر رات کے دامن پر جمے ہوئے لہوکے داغ کی طرح ہے۔ عمران خان پر یہ حملے بڑے عرصہ سے جاری ہیں مگر ان میں شدت اُس رات سےآئی ہےجس رات پانامہ کے اندھیروں سے اچانک کچھ کرنیں نمودار ہوئیں اور پوری دنیا میں پھیل گئیں۔ سب سے پہلے عدالت ِ عظمی میں عمران خان پربھی آف شور کمپنی بنانے کا الزام لگایا گیا جو آخر کار غلط ثابت ہوا۔ پھر بنی گالا والا گھر الزامات سے رنگین کردیا گیا۔ عمران خان نے اُسےخریدنے کی منی ٹریل بھی عدالت میں پیش کردی۔ پھر الزام لندن والےفلیٹ تک پہنچ گیا کہ وہ عمران خان نےکیسے خریدا تھا وہ رقم کہاں سے آئی تھی عدالت نے اُس کے ذرائع بلکہ ثبوت مانگ لئے۔ عمران خان اُس امتحان میں پورا اترا۔ راتوں کی وکالت کرنے والے نے الزام دیا کہ عمران خان پر تو سات خون معاف ہیں۔ اُس کے بعد کوئی ’’گلالئی ‘‘آگئی۔ اُس کی عمر بھی ٹیلی وژن اسکرین پر دوچار ہفتوں سے زیادہ نہیں۔ اُس کے بعد یقیناً کوئی اور آئے گی۔ الزامات کا رقص جاری رہے گا۔ عین ممکن ہے کہ خیبر پختونخوا گورنر ہائوس میں بازار لگ جائے۔ گھوڑوں کی خریداری ہواوروہاں حکومت بدل دی جائے۔ مگر ایسی باتوں سےکوئی فرق نہیں پڑتا۔ تاریکیوں کی ایسی مبہم دیواریں روشنیوں کے کاروان کو نہیں روک سکتیں۔ تبدیلی کا جنون جو ہر دھڑکتے دل اور ہرتر دماغ میں رچ بس گیا ہے۔ اُس پر بہار ضرور آئے گی۔ میرا ایمان ہے کہ پاکستان کو ایک دن دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہونا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب یورپ سے لوگ پاکستان کی طرف ہجرت کیا کریں گے۔
ابھی ایک خطرہ ہمارے پائوں میں دھڑک رہا ہے۔ اللہ نے چاہا تو ہم اِس پل صراط سے بھی بخیر و خوبی گزر جائیں گے۔ خطرہ یہ ہے کہ وہ کام جو عمران خان نے گزشتہ چار سال میں نہیں کیا تھا۔ نون لیگ وہی کرنے جارہی ہے۔ سیاسی شہید بننے کےلئے جمہوریت کوڈی ریل کرنےکی پلاننگ مکمل کرلی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں آئین کے اندر کچھ ترامیم پر کام کیا جارہا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ اندیشہ، اندیشہ ہی رہے۔ نون لیگ کی حکومت کوئی غیر آئینی کام نہ کرے۔ خطرے کی بنیادی وجوہات دو ہیں۔ ایک تو وہ مقدمات ہیں جن کی نیب میں سپریم کورٹ کے جج کی زیر نگرانی تفتیش و تحقیق ہورہی ہے۔ دوسرا ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے قصاص کا مطالبہ۔ وہ لاہور پہنچ چکے ہیں۔ چودہ آدمیوں کے قتل کا خون کسی وقت بھی رنگ لا سکتا ہے۔ خون پھر خون ہے گرتا ہے تو جم جاتا ہے۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ جے آئی ٹی کے ممبران نےانصاف کے متلاشیوں کو نئی زندگی دے دی ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ ابھی کچھ لوگ موجود ہیں۔ یعنی نون لیگ کی حکومت کی موجودگی میں بھی انصاف ممکن ہے۔ اس بات کی توقع بھی کی جارہی ہے کہ دوہزار اٹھارہ میں آئین کے مطابق صاف ستھرےانتخابات ہونگے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی کامیابی سے کوئی صاحبِ فہم انکار نہیں کرسکتا۔ میرے خیال میں اس وقت پی ٹی آئی کو زیادہ توجہ اُس عمل کی طرف دینی چاہئے جو نئے پاکستان کی بنیاد ثابت ہو۔ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ نئے پاکستان کے نئے نظام کو دستاویزی شکل میں سامنے لائے۔ ہر شعبے میں تبدیلیوں کے حوالے سے اپنے کتابچے شائع کرے۔ جن میں بتایا جائے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیسی ہوگی۔ ملک میں معاشی استحکام کیسے آئے گا۔ ہر شخص کو مفت علاج کی سہولت کیسے حاصل ہوگی۔ ہر بچے تک اعلیٰ تعلیم کیسے پہنچے گی۔ تنگ نظری اورمذہبی تشدد کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ عدالتی نظام کیسے بہتر ہوگا۔ قانون کی حکمرانی کو کیسے یقینی بنایا جائے گا۔ پولیس کے نظام کو کیسے بہتر کیا جائے گا۔ ٹیکس سسٹم کیسے کام کرے گا۔ بوڑھوں کی زندگی کیسے بہترہوگی۔ بچوں کے حقوق کا کیسے تحفظ کیا جائے گا۔ عورتوں کو کیسے اُن کے حقوق ملیں گے۔ بے روزگاری کیسے ختم ہوگی۔ چھوٹے شہروں میں سہولتیں کیسے بڑے شہروں کے برابر آئیں گی۔ مسئلہ کشمیر کے حل کےلئے کیا اقدامات کئے جائیں گے۔ ملٹری اور سویلین ریلیشن شپ کیسے ایک پیج پر آئے گی۔ دفاع کیسے مضبوط تر ہوگا۔ اقلیتوں کو کیسےتحفظ فراہم کیا جائے گا۔ احتساب کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ توانائی کے شعبے میں کیسے بہتری لائی جائے گی۔ زراعت کا شعبہ کیسے بہتر ہوگا۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں کیسے سربلندی حاصل کریں گے۔ تجارت کے میدان میں کیسے کامیابیاں حاصل کریں گے۔ سیاحت کے شعبے میں کیسے کامرانیاں حاصل ہونگی۔ میرے خیال میں یہ کام وہ پاکستانی بہتر اندازسے کر سکتے ہیں جو یورپ اور امریکہ میں مقیم ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ دنیا بھر کےریاستی طریقہ کار کا مطالعہ کر کے نئے پاکستان کے خدو خال واضح کریں تاکہ دوہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے پہلے مستقبل کا لائحہ عمل پاکستانی قوم کے سامنے ہو۔

تازہ ترین