• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے سیاسی منظرنامے میں تیز رفتار تبدیلیوں کا عمل جاری ہے ۔ وزارت عظمیٰ کے بعد وفاق میں حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں بھی الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق تبدیلی جلد ہی عمل میں آنے والی ہے اور اطلاعات کے مطابق یہ ذمہ داری میاں شہباز شریف کو تفویض کیے جانے پر پارٹی کے اندر اتفاق رائے پایا جاتاہے جبکہ پاناما کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے تحت برطرف کیے جانے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف دارالحکومت اسلام آباد سے اپنے گھر جانے کے لیے عازم لاہور ہوچکے ہیں۔ جی ٹی روڈ کے راستے ان کا یہ سفر تین دن میں مکمل ہوگا ۔ عدالتی فیصلے کی رو سے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نااہل قرار پانے کے باوجود وہ بہرحال مقبول سیاسی رہنما ہیں ، ملک کی ترقی کے لیے ان کی غیرمعمولی خدمات سے انکار کسی بھی انصاف پسند شخص کے لیے ممکن نہیں،بین الاقوامی سطح پر بھی انہوں نے نمایاں مقام حاصل کیاہے،اس لیے اکثر تجزیہ کاروں کی رائے میں ان کی جماعت کے وابستگان کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھنے والے عام لوگ بھی بڑی تعداد میں پورے راستے میں ان سے اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوں گے جبکہ مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کے خلاف اظہار جذبات کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش بھی قرین قیاس ہے۔ دہشت گردی کے خدشات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لہٰذا حفاظتی انتظامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو بھی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے جبکہ ان کی پارٹی میں اہم مقام رکھنے والی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی نے ان پر اخلاقی نوعیت کے سنگین الزامات لگا نے اور ان کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کرکے ان کے لیے نئی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے خلاف نہ صرف دوسری جماعتوں بلکہ خود تحریک انصاف کے وابستگان اور ارکان اسمبلی کی جانب سے بھی بے اندازہ کرپشن کی شکایات عام ہیں ، تاہم صوبائی حکومت کی کرپشن کے حوالے سے عمران خان نے حال ہی میں اپنا موقف یکسر تبدیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان معاملات سے ان کا کوئی واسطہ نہیں جبکہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے اپنے وزیر اعلیٰ سے بازپرس بظاہر ان کی لازمی ذمہ داری ہے۔ ان اسباب کی بناء پر تحریک انصاف اور اس کے سربراہ کی مقبولیت میں رائے عامہ کے جائزوں کی رو سے نمایاں کمی کے خدشات ہیں اور زیر سماعت مقدمات کی وجہ سے نااہل قرار پاجانے کے خطرے کی تلوار ان کے سرپربھی لٹک رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پر بھی سوئس بینکوں کے خفیہ کھاتوں میں لوٹی گئی قومی دولت منتقل کرنے کے الزامات ہیں، اس پارٹی کے پچھلے دور حکومت میں اس کے وزرائے اعظم عدالتوں سے سزا پاچکے ہیں اور کرپشن کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ ان اسباب سے اس کی مقبولیت میں ماضی کی نسبت کسی قدر کمی کے شواہد ہیں اور گزشتہ عام انتخابات میں اس کا بھرپور مظاہرہ ہوچکا ہے ، دیہی سندھ میں اگرچہ اب بھی اس کا کوئی متبادل موجود نہیں لیکن ملک کے باقی حصوں میں اس کی مقبولیت کا گراف بہرحال گرگیاہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم بھی اپنے بانی کے پاکستان مخالف رویے کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہے اور الطاف حسین کے سابقہ سیاسی کردار کی بحالی اب ممکن نہیں۔ دوسری جانب اس امر پر قوم کی بھاری اکثریت پوری طرح متفق ہے کہ آئین کے مطابق جمہوری عمل جاری رہنا چاہیے تاکہ ملک کو بتدریج بہتر قیادت حاصل ہوسکے ۔ جمہوری عمل کا جاری رہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایسا نہ ہونے سے عوام میں احساس محرومی ابھرتا ہے اور علیحدگی پسندی کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات میں دس ماہ سے بھی کم باقی رہ گئے ہیں جن میں ملک کے کروڑوں رائے دہندگان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئندہ پانچ سال کے لیے کاروبار مملکت کس کے سپرد کیا جائے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف واضح کرچکے ہیں کہ عدالتی نظرثانی کے نتیجے میں ان کی نااہلی کا فیصلہ تبدیل بھی ہوگیا تب بھی وہ وزیر اعظم نہیں بنیں گے جبکہ ان کے خلاف نیب کے ریفرنسز کے احتساب عدالتوں میں جانے اور ان کا فیصلہ ہونے میں ابھی کم و بیش آٹھ مہینے لگیں گے ۔ظاہر ہے کہ ان مقدمات میں دفاع کے لیے انہیں خاصا وقت صرف کرنا ہوگا اور ویسے بھی حکومت اور پارٹی دونوں کی سربراہی سے معزولی کے بعد وہ قومی سیاست میں کوئی براہ راست کردار تو شاید اب ادا نہ کرسکیں لیکن پارٹی اور ملک کو ان کے وسیع تجربے ، سیاسی بصیرت اور بین الاقوامی امور کی مہارت سے بہرحال بھرپور استفادہ کرتے رہنے کی ضرورت رہے گی۔ ملک میں احتساب کے عمل کا جاری رہنا بھی عین قومی مفاد کا تقاضا ہے کیونکہ اس کے بغیر قومی وسائل کو بااثر اور طاقتور افراد اور طبقوں کی دستبرد سے بچایا نہیں جا سکتا۔ لیکن یہ احتساب صرف سیاستدانوں تک بہرحال محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ سب کے لیے یکساں، خودمختار اور ہمہ گیر نظام کے تحت اس کا دائرہ تمام ریاستی اداروں اور قومی زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد تک وسیع کیا جانا چاہئے جبکہ عوام سے ووٹ لے کر اقتدار میں آنے کی خواہاں سیاسی جماعتوں کی قیادتوں اور وابستگان کو جائز عدالتی احتساب پر احتجاج کے بجائے تعاون کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے اور اگر آئین اور قانون کی رو سے قابل مواخذہ ٹھہریں تو عدالتی فیصلوں کو قبول کرنا چاہئے۔ سیاسی جماعتوں کو خود اپنے اندر بھی نگرانی اور احتساب کا مؤثر بندوبست کرنا چاہئے اور عام انتخابات میں عوام کے سامنے ایسے افراد کو پیش کرنا چاہیے جن کے دامن ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہوں۔ملک جن سنگین داخلی اور خارجی چیلنجوں سے دوچار ہے، ان کے پیش نظر قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ سیاسی طاقتیں الزام تراشی اور کیچڑ اچھالنے کی سیاست بلاتاخیر ترک کردیںاور احتساب کے معاملات کسی بھی دباؤ اور مداخلت کے بغیر عدالتوں کو طے کرنے دیں تاکہ قوم کو دیانتدار، اہل اور مخلص قیادت میسر آسکے جس کے بغیر قومی عزت و سرفرازی اور ترقی و خوشحالی کی منزل کا حصول محال ہے۔

تازہ ترین