• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسکول کے ابتدائی درجوں میں سائنس اور ریاضی کے نام پر جو پڑھایا گیا، بالکل یاد نہیں۔ اساتذہ بہت اچھے اور شفیق تھے۔ مشکل یہ تھی کہ وہ خود سائنس اور ریاضی سے نابلد تھے۔ کتاب میں جو لکھا تھا، اسے بار بار دہرانے اور حفظ کروانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ایک جگہ ریاضی کی کتاب میں لکھا تھا، صفر کا تیسرا استعمال۔ قسم لے لیجیے جو آج تک معلوم ہو سکا ہو کہ صفر کے استعمال سے کیا مراد ہے۔58-2(الف)کا استعمال پوچھیں تو داغوں کی بہار البتہ دکھا سکتے ہیں۔ 62اور 63کے اثرات جاننا ہوں تو درد مندوں کا جگر ملاحظہ فرمائیے۔ لطف یہ ہے کہ زخموں کا شمار ابھی مکمل نہیں اور سنگ زنی میں مہلت کا ابھی امکان نہیں۔ اسی طرح سائنس کی کتابوں میں ’ہوا وزن رکھتی ہے‘ اور ’ہوا کا دباؤ‘ جیسے موضوعات پڑھائے گئے، واللہ بالکل معلوم نہیں ہو سکا کہ ہوا کے دباؤ اور پانی کے دباؤ میں کیا فرق ہے۔ لہو کا دباؤ سمجھنے میں بھی ایک عمر صرف ہوئی۔ بار امانت کبھی اٹھایا نہیں، جنازے ہی اٹھاتے آئے ہیں۔ دباؤ کی غیر سائنسی اقسام سے واسطہ رہا۔
جسٹس جاوید اقبال مرحوم قانون کی تعلیم مکمل کر کے 1956ء میں پاکستان واپس آئے۔ اقبال کے فرزند کو رونمائی اور تعلقات بنانے کی ضرورت ہی نہیں تھی، سارا پاکستان گھنگھریالے بالوں والے گورے چٹے کشمیری نوجوان کو جانتا تھا۔ جاوید نامہ سب نے پڑھ رکھا تھا اور عمر جاوید کی دعائیں دیتے تھے۔ ڈوسو کیس کا فیصلہ آیا۔ جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت جنرل ایوب خان کی بغاوت کو جائز قرار دے دیا۔ فرمایا کہ کامیاب انقلاب بدیہی طور پر اپنا جواز رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ ناروے کے ماہر قانون کیلسن کے نقطہ نظر سے کشید کیا گیا تھا۔ جسٹس کیلسن ابھی حیات تھے، اپنے بال نوچتے تھے کہ میں نے ایسا کہیں نہیں کہا۔ خدا معلوم پاکستان کے جسٹس منیر نے میری کون سی تحریر سے یہ نظریہ اخذ کیا ہے۔ عزیزان من، اس نظریے کی صراحت تو جسٹس رستم کیانی نے راولپنڈی سازش کیس میں کر دی تھی۔ دفاع کے وکیل حسین شہید سہروردی نے دلیل دی کہ جب کچھ کیا ہی نہیں تو بغاوت کی سازش کا الزام کیسے ثابت ہوتا ہے؟ جسٹس کیانی نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، ’کچھ کیا نہیں، اسی لیے تو سازش ہے، کامیاب ہو جاتی تو یہی سازش انقلاب کہلاتی‘۔ حکومت کی تبدیلی نہ ہوئی، خود کشی ہو گئی۔ ناکام ہوئے تو جرم، کامیاب ہو گئے تو کامران ٹھہرے۔ اواخر 1958 کی ایک شام جاوید اقبال ٹہلتے ٹہلتے جسٹس منیر کے گھر جا پہنچے۔ اس روز ڈوسو کیس کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ وہاں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ جسٹس صاحب کے خون کا دباؤ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا تھا۔ صوفے پر بے حس و حرکت پڑے تھے۔ سارا گھر مانند تصویر سکتے میں تھا۔ معالج سرتوڑ کوشش کر کے جسٹس صاحب کے خون کا دباؤ معمول پر لانے میں کامیاب ہو گیا۔ ہماری تاریخ کا مزاج بدستور ناساز ہے۔ جسٹس منیر کس نوعیت کے دباؤ میں تھے، کچھ معلوم نہیں۔
مارچ 1971 میں صدر یحییٰ خان ڈھاکہ پہنچے۔ مجیب الرحمٰن سے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ مجیب الرحمٰن کا موقف تھا کہ مجھ پر مشرقی پاکستان کے عوام کا دباؤ ہے۔ چھ نکات پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو فرماتے تھے کہ مجھ پر مغربی پاکستان کے عوام کا دباؤ ہے۔ ایک مشیر نے صدر یحییٰ سے کوئی راستہ نکالنے کی درخواست کی تو صدر محترم نے فرمایا، ’بچو، مجھے اپنے بیس (base) کا بھی تو خیال رکھنا ہے‘۔ یحییٰ خان کا اشارہ راولپنڈی کی طرف تھا۔ صدیق سالک Witness to Surrender میں لکھتے ہیں کہ مجیب، بھٹو اور یحییٰ کے پاس دباؤ کا اپنا اپنا عذر موجود تھا لیکن حقیقی رہنما کی تو پہچان ہی یہ ہے کہ مشکل سے مشکل صورت حال میں فیصلہ کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھتا ہے اور دباؤ سے نکلنے کا راستہ نکالنا جانتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ دباؤ کا سامنا کرنے کی نوبت آئے تو ہم سیاست دان ہی کو ٹکٹکی پر باندھتے ہیں۔ کیا اگست 1977 سے اپریل 1979 تک بھٹو صاحب پر دباؤ نہیں تھا؟ کیا 18 اکتوبر 2007 کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پر دباؤ نہیں تھا؟ کیا اپریل 1993 اور اکتوبر 1999 میں نواز شریف پر دباؤ نہیں تھا۔ کیا مظہر علی خان اور رضیہ بھٹی پر بطور صحافی کبھی دباؤ نہیں آیا؟ کیا دباؤ محض ہوا، پانی اور ڈنڈے کا ہوتا ہے؟
مہذب معاشرہ اداروں کی صورت میں ایسا بندوبست کرتا ہے کہ ہر شہری دباؤ سے آزاد ہو کر اپنا فرض منصبی ادا کر سکے۔ اس کے لیے دستور اور قانون سے وہ ابہام خارج کرنا پڑتے ہیں جن کی مدد سے ناجائز دباؤ پیدا کیا جاتا ہے۔ معاشرت میں اقربا پروری، طعنے اور کردار کشی کے زاویے خارج کرنا پڑتے ہیں۔ بشری جبلت اور جرم میں واضح لکیر کھینچنا ہوتی ہے تاکہ معاشرے میں بڑی تعداد میں وہ لوگ سامنے آ سکیں جو دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے پورے کردار پر قائم رہتے ہوئے اصولوں کو سربلند کر سکیں۔ سیاست دان ہوں تو مولوی تمیز الدین، وکیل ہوں تو محمود قصوری، جج ہوں تو رستم کیانی، خاتون ہوں تو عاصمہ جہانگیر… کسی کو جنرل شریف کا نام یاد ہے؟ جولائی 1977 میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین تھے، گویا منصب میں ضیاءالحق سے اوپر تھے۔ ضیاء الحق نے انتخابات ملتوی کیے تو استعفیٰ دے دیا کہ آپ نے تین ماہ کا وعدہ پورا نہیں کیا، میں فوج سے رخصت ہوتا ہوں۔
دباؤ ایک اضافی اصطلاح ہے۔ کرکٹ کے ایک بڑے کھلاڑی سے پوچھا گیا کہ 130 برس سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی جا رہی ہے، چوتھی اننگز ہر طرح کے حالات میں بیٹسمین کے لیے مشکل کیوں ٹھہرتی ہے؟ انہوں نے فرمایا، چوتھی اننگز میں اس قدر دباؤ ہوتا ہے گویا آپ پریشر ککر میں کھڑے ہو کر بیٹنگ کر رہے ہیں یامنجدھار میں تیرنا چاہتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں مارتے ہیں لیکن پانی نیچے کی طرف کھینچتا ہے۔ اسی دباؤ کی ایک دوسری صورت ملاحظہ فرمائیے۔ 1992 کے ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا جا رہا تھا۔ کم عمر اور ناتجربہ کار انضمام الحق کا بلا رنز اگل رہا تھا۔ کپتان عمران خان نے میچ سے پہلے انضمام کو ہدایت کی کہ ایان بوتھم کو احتیاط سے کھیلے۔ کریز پر پہنچ کر انضمام الحق نے ایان بوتھم کی دھواں دھار پٹائی کر دی۔ پاکستان فائنل جیت گیا۔ میچ کے بعد عمران نے انضمام کی تادیب کی کہ تم نے بوتھم کو کھیلنے میں احتیاط نہیں برتی۔ انضمام نے معصومیت سے کہا، ’کپتان، میں تو اسے پہچانتا ہی نہیں‘۔ دباؤ کا مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ انضمام الحق کی معصومیت ہے۔ مشکل یہ ہے کہ زندگی کی اونچ نیچ سے گزرتے ہوئے یہ معصومیت قائم نہیں رہتی۔ احمد مشتاق نے کہا تھا؛ مگر اس کار دنیا میں بہت دھبے لگے ہم کو… دباؤ کا حقیقی مقابلہ کرنے کے لیے اپنے دھبوں کو تسلیم کرنے کی ہمت درکار ہوتی ہے۔ 1979 گزر گیا اور بھٹو صاحب تاریخ میں رہائی پا گئے۔ بہت برس بعد جسٹس نسیم شاہ نے اعتراف کیا کہ ان پر دباؤ تھا۔ صاحب دباؤ تو ذوالفقار علی بھٹو پر بھی تھا۔ دباؤ ہوا کا بھی ہوتا ہے اور پانی کا بھی۔ دباؤ لہو کے فشار کو بھی کہتے ہیں۔ اگر اساتذہ نے دباؤ کی اقسام ٹھیک سے پڑھا دی ہوتیں تو آج ہم بھی دباؤ کا مقابلہ کر لیتے۔

تازہ ترین